DRA۔آزادکشمیر ۔۔۔ڈیفکٹو صوبہ ،آزادریاست یا عضوِ معطل

شیخ شرف الدین سعدیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک لالچی آدمی صبح سویرے خوارزم شاہ کی خدمت میں حاضر ہو ا پہلے وہ خوارزم شاہ کے آگے جھکا ،پھر زمین پر ماتھا رگڑتے ہوئے اس سے کچھ مانگا جب اس کے لڑکے نے اپنے باپ کو ذلت کی اس حالت میں دیکھا تو کہنے لگا ابا جان آپ نے تو مجھے بتایا تھا کہ سجدہ صرف قبلہ کی طرف کرنا چاہیے لیکن آج آپ نے دنیا کی حقیر چیزوں کے لیے بادشاہ کو قبلہ بنالیا کیاآپ کو معلوم نہیں کہ داناﺅں نے کہاہے

قناعت سرافرازداے مرد ہوش
سرِ پُرطمع پر نیاید زدوش

یعنی اے ہوش مند انسان قناعت سربلند رکھتی ہے اورلالچ سے بھرا سر کندھے سے نہیں اٹھتا

قارئین آزادکشمیر کی 64سالہ تاریخ بھی تضاد کا ایک ایسا نمونہ ہے کہ جب بھی اہل دل چشمہ بینا لے کر اسے دیکھتے ہیں تو کئی واقعات اور حادثات کی وجہ سے آنکھ بھی بھر آتی ہے اور دل بھی غم سے بوجھل ہوجاتاہے ہم نے یہ خطہ اس لیے حاصل کیاتھا کہ یہاں آزادی کا بیس کیمپ قائم کرکے بھارتی جبر وتسلط میں گرفتار بہن بھائیوں کو آزادی کی نعمت دلانے کے لیے جدوجہد کریں گے لیکن چند ایک مثالیں چھوڑ کر دیکھیں تو منافقت ،جھوٹ ،وقتی مفا دپرستی اور اقتدار حاصل کرنے کی خاطر قبلوں پر قبلے تبدیل کیے گئے اور وفاقی حکومتوں کو خداکی طرح پوجاگیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ناصرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کشمیری بے وقعت اوربے وقار ہوکر رہ گئے ۔

قارئین واحد مثال سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی شکل میں دکھائی دیتی ہے کہ جنہوں نے وزیر اعظم ہونے کے باوجود کشمیر کی عزت اوروقار کی بات ڈنکے کی چوٹ پر کی جس پر کئی مقتدر ادارے غصے میں بھی آئے اور انہوں نے راجہ فاروق حیدر خان کو ”اینٹی سٹیٹ “شخصیت بھی خفیہ قلم سے لکھ دیا لیکن آج ہم صحافتی دیانت داری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ راجہ فاروق حیدر خان آزادکشمیر کے وہ واحد لیڈر ہیں کہ جنہوں نے کشمیریوں کی عزت اور وقار کے لیے اپنے اقتدار اور وزارت عظمیٰ تک کی قربانی دے دی ان کا یہ کہنا تھا کہ جب ہم پانی کی تقسیم کے موقع پر میرپور کے لیے ایک فیصد پانی مانگنے کی بات کرتے ہیں تو صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ اس پر اعتراض کھڑا کردیتے ہیں جبکہ پانی ہم کشمیریوں کاہے انہوں نے اس پر کئی اجلاسوں سے واک آﺅٹ بھی کیا اور پرنٹ والیکڑانک میڈیا کے سامنے شدید ترین احتجاج بھی کیا ۔

قارئین اب ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں گزشتہ دنوں ادویات کے ناقص ہونے کی بدولت ایک سازش کے نتیجے میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں ان ہلاکتوں کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات کے مطابق ”ڈرگ ریگولیٹری ایجنسی “ قائم کی گئی 20ویں ترمیم میں اس کی منظوری دی گئی اور قومی اسمبلی اور سینٹ نے اس کی توثیق کردی حیرانگی کی بات یہ ہے کہ 15ممبران پر مشتمل وفاقی سطح کی DRAیعنی ڈرگ ریگولیٹری ایجنسی میں پنجاب ،سندھ ،خیبر پختون خواہ ،بلوچستان ،گلگت بلتستان ،فاٹا ،اسلام آباد ،پبلک پرائیویٹ سیکٹر سمیت پورے پاکستان کو نمائندگی تو دی گئی لیکن پاکستان کی شہ رگ کشمیر کے ایک نمائندے کو بھی اس میں شامل نہ کیا گیا یہ خبر اس قدر خوفناک اور مضر اثرات رکھنے والی ہے کہ اگر آخری نتائج کی طرف ذہن لے کر جائیں تو روح کانپ اُٹھتی ہے ۔

قارئین اس ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا مقصدکیاہے آئیے پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان 18ویں ترمیم کی روشنی میں کئی معاملات مشترک (Concurrent) ہوا کرتے تھے جن میں صحت اور تعلیم بھی شامل تھے ،اپیلٹ کورٹ ،لائسنسنگ بورڈ ،رجسٹریشن بورڈ یہ تینوں کام وفاق اور صوبے مشاورت سے کرتے تھے لیکن بنیادی کام پہلے وفاق کیاکرتاتھا جو صوبوں کو منتقل کردیا گیا PICکی ہلاکتوں کے واقعہ کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ ہدایات جاری کیں کہ ادویات کی صنعت کی نگرانی کے لیے وفاقی سطح پر DRAقائم کی جائے تاکہ ہر صوبہ اپنی اپنی DRAقائم نہ کرے سپریم کورٹ کی ہدایات سے قبل وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت میں یہاں تک تنازعہ چلاگیا کہ پنجاب حکومت نے وفاق سے مطالبہ کیا کہ یا تو فوری طور پر لاہور میں واقع ”شیخ زید ہسپتال “پنجاب حکومت کے سپرد کیاجائے بالکل اسی طرح جیسے کراچی میں جناح ہاسپٹل صوبہ سندھ کی حکومت کے حوالے کیاگیا بصورت دیگر پنجاب اپنی DRAقائم کرے گا خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا اب وفاقی سطح کی DRAقائم کردی گئی اور ہماری اطلاعات کے مطابق آزادکشمیر کے چیف سیکرٹری کو بھی خط لکھا گیا کہ وہ اس DRAمیں نمائندگی کے لیے اپنی تجاویز دیں چیف سیکرٹری آزادکشمیر نے اپنے چند نمائندوں کو اجلاس میں شرکت کے لیے بھیجا جو وہاں لکھ کر دے آئے کہ ہم اس DRAمیں شرکت نہیں کرنا چاہتے وفاق جو فیصلہ کرے گا ہمیں منظور ہوگا ۔

قارئین اس عاقبت نااندیشانہ حرکت کے کیاکیا نتائج نکلیں گے زرا سوچئے توسہی آزادکشمیر میں کہنے کو ایک نام نہاد صدر اور نام نہاد وزیر اعظم ایک ریاست اور ملک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اصل حقیقت کیاہے سب اچھی طرح جانتے ہیں بقول غالب

کیوں جل گیانہ تاب ِرُخ ِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقت ِ دیدار دیکھ کر
کیا آبروئے عشق جہاں عام ہو جفا
رکتاہوں تم کو بے سبب آزاددیکھ کر
بِک جاتے ہیں ہم آپ متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن ،عیار ِ طبعِ خریدار دیکھ کر
سرپھوڑ نا وہ غالبِ شوریدہ حال کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر

قارئین آج ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ہماری حیثیت کیاہے آزادکشمیر کے باسی کس حیثیت میں پاکستان کے ساتھ رہ رہے ہیں کیا ہم ”ڈیفکٹو پراونس “ہیں ،کیا ہم پر کٹے پرندے ہیں جنہیں آزادچھوڑ بھی دیا جائے تو وہ کہیں پر بھی اپنی مرضی کے ساتھ نہیں جاسکتے آخر کیاوجہ ہے کہ تمام قومی معاملات پر ہم درمیان میں کہیں معلق ہیں پاکستانی پالیسی ساز اپنے حال پر اور ہمارے حال پر رحم کریں اور ایک واضع پالیسی مرتب کریں ورنہ الجھن پیدا ہوں گی جس کے نتائج نہ پاکستان کے لیے اچھے ہوں گے اور نہ کشمیریوں کے لیے بہترہوں گے-

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
اُستادنے شاگرد سے پوچھا
پرنسپل کے کیا معنی ہیں
شاگرد نے اعتماد سے جواب دیا
سر جس پل سے پرنس گزرے اسے پرنسپل کہتے ہیں

قارئین آزادکشمیر کے صدر اور وزیر اعظم بھی کچھ ایسے ہی پرنس لگتے ہیں جن کا اختیار تو کچھ نہیں لیکن وہ سمجھتے یہی ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ ”ہزرائل ہائی نیس“آتاہے ۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374151 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More