ایک خبر کے مطابق ہمارے ملک میں
موجود تیسری جنس یعنی خواجہ سراﺅں نے بھی اسمبلی میں نشستوں کا مطالبہ کر
دیا ہے۔لیں جناب! بیچاروں کو قبرستان میں سیٹ ملتی نہیں ، چلے اسمبلی میں
سیٹیں لینے۔ جب سے یہ ہمارے عزت مآب چیف جسٹس صاحب ان پر مہربان ہو کر
انہیں نادرا شناختی کارڈ، نوکریوں میں کوٹہ، قرضوں کی وصولی میں مدد اور
دیگر طریقوں سے انکی ہیلپ کر نے میں لگے ہیں نہ تو یہ لوگ؟ کچھ زیادہ ہی
نہیں پھیلتے جارہے کہ جی اب اسمبلی میں کوٹا۔۔۔ہونہہ۔۔ کل کلاں کو کھڑے ہو
کر کوئی نیا ممنوعہ مطالبہ کر دینگے۔ ویسے پڑوسی ملک ہندوستان میں تو یہ
لوگ جنس کے خانے میں اپنا نام لکھوانے کی منظوری بھی لے چکے ، اب پاکستان
میں دیکھیں کہ انہیں کیا کچھ ملتا ہے۔سوچیں کہ اگر ان لوگوں؟ کو اسمبلی میں
آنے کی اجاز ت مل جائے تو کیسا ہوگا پاکستان؟
الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ کیسے لیا جائیگا: اس قوم کی بھی کیونکہ کئی قسمیں
ہوتی ہیں ، لہذا الیکشن کے لیے ٹکٹ لینا انکے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا کہ
ٹکٹ کونسی قوم قبیلہ کو جاری کیا جائے اور پھر اسطرح سے انکا آپس میں پھڈا
بھی ہو سکتا ہے۔ ایک کہے گی یا کہے گا کہ الیکشن میں نے لڑنا ہے دوسرا کہے
گا یا گی کہ میں نے لڑنا ہے۔ آپس میں سوال جواب کچھ ایسے ہونگے کہ: اے ہے
تجھے تو لڑائی مار کٹائی بھی ٹھیک سے نہیں آ تی تو الیکشن کیا لڑے گا ۔گی۔
دوسرا کہے گا۔گی۔ کہ ہے ہے تجھے تو ڈانس بھی ٹھیک طرح سے نہیں آتا تو
الیکشن کیا لڑے گی،گا۔پھر کہیں گے آﺅ پہلے لڑنے کا مقابلہ کر لیتے ہیں جو
جیتا وہی سکندر یعنی ٹکٹ وہ لیگا۔لیگی۔۔۔ لو جناب ۔ لڑائی کا مقابلہ شروع
۔۔۔۔۔۔ تھپڑ پے تھپڑ۔ مکے پہ مکا۔ چپیڑ پہ چپیڑ۔ منہ کی نونچائی۔ بالوں کی
کھینچائی۔کان کی پکڑائی۔ ناک کی مڑائی اور تڑائی۔ اب جناب ہاتھ آگئے نام
نہاد دوپٹے جو کسی کسی کے گلے کا ہار ہوتا ہے۔پھر جناب باری آتی ہے کپڑوں
کی پھاڑا پھاڑی کی۔۔۔ اور پھر کپڑے۔۔۔کپڑے۔۔۔۔۔ چلیں کپڑے سینسر کر کے جوتے
کی طرف چلتے ہیں۔ لو جناب آخر میں بچا جوتا۔ اب جوتے سے ایک دوسرے کی لترول
شروع۔۔۔اور پھر ایک جنا یا جنی تھک ہار کر ہار جاتی ہے یا جاتا ہے۔۔ارے
ٹھریے جناب اس لڑائی مار کٹائی کے دوران ان کے منہ سے جو پھول جھاڑے گئے
انکا ذکر بھی تو سنیں ۔ پر نہیں، آرٹیکل گندا ہو جائیگا۔ بس یوں سمجھ لیں
کہ کچھ ممنوعہ اقسام کی گالم گلوچ کا تبادلہ ہوا جنہیں ہم شارٹ فارم میں
اسطرح استعمال کر سکتے ہیں مثلا: تجھے کیڑے پڑیں۔ اس جنس کی ایک عام سی
گالی ہے۔ اسکی شارٹ فارم ہم TKP۔ یعنی ٹی سے تجھے۔کے سے کیڑے۔اور پی سے
پڑیں۔ تو تما م گالیاں شارٹ فارم میں کچھ اسطرح تھیں۔TKNR ، TMM،TBM،
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ مطلب آپ خود اخذ کر لیں۔ آخر آپ خود بھی تو سمجھدار ہیں نہ!
اسکے بعد متعلقہ پارٹی اس بیچارے یا بیچار ی کی فوٹو دیکھ کر ہی ٹکٹ دیں گی۔
الیکشن مہم اور جلسے جلوس: الیکشن مہم اور جلسے جلوس کے بغیر تو ہمارے ہاں
الیکشن ہی نہیں ہو سکتے۔ ویسے ایک بات ہے کہ ان کے جلسے جلوسوں میں عوام کی
کثیر تعداد تو صرف اپنے من پسند کھسرے دیکھنے جایا کریگی۔ انہیں تو اعلانات
کرانے کی بھی ضرورت نہیں پڑیگی کہ منہ در منہ ہوتی بات کوٹھوں چڑھ کر ہر
جگہ پہنچ جائیگی۔آجکل جلسے جلوسوں میں گانا بجانا ہو رہا ہے پر انکے جلسوں
میں گانا بجانے کے ساتھ ساتھ ناچ کا آئیٹم بھی اضافی طور پر شامل ہو جائیگا
جسے عوام کی کثیر تعداد پسند کرے گی۔ کچھ شوقین قسم کے حضرات تو اس جنس کو
صرف ہاتھ لگا کر ہی تسکین حاصل کر لیتے ہیں جو کہ وہ وافر مقدار میں کرینگے۔
اسکے علاوہ انکے جلسے جلوسوں میں تالیاں پیٹنے کا بھی مقابلہ ہوا کریگا۔
نعرے کچھ اسطرح ہونگے۔ہائے ہائے زندہ باد۔ ہائے ہائے مر دہ باد۔۔۔۔ ہائے
ہائے تجھے ووٹوں کی جگہ کیڑے پڑیں۔ مخالف کے خلاف نعرہ: مرد ہے تو میدان
میں آ۔۔۔ ساڈے نال متھا لا۔۔۔ کون کرے گا کم مہنگائی۔۔۔ ہائے ہائے رانی
مائی، رانی مائی۔ گلابو باجی ساڈی شیر اے۔ باقی ہیر پھیر اے۔ کون کرے گا
قرض وصولی۔۔۔ باجی صائمہ باجی چنبیلی۔ تیرا نعرہ میرا نعرہ ۔۔۔ ریما نے آنا،
بوبی نے آنا۔۔ ہماری آن ہماری شان۔۔۔نصیبو خان، ریما خان۔ ہائے ہائے آپکا
یا آپکی خادم خادمہ ۔۔۔۔ فلانی فلانی۔۔۔ بینر کچھ اسطرح ہونگے : پاکستان
بچانا ہے تو تیسری قوم کو لانا ہے۔ ہم حلقہ فلاں کے عوام تمام کھدڑوں کو
خوش آمدید کہتے ہیں۔ہمیں ہمارے حقوق دو ورنہ تالیاں پیٹ پیٹ کر پاگل کر
دینگے۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اب جناب تقریر کچھ اسطرح ہوگی: میرے پیارے ۔۔۔۔
آپ لوگوں نے جنس نمبر ایک اور دو ، دونوں کو آزمایا پر پیاز اور آلو پھر
بھی مہنگا ہوا، آپ ہمیں آزمائیں، ہائے ہائے سب کچھ فری کر دینگے۔ آپ نے
دونوں کو آزمایا پر پٹرول، بجلی ، گیس پھر بھی مہنگی رہی، آپ ہمیں جتوائیں
یہ سب اشیاءبھی مفت دیں گے۔ آپ نے ان دونوں کو جتوایا انہوں نے اپنی
جائدادیں بنائیں، آ پ ہمیں جتوائیں ہم آپکی جائدادیں بنوائیں گے۔ آپ ہمیں
جتوائیں ہم آپکے بالک ہونے کی خوشی میں اور شادی کی خوشی میں فری ناچیں گے۔
آپ ہمیں چنیں ہم آپ کو فری قرض وصول کر کے دینگے۔ آپ نے دونوں پارٹیوں کو
آزمایا پر دونوں ناکارہ نکلیں، آپ ہمیں جتوائیں ہائے اللہ ہم ۔۔۔۔۔۔۔ ۔
ہائے اللہ آپ کسی خان وان کے بھی پیچھے نہ جائیں یہ تو بیس بیس فٹ اوپر سے
چھلانگیں لگا کر اپنی ٹانگ بانہہ تڑا بیٹھے گا، آپکے کسی کام نہ آئیگا بلکہ
آپ ہمارے پیچھے آئیں ہم آپکو ضرور کچھ نہ کچھ دیں گے۔ آپ ہمیں جتوائیں ہائے
ہائے ہم آپ کے صدقے واری جائیں گے ۔ آپ ہمیں جتوائیں ہم ہاتھ لگانے کے بھی
پیسے نہیں لیں گے ۔ٓ اور پھر وہ شرما کر تقریر بند کر دینگے۔تو جناب !اگر
یہ الیکشن جیت گئے تو انکے لچھن دیکھیے گا کہ پہلی دو جنس تو رات کو ہوائی
فائرنگ کر کے جشن مناتی ہے۔یہ لوگ ہاتھ لہرا لہرا کر ، ناچ گانا اور بھنگڑے
ڈال کر جشن منا ئیں گے اور لوگ جان بوجھ کر گلے لگ لگ کر انہیں مبارکبادیاں
دے رہے ہونگے ۔ کچھ شوقین مزاج عبداللہ دیوانے انکی جگہ فائرنگ بھی کر رہے
ہونگے کیونکہ یہ نازک اندام بیچارے ہاتھوں سے گن نہیں چلا سکتے ۔ سارا دن
پھر پھر اور خجل خوار ہو کر دھوڑ مٹی اور گند میں لبڑے یہ بیچارے یا بیچاری
یر قان کے مریض لگ رہے ہونگے۔پر شوقین مزاج عوام انہیں ہر صورت قبول ہی
لیگی اور ایک اور بہانہ مل جائیگا انہیں چونٹیاں مارنے کا۔ جوابا انہوں نے
صرف ہا ئے اللہ اور دفعہ دور پر اکتفا کر نا ہے اور بس۔اسمبلی میں پہنچ کر
انکے کر توت کیا ہونگے، تھوڑا نظر ڈالیں؟
اسمبلی میں آمد اور حلف برداری: اس قوم کی اسمبلی میں آمد بھی کسی دھماکے
سے کم نہیں ہوگی۔ انکی جیت کی خوشی میں پہلے تو انکے گرو انگا سواگت کریں
گے پھر ناچتے گاتے، اچھلتے کودتے اسمبلی میں چھوڑنے آئیں گے۔اب سوچیں کہ
حلف کے د ورا ن یہ کیا کہیں گی یا کہے گا۔ ؟ پہلے پہل تو انہوں نے تالیاں
پیٹنی شروع کر دینی ہیں کہ ہماری طرف سے لکھ لکھ مبارکاں، جی آیا نوں ، ست
بسم اللہ ۔ہائے موٹے، ہائے کٹے، ہائے چکنے، ہائے سمارٹ، ہائے بے بی اور
دیگر کئی طرح کی ہائے ہواڑ پا دینی ہے اور پھر اسمبلی میں آنے کی خوشی میں
بھنگڑا یا لڈی ڈانس شروع ہو جائیگا۔یا پھر یہ لوگ؟ اٹھ اٹھ کر انگلیاں
کڑکاکر بلائیں لینا اور نظر اتارنا شروع کر دینگے ۔اس دوران میں مولوی ممبر
حضرات ہو سکتا ہے کہ اسمبلی سے واک آﺅٹ کا افتتاح بھی کر دیں اور پھر یہی
لوگ انہیں کسی شرط؟ پر منا کر واپس لاکر اسمبلی کی کاروائی دوبارہ شروع
کریں۔ ویسے اسمبلی میں انکی موجودگی میں کورم ٹوٹنے کا مسئلہ حل ہو جائیگا
کہ ہر کوئی ، ہر وقت انکے لچھن دیکھنے کو ہر وقت حاضر پایا جائیگا۔ مرحوم
محترم مولانا نورانی صاحب کا ریکارڈ تھا کہ انہوں نے کبھی اسمبلی اجلاس سے
غیر حاضری نہیں کی تھی، اسطرح ان کا ر یکارڈ بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ اسمبلی میں
انکی پہلی ترجیح یہی ہوگی کہ تالیاں بجانے سے پابندی اٹھائی جائے کہ یہ لوگ
تالی کے بغیر بات نہیں کر سکتے۔ ویسے تو تالیاں پہلی اور دوسری جنس بھی خوب
بجاتی ہیں تاہم انکی تالیوں کی بات ہی اور ہوتی ہے۔پھر انہوں نے اسمبلی میں
بل پیش کر دینا ہے کہ تیسری جنس کے شوقین لوگوں کی حمایت میں بل پاس کیا
جائے تاکہ ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکے۔ جس کی کہ مولوی حضرات بھر
پور مخالفت کریں گے۔ اور پھر یوں ایک نیا اشو شروع ہو جائیگا۔ یہ بیچارے
لوگ کیونکہ نہ مردوں میں ہیں اور نہ عورتوں میں ، تو انکے لیے الگ سے
نشستیں، الگ باتھ روم، الگ ریسٹ روم، الگ گیسٹ ہاﺅس ،الگ میک اپ روم غرضیکہ
تمام ہی چیزیں الگ بنانا ہونگی، نتیجہ اضافی خرچہ۔ جسکا کہ آجکل ملک متحمل
نہیں ہوسکتا۔ اسکے علاوہ اگر انہوں نے اپنی افزائش نسل کا بل پیش کر دیا تو
پھر کیا ہوگا کالیا؟
چونکہ یہ لوگ بہت ہی نازک اندام ہوتے ہیں تو ایک ڈاکٹر یا ڈسپنسری کا
بندوبست بھی اٹ دی سپاٹ کر نا ہوگا۔ناچنا اور گانا چونکہ انکے خون میں شامل
ہوتا ہے لہذا جسطرح کرکٹ کے ہر چوکے چھکے پر تالیاں اور بھنگڑے ڈلتے ہیں
بلکل اسی طرح اسمبلی میں انہوں نے ہر اچھی بری بات یا بِل شِل پاس ہونے پر
ناچ گانا شروع کر دینا ہے۔ ابھی تو ان بیچاروں یا بیچاریوں کے صرف نام
نادرا میں درج ہور ہے ہیں تو انہوں نے بھنگڑے پائے ہوئے ہیں۔ جب اسمبلی میں
ہو ں گی یا گے تو پھر کیا ہوگا؟۔ ویسے تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ موجودہ
اسمبلیوں میں بھی انکی کمی نہیں؟؟۔ اور ہاں اگر کسی نے انہیں اسمبلی میں
چھیڑ دیا تو بھی مسئلہ کہ یہ چھڑتے بہت جلد ہیں اور پھڈے بھی بہت کرتے ہیں
اگر چہ ہوتے بے ضرر ہیں ۔تاہم ابھی پچھلے دنوں انہوں نے اپنا ہی ایک بندہ
صرف اس لیے پھڑکا دیا تھا کہ وہ ناچ گانے میں ملنے والے پیسوں میں ہیرا
پھیری کر تا تھا۔ اسکے علاوہ انہوں نے باپ کے خانے میں باپ کا نام یا گرو
جی کے نام کا پھڈا بھی ڈالا ہوا تھا اور اس چکر میں ان بیچار وں کا اچھا
خاصا پھڈا ہوا۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!۔ایک خبر کے مطابق پنجاب کے ایک
علاقے میں پولیس والوں نے کچھ خواجہ سراﺅں کو ننگ دھڑنگ کر کے مرغا بنائے
رکھا۔ اگر انہوں نے ان پولیس والوں سے انتقام لینے کا بل پاس کر والیا تو
سوچیں ننگ دھڑنگ پولیس والے مرغا بنے کیسے لگیں گے؟؟ پھر جناب! جب اسمبلی
میں انکے بولنے کی باری آئے گی تو پہلے انہوں نے لپ اسٹک ٹھیک کر نی ہے ،
پھر بال سنوارے جائیں گے، پھر کولھے مٹکا ئے جائیں گے، پھر ہل ہل کر منہ
میں انگلی داب کر جب تک یہ مائک تک پہنچیں گے تو انکا ٹائم پورا ہو چکا
ہوگا۔ کیسا ۔
اگرانہیں وزیر بنا دیا جائے: اگر اتفاق سے کسی تیسری جنس کو وزیر بنا دیا
جائے تو اسکا تو ٹیکا ہی الگ ہوگا۔ فرض کریں کہ یہ وزیر بن کر مذاکرات امر
یکہ بہادر سے کر رہے ہوں تو یہ کچھ یوں فرمائیں گے ، گی: ہائے ہائے ابے کلو
پہلے ڈرون حملے بند کرا پھر آنا۔ ہائے ہائے گورے چکنے پہلے امداد بحال کرو
ناہیں تو میں توسے ناہیں بولوں۔ اگر یہ کبھی غصہ میں آجائیں تو کہیں پیار
سے کسی کو ہلکی سی چپیڑ بھی نہ لگادیں۔ اسی طرح اگر پڑوسی ملک سے مذاکرات
کر نے پڑے تو انکا پہلا سوال یہی ہوگا کہ پہلے پہلے پہلگام میں ہمارے جاننے
والوں سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے ۔ کشمیرکو آزاد کریں یا مادھوری دے دیں
، یا قطرینہ کیف یا کرینہ کپور یا راکھی ساونت د ے دیں تاکہ ان سے ڈانس ہی
سیکھ لیں۔ ویسے وہاں کے تیسری جنس والے ان سے زیادہ تگڑے ہیں اور اگر ا
نہوں نے بھی ایسا ہی وزیر بنا دیا تو پھر کیسا ہوگا مذاکرت کا انجام، سوچیں
ذرا؟ ایک تحقیق کے بعد عورت کے بارے میں کہہ دیا گیا ہے کہ جی یہ معمہ ہے
نہ سمجھنے اور نہ سمجھانے کا، ا س جنس کے بارے میں کیا کہا جائیگا کہ جو
بیچارے نہ عورتوں میں نہ آدمیوں میں ؟؟کچھ سروے انکے بارے میں بھی ہو جائے
اے چارہ گراں!
تو جناب! میری اس تیسری قوم سے گزارش ہے کہ اپنے آپ کو اسمبلیوں میں لانے
سے پہلے ان اسمبلیوں کی کار کردگی تو ملاحظہ فرمائیے کہ دن رات اٹھارہ کروڑ
عوام انہیں کوسنے دیتی ، لعن طعن کرتی ہے اور تمام ممنوعہ گالیاں جن کے
دینے سے تین دن تک زبان گندی رہتی ہے وہ بھی دیتی ہے۔ یہ تو روزانہ اسلام
آباد میں کالے بکروں کے صدقے کے طفیل بچے ہوئے ہیں، ورنہ کب کے کیں ہو چکے
ہوتے۔ تو کیا آپ بھی اپنے آپکو یونہی کوسوانا ، لعن طعن کروانا اور ممنوعہ
گالیاں دلوانا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں! تو پھر ٹھیک ہے کیجئے بسم ا للہ اور
آئیے اسمبلیوں میں جونکوں کی طرح ہمارے خون چوسنے کو! |