پُلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحہ ہوگا

جدید ترین معاشرے بھی اعلیٰ ترین معیار کی تحقیق سے یہ معلوم نہیں کر پائے ہیں کہ دُنیا میں بیماریاں زیادہ ہیں یا بیمار! بیماریاں اِنسان کے لیے بہانوں کی طرح ہوتی ہیں جن کے بغیر زندگی میں کوئی آسانی پیدا نہیں ہو پاتی! پاکستان کا شمار ان معاشروں میں ہوتا ہے جو مختلف بیماریوں اور عوارض کا خیر مقدم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم جیسے معاشرے بیماریوں کے ”پولٹری فارم“ کی شکل اختیار کرچکے ہیں! اب تک یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ کتنی جسمانی بیماریوں سے ذہنی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور کتنی ذہنی پیچیدگیاں جسمانی عوارض کو جنم دیتی ہیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ ایک بیماری تقریباً ہر معاشرے میں عام ہے اور دنیا بھر کے 90 فیصد سے زائد افراد میں پائی جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ بھی اِس عارضے کا شکار ہوں! یہ عارضہ ہے اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنا! جسے دیکھیے وہ ”میں ہوں نا“ کے خبط میں مبتلا ہے۔ مختلف خطوں کی دیو مالا میں آیا ہے کہ دنیا ایک کچھوے کی پُشت پر ٹکی ہوئی ہے۔ اب ایسے اربوں کچھوے ہیں جو زمین کو اپنی پُشت پر بھی اُٹھائے ہوئے ہیں اور اُسی زمین پر چل پھر بھی رہے ہیں!

دنیا میں ایسے لوگ خال خال ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے بعد دُنیا بہتر طور پر چل سکے گی یا چلائی جاسکے گی! جسے دیکھیے، یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتا اور گُھلتا رہتا ہے کہ دنیا کب سُدھرے گی اور اگر اُس کے مرنے تک نہ سُدھر سکی تو کیا ہوگا! بُہتوں کا تو دم بھی شاید اِس لیے کئی دن اٹکا رہتا ہے کہ اُنہیں اپنے وجود سے زیادہ دنیا کی فکر لاحق رہتی ہے! اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہوتا کہ دُنیا کو کِس کے بھروسے اور آسرے پر چھوڑ کر جائیں!

مرزا تنقید بیگ کو ہم اُن لوگوں میں نہایت نمایاں سمجھتے ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔ مرزا کی اِس بات سے ہم پوری طرح متفق ہیں کہ جب وہ نہیں ہوں گے تو دنیا بہت پچھتائے گی۔ ایک بار جب اُنہوں نے نہایت جوش کے عالم میں کہا کہ اُن کے بعد دنیا بہت پچھتائے گی تب ہم نے تپ کر کہا کہ دنیا اِس بات پر پچھتائے گی کہ طبعی امر کے واقع ہونے کا انتظار کیوں کیا، پہلے ہی گلا کیوں نہ دبا دیا! یہ بات سُن کر مرزا نے اپنی مسلمہ اور دیرینہ روایت سے بغاوت کی یعنی ہمیں صرف گھورنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہماری بات کو اچھی طرح سمجھ لینے کی رسید دینے کی غرض سے ہمیں ہاتھ رسید کرنے کی بھی کوشش کی! ہم البتہ اپنی روایت پر قائم رہے یعنی صاف بچ نکلے!

سیاست وہ شعبہ ہے جس سے تعلق رکھنے والا ہر فرد خود کو انتہائی ناگزیر سمجھتا ہے۔ ہر سیاست دان خود کو تمام مسائل کا حل گردانتا ہے اور ہر مسئلے کو حل کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہنے کی اداکاری کو بھی اپنی ذہنی ساخت کا حصہ بنائے رہتا ہے۔ کم ہی سیاست دان ایسے ہیں جنہیں یہ یقین دلایا جاسکتا ہے کہ اُن سے پہلے بھی دنیا تھی اور ان کے بعد بھی رہے گی! جنہیں کوئی منصب ملتا ہے وہ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ دنیا صرف اُن کے کاندھے پر سوار ہوکر سفر کر رہی ہے۔ یعنی انہوں نے کاندھے کو جھٹکا دیا تو دنیا دھڑام سے گر جائے گی، وہ بیٹھ گئے تو بھٹّہ بیٹھ جائے گا! یہ یقین اِس قدر پُختہ ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ماہر نفسیات لاکھ کوشش کر دیکھے، اُن کے محکم یقین کو متزلزل نہیں کرسکتا!

سیاست کے میدان میں کِسی منصب کو پانے والے تو خیر اونچی اڑان میں رہتے ہی ہیں، ورکرز بھی کِسی سے کم نہیں ہوتے۔ وہ اِس وہم میں مَرتے دم تک مُبتلا رہتے ہیں کہ حلق کی پوری طاقت سے جو نعرے وہ لگاتے ہیں اُنہی کے دم سے اقتدار کے میلے میں ساری رونق ہے! اور کچھ ملے نہ ملے، کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے یہ بھرم بھی کیا کم ہے کہ سب کچھ اُسی کے دم سے ہے! قائدین اُس کی انا کا غبارہ بہت محنت سے پُھلاتے ہیں! اِس معاملے میں سیاسی رہنما عوام کو بھی نہیں بخشتے۔ اُنہیں طاقت کا سرچشمہ قرار دیکر ایسا فریب دیا جاتا ہے کہ بے چارے مَرتے دم تک خود کو فیصلہ کن قوت سمجھتے رہتے ہیں اور ان کی حالت میر کے اِس مصرع کے مصداق ہوتی ہے کہ
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

خود کو ناگزیر سمجھنے کی وباءنے کئی شعبوں کو تباہ کیا ہے۔ ایک زمانے میں ہماری کرکٹ ٹیم میں ہر کھلاڑی خود کو ناگزیر اور مردِ بحران سمجھنے کے خبط میں مُبتلا رہتا تھا۔ چار گھنٹے بیٹنگ کرکے تیس چالیس رنز بنانے کو بھی کارنامہ تصور کیا جاتا تھا اور اگلے دن کے لئے اپنی وکٹ بچائی جاتی تھی! ہر بیٹسمین کو یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ اگر وہ آؤٹ ہوگیا تو پوری ٹیم تنکوں کی طرح بکھر جائے گی! اِس خوف اور خبط نے کئی کھلاڑیوں کے کیریئر کو تنکوں کی طرح بکھیر دیا! کئی عشروں کی محنت کے بعد یہ بات کرکٹرز کے ذہنوں میں نصب کی جاسکی کہ جب وہ ٹیم کی حیثیت سے میدان میں اُترتے ہیں تو ٹیم ہی کی طرح کھیلنا بھی چاہیے!

محترم انور مسعود فرماتے ہیں
ہر گھر میں ایک فرد ہے ٹیڑھے مزاج کا!

بات صرف یہیں تک سچ نہیں بلکہ اِس سے ایک قدم آگے جاکر ہمیں یہ حقیقت بھی ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ گھر کا سب سے ٹیڑھا فرد ہی خود کو تیر کی طرح سیدھا تصور کرتا ہے اور اِس خبط کا اسیر رہتا ہے کہ گھر اُسی کے دم قدم سے چل رہا ہے! ہر گھر یا گھرانے میں ایک فرد ایسا ضرور ہوتا ہے جو سب کو اپنے گناہوں کی سزا جیسا دکھائی دیتا ہے مگر لطیفہ یہ ہے کہ یہ سزا ہی خود کو جزا عظیم کی حیثیت سے منوانے پر تُلی رہتی ہے!

خود کو ناگزیر سمجھنے والے چونکہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ دفتر میں نہ پائے جائیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو دفتر آئیں یا نہ آئیں، سارے کام اِنہی کے دم سے چل رہے ہوتے ہیں! اِن میں صرف دماغ کی کجی نہیں ہوتی بلکہ تاخیر سے آنا بھی معمول ہوتا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اِنہیں کام کرنے سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی! ان تمام عِلّتوں کے باوجود یہ اِسی خوش فہمی کے نشے میں چُور رہتے ہیں کہ ساری دفتری رونق اِن کے وجود کا صدقہ ہے! دفتر میں جب دوسرے سب لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں تب یہ ”ناگزیر“ حضرات اِس فکر میں غرق رہتے ہیں کہ جب یہ ریٹائر ہوں گے تب دفتر کِس طور چلا کرے گا، اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ چل بھی سَکے گا یا نہیں! خود کو ناگزیر گرداننے والے یہ ثابت کرنے پر ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں کہ دُنیا ابھی ”مُفکّرین“ سے خالی نہیں ہوئی!

جنہیں ہر وقت ”میرے بعد کیا ہوگا؟“ کا غم کھائے جاتا ہے اُن کی خدمت میں ہم مودبانہ عرض کرتے ہیں کہ اُنہی کے لیے اکبر الٰہ آبادی فرماگئے ہیں۔
تجھے بتاؤں کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟
پُلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحہ ہوگا!

مقصود یہ عرض کرنا ہے کہ خود کو ناگزیر سمجھنے والے کیسے ہی ناکارہ سہی، مرنے کے بعد ضرور کام کے ثابت ہوں گے یعنی اِن کے نام پر تقسیم ہونے والی بریانی سے کچھ لوگوں کا پیٹ ضرور بھرے گا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484293 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More