روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی
ضروریات زندگی کو با آسانی پورا کرنے کیلئے ہمارے معاشرے کے تقریباََ سبھی
افراد اپنے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، دنیا کے کسی
بھی انسان بالخصوص پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی یہ بنیادی ضروریات زندگی
اگر ان کی انتھک جدوجہد کے بعد پوری ہو جائیں تو یہ دنیا ان کیلئے کسی جنت
سے کم نہیں، افسوس کہ پاکستان میں بسنے والے مڈل کلاس طبقے کی تمام خواہشات
زندہ درگور ہوچکی ہیں، خواہشات اس وقت جنم لیتی ہیں جب بنیادی ضروریات پوری
ہو جائیں یا ان کے پورا ہو جانے کی امید نظر آرہی ہو۔ روٹی، کپڑا اور مکان
کا نعرہ ملک کی سب سے بڑی ”جمہوری“ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی و
قائد ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) نے پاکستانی عوام کو دیا تھا اور ان کی
سیاست کا مقصد عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضروریات زندگی کو
پورا کرنے والے وسائل تک با آسانی رسائی دلانا تھا، ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم)
اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے یہ ایک الگ موضوع ہے، مگر اس وقت
ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کی جماعت کے موجودہ قائدین نے جس انداز میں
ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کے نعرے اور پاکستانی عوام کا جنازہ نکالا ہے اس
پر ان کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے، امریکی مفادات کی جنگ میں
پاکستانی عوام کو دھکیل کر جس معاشی بحران سے دوچار کروایا گیا ہے اس کے
پیچھے عالمی امن کے ٹھیکیدار امریکہ کے مذموم مقاصد ہیں، فاختہ جیسا کردار
ادا کرنے کا دعویدار بھیڑیا دنیا کے کونے کونے میں اپنی شرپسندی پھیلا کر
اپنے خباثت سے بھرپور نفس کو تسکین پہنچاتا رہا ہے، اور ایسے بھیڑیوں کا
ساتھ دینے کیلئے اور کئی بھیڑیے بھی ایکا کر لیتے ہیں، دوسروں کے منہ سے
نوالہ چھیننا ان بھیڑیوں کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم)
کے نعرے کے برعکس آج ہر انسان سے روٹی، کپڑا اور مکان چھینا جارہا ہے، روٹی
اس لئے چھینی جارہی ہے کیونکہ چھیننے والوں کا پیٹ ایک دوزخ کی مانند ہے جو
کسی صورت بھرنے کا نام نہیں لیتا اور کپڑا اس لئے چھینا جارہا ہے کہ روٹی
چھینتے چھینتے چھیننے والوں کا بدن اس قدر ننگا ہو چکا ہے کہ ان کو اپنا
بدن ڈھانپنے کیلئے پوری قوم سے کپڑا چھیننا ہوگا اور مکان اس لئے چھینا
جارہا تاکہ دھوپ، گرمی، بارش، آندھی، طوفان اور موسمی اثرات (عوام کے غیض و
غضب ) سے خود کو بچایا جاسکے۔ دنیا کے موجودہ ”فرعونوں“ کے ”فرعونی“ کردار
کو اگر تاریخ کا فرعون دیکھ لیتا تو وہ دریائے نیل میں چھلانگ لگا کرخود
کشی کرلیتا۔ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کی آمد آمد ہے اور حکومت روٹی،
کپڑا اور مکان تو دور کی بات پینے کا صاف پانی مہیا کرنے میں بھی ناکام ہے،
وزراءدھڑا دھڑ غیر ملکی دوروں پر روانہ ہورہے ہیں، قانون نام کی کوئی چیز
نہیں، پانچ پانچ منٹ کے وقفے کے بعد گورنر تبدیل، کراچی میں خون کی ہولی کس
کو خوش کرنے کیلئے کھیلی جارہی ہے؟ مملکت خداد پاکستان میں قدرت کے ذخائر
کس کیلئے محفوظ کرکے رکھے ہوئے ہیں؟ کوئلے کے بڑے بڑے ذخائر کے باوجود بجلی
کا بحران کیوں؟ پانچ منٹ پہلے نظام کی تبدیلی کا بیان دیا جاتا ہے اور اس
کے فوری بعد تردید۔۔۔! صوبائی اسمبلیاں جنگل میں منگل بلکہ دنگل کا نطارہ
پیش کررہی ہیں اور قومی اسمبلی ان کی سربراہی، حکومت کو چاہئے کہ ان
اسمبلیوں کو باقاعدہ طور پر اکھاڑا بنا دیں تاکہ وہاںکشتی کو صحیح معنوں
میں فروغ حاصل ہو، سیاسی ریسلروں کیلئے قانون وضع کئے جائیں اور امپائرز
اور ریفریز کی تعیناتی کی جائے، بھری فنڈز جاری کئے جائیں تاکہ وطن عزیز
کرپشن کے علاوہ کسی اور چیز میں بھی نام کما سکے، چاہے سیاسی کشتیوں میں ہی
کمالے، اسمبلیوں میں فری سٹائل ریسلنگ ہونی چاہئے تا کہ غربت، مہنگائی، بے
روزگاری، دہشت گردی، بجلی و گیس کے بحرانوں سے ستائی ہوئی عوام کو تفریح کے
کچھ تو مواقع میسر آئیں، رہ گئی روٹی، کپڑا اور مکان کی بات وہ تو پاکستانی
عوام پہلے ہی بھول چکے ہیںکہ روٹی کس بلا کانام ہے، کپڑا کیا ہوتا ہے، مکان
کسے کہتے ہیں، زندگی کس چیز کا نام ہے یہ کہاں پائی جاتی ہے، خوشحالی کیا
ہوتی ہے،
امن کسے کہتے ہیں، قانون کیا ہوتا ہے؟
غرض یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔
روٹی، کپڑا اور مکان
ترس رہا ہے ہر انسان |