”مُنہ پُھلانے“ میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے

جس طرح گدھے صرف چار ٹانگوں پر چلنے والے نہیں ہوتے بالکل اُسی طرح مینڈک بھی صرف پُھدکنے والے نہیں ہوتے بلکہ پُھدکے بغیر دو ٹانگوں پر چلنے والے مینڈک بھی پائے جاتے ہیں! خوشی کی ہر تقریب میں بیشتر افراد خوشی سے پُھولے نہیں سما رہے ہوتے مگر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے پورے وجود میں صرف مُنہ پُھولا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اِس ”پُھلاپے“ کے لیے بھی وہ خوشی کو زحمت نہیں دیتے!

ہر خاندان میں کچھ لوگ ویسے تو ہومو سیپین ہوتے ہیں یعنی اُن کا تعلق اِنسانوں کی نوع سے ہوتا ہے مگر درحقیقت وہ مینڈکوں کے خانوادے سے بھی دور پَرے کا تعلق ضرور رکھتے ہیں! موقع خوشی کا ہو یا غم کا، اِنہیں صِرف مُنہ پُھلانے اور اِن کے نخروں کو پُھدکنے سے غرض ہوتی ہے! ہم تو خدا لگتی کہیں گے کہ بعض لوگ مُنہ پُھلانے کے ایسے ماسٹر ہوتے ہیں کہ مینڈک بھی دیکھیں تو اُن سے یہ فن تمام باریکیوں کے ساتھ سیکھیں اور نیشنل جیوگرافک والوں کو مدعو کرکے فلم بھی بنوائیں! مُنہ پُھلانے اور پُھدکنے کا ازلی (اور یقیناً ابدی) شوق رکھنے والے اِنسانی مینڈک تقریبات کو تالاب کی طرح اِستعمال کرتے ہیں! پُھدکنے اور جست لگانے کی گنجائش نہ ہو تو نہ سہی، تقریبی تالاب میں اِن نخریلے مینڈکوں کی ٹرٹر ہی سے تو ساری ”رونق“ جمتی ہے!

بات بات پر مُنہ پُھلانے والے مزاجاً امریکہ سے ملتے جلتے ہیں۔ جو بدگمان رہتے ہیں اُنہیں ہر معاملہ دال میں کالا جیسا دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح امریکہ خطرہ بھانپ کر حفظِ ماتقدم کے طور پر پہلے سے حملہ کر بیٹھتا ہے، تقریباً اُسی ذہنیت کے ساتھ یہ مُنہ پُھلانے والے بھی کسی بھی معاملے میں سازش کی بُو سُونگھ کر دنگے میں پہل کر بیٹھتے ہیں! جس طرح امریکہ کو کسی بھی مُلک سے کوئی بھی سُلوک کرنے کے لیے کسی جواز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، بالکل اِسی طرح بات بات پر مُنہ پُھلانے والے بھی کسی بہانے یا جواز کے محتاج نہیں ہوتے! اِن کا دِل کبھی بھی اور کہیں بھی کسی پر بھی آسکتا ہے یعنی اگلے کی شامت آسکتی ہے! کسی بھی تقریب میں اِن کی ”پُھوں پھاں“ دیکھ کر دیگر شرکاءاُسی طرح سہم اور سمٹ کر ایک طرف ہوجاتے ہیں جس طرح سیلابی ریلے کو اپنی طرف آتا دیکھ کر لوگ اپنا سامان سمیٹ کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ بعض خاندانوں میں مُنہ پُھلاکر ٹُھنکنے اور رُوٹھنے کے شوقین اِتنی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں کہ تقریبات ذرا سی دیر میں مُنہ پُھلانے کے مقابلے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں! بعض مہربان اِس حوالے سے ایسی شہرت رکھتے ہیں کہ تقریب میں اُن کی موجودگی رونق میلے کی ضمانت سمجھی جاتی ہے اور لوگ ایک ٹکٹ میں دو مزے پاتے ہیں یعنی تقریب میں شرکت کے ساتھ ساتھ دَنگل کا مزا لینے کے لیے بھی بے تاب دکھائی دیتے ہیں! ایسی کسی بھی تقریب میں اپنی شرکت کو لوگ اُسی وقت یقینی بناتے ہیں جب اِس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ وہ بھی آنے والے ہیں جن کے دم سے دنگل کا سماں پیدا ہوگا!

اللہ نے پاکستانی معاشرے میں ایسی ورائٹی ودیعت کی ہے کہ لوگ جب اپنے گھر میں کسی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں تو انہیں بہت سی ایسی باتوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے جن کا تقریب سے یا میزبانوں کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ خاندانی گویّے گاتے وقت محبوب سُروں کے ملاپ پر خاصی توجہ دیتے ہیں۔ اگر دو مختلف المزاج راگوں کی آمیزش سے بندش تیار کی جائے تو سامعین کی جان پر بن آتی ہے کیونکہ محبوب سُروں کا ملاپ نہ ہونے سے خاصی محنت کے ساتھ گائی جانے والی چیز بھی کانوں کو بھلی معلوم نہیں ہوتی۔ تقریبات میں بھی ایک دوسرے کو ناگواری سے دیکھنے والے سُروں.... ہمارا مطلب ہے اِنسانوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مہمانوں کی فہرست مرتب کرتے وقت اِس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ آگ اور پانی کا ملاپ نہ ہو! اور اگر مختلف المزاج مہمانوں کو بلانا ناگزیر ہو تو کوشش کی جاتی ہے کہ اُن کا سامنا نہ ہو کیونکہ ایسا ہو تو رنگ میں بھنگ والی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے!

تقریبات میں شرکت سے کئی مہارتیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔ رات کو سردی بڑھ جائے تو چھوٹی سی چادر کو کس طرح اوڑھا جاتا ہے؟ پاؤں ڈھانپیں تو سُر کُھل جاتا ہے اور سَر ڈھانپنے کی فکر کیجیے تو پاؤں چادر سے باہر چلے جاتے ہیں! بشیر بدرنے کہا ہے
زندگی! تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے جگہ
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سَر لگتا ہے!

بعض تقریبات میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جنہیں صرف رُوٹھنے کا ہُنر آتا ہے اُنہیں منانا بھی میزبان کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے۔ اُسے اپنی تمام مصروفیات سے اِس کام کے لیے بھی وقت نکالنا پڑتا ہے۔ بے چارہ ایک کو مناتا ہے تو دوسرا رُوٹھ جاتا ہے! بہت سے لوگ یہی تماشے دیکھنے کے لیے تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ اُنہیں اِس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ کس کی شادی کس سے ہو رہی ہے یا کس کے کون سے نمبر کے بیٹے کا عقیقہ ہے۔ خاندانی اور معاشرتی رسوم سے انہیں کچھ خاص رغبت نہیں ہوتی۔ تقریب جن اُمور کے لیے منعقد کی گئی ہوتی ہے اُن کی انجام دہی سے ہٹ کر بھی تو بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ اور یہی تماشا دیکھنے کی چیز ہوتا ہے! مگر ہاں، دیکھنے والی آنکھ کا ہونا شرط ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بعض لوگ خاندان کی تقریبات میں ذرا سا ہٹ کر ہونے والا تماشا دیکھنے ہی کے لیے پورے جوش و خروش بلکہ خشوع و خضوع کے ساتھ شریک ہوتے ہیں! ایسی ایک تقریب اُنہیں ہفتہ بھر ٹی وی پر مزاحیہ پروگرام دیکھنے کی زحمت اور ضرورت سے بے نیاز کردیتی ہے! ہم تو لگی لپٹی کے بغیر یہ بھی کہے دیتے ہیں کہ ٹی وی کے بعض مزاحیہ پروگراموں میں بھی اُتنا مزاح نہیں ہوتا جتنا خاندانی تقریبات میں بخوبی پایا جاتا ہے! یہی سبب ہے کہ اب شادی بیاہ کے موقع پر اسٹینڈ اپ کامیڈی کا رجحان دم توڑتا جارہا ہے۔ شادی کی بعض تقریبات میں پہلے ہی سے اِس قدر کامیڈی چل رہی ہوتی ہے کہ تربیت یافتہ اور پروفیشنل فنکار بلائے جانے کی صورت میں شرکاءoverdose برداشت نہیں کر پاتے اور ”مزاح خورانی“ کا شکار ہو جاتے ہیں! بعض ہنستے ہنستے بے دم سے ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اُن کا دل بہلانے کے لیے چند ایک اُمور سنجیدگی سے بھی انجام کو پہنچائے جاتے ہیں تاکہ کوئی ایویں ای جان سے نہ جائے!

ایک خوشی پر کیا موقوف ہے، جنہیں ہر حال میں مُنہ پُھلانا ہو وہ میت کے گھر کو بھی نہیں بخشتے۔ کسی کا مرنا بھی اِنہیں صلاحیتیں بروئے کار لانے کا بھرپور موقع فراہم کرتا ہے۔ جس طرح دولھے کی سہرا بندی میں نہ بلائے جانے پر یہ مُنہ پُھلا بیٹھتے ہیں بالکل اُسی طرح تدفین سے متعلق تسلیم شدہ رسوم ادا کرنے کے لیے دیر سے بلائے جانے پر بھی اِن کی ناراضی شعلے کی طرح بھڑک سکتی ہے۔ قبرستان میں قبر اور میت سے دور یہ گپ شپ مارتے ہوئے ملیں گے اور جب مٹی ڈالی جارہی ہوگی تو مُنہ پُھلائے ہوئے ملیں گے کہ آخری دیدار کے لیے کیوں نہیں بُلایا! لوگ لاکھ یقین دلائیں کہ آخری دیدار کے لیے صدا لگائی گئی تھی مگر یہ کہاں ماننے والے ہیں؟ مرنے والے شاید سُکون کا سانس لیتے ہوں گے کہ دُنیا سے جاتے وقت اِن کے پُھولے ہوئے مُنہ دیکھنے سے بچ گئے!

خوشی اور غم کے موقع پر تیزی سے ناراض ہونے اور مُنہ پُھلائے گھومنے والے ہر اُس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جس میں اپنے پَلّے سے کچھ خرچ نہ کرنا پڑتا ہو۔ جہاں معاملہ جیب ڈھیلی کرنے کا ہو وہاں سے یہ ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سَر سے سینگ! ایسے لوگوں کو تلاش کرنا کوئی بہت مشکل کام نہیں۔ تقریب یا محفل میں کوئی بھی ذرا سی ایسی ویسی بات ہو جائے تو اِن کے مزاج کا پارہ چڑھ جاتا ہے اور یہ سب سے انوکھے اور اچھوتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اِنہیں ایک نظر دیکھ کر کوئی بھی بتا سکتا ہے کہ ناراضی کا دورہ پڑا ہے۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر میں اِن کا مُنہ ایسا پُھولا ہوا دکھائی دیتا ہے جیسے باکسنگ رنگ میں تابڑ توڑ مُکّے کھاکر آئے ہوں! ایسے میں اِن کے قریب جانا صحت کے لیے شدید مُضر ثابت ہوسکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مُنہ پُھلانے والے کسی کی بھرپور توجہ نہ ملنے کی صورت میں بہت ہی تیزی سے نارمل ہو جاتے ہیں۔ کسی کا متوجہ ہونا اِنہیں اُکسانے سے کم نہیں۔ آئندہ خوشی و غم کے کسی بھی موقع پر کسی کو سُوجے سُوجے سے، پُھولے ہوئے مُنہ کے ساتھ دیکھیں تو فوراً سامنے سے ہٹ جائیں اور پتلی گلی سے نکل جائیں! آپ کی جانب سے ہمدردی کے دو بول وہی نتیجہ پیدا کریں گے جو گھوڑے کو ایڑ لگانے سے پیدا ہوتا ہے! اور اِس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اُس کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525184 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More