شگفتہ میمن ایک سکول ٹیچر ہے۔
ہوسکتا ہے وہ ماروی میمن کی دور کی رشتے دار بھی نکل آئیں۔ پچیس فروری کو
ہونے والے ضمنی الیکشن میں جب وہ صوبائی اسمبلی سندھ کی نشست پی ایس 53 کے
پولنگ سٹیشن نمبر 16 گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ٹنڈو محمد خان کی اسسٹنٹ
پریزائڈنگ آفیسرکے طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کررہیں تھیں کہ شورو غوغا
شروع ہوگیا۔ اس حلقے سے پیپلز پارٹی کی امیدوار وحیدہ شاہ پولنگ بوتھ کے
اندر داخل ہوئیں، کچھ دیر چیختی چلاتی رہیں اور پھر اچانک شگفتہ میمن پر
تھپڑوں کی بارش کردی، شگفتہ پر الزام یہ تھا کہ وہ مخالف امیدوار کے
ایماءپر دھاندلی کروا رہی ہیں جبکہ ذرائع کے مطابق شگفتہ اس دھاندلی کو روک
رہی تھیں جو پیپلز پارٹی کی امیدوار کی طرف سے کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔
میڈیا فوٹیج کے مطابق شگفتہ میمن تھپڑ کھانے کے بعد نڈھال ہوکر کرسی پر
بیٹھی رہ گئیں، اس وقت تک انہیں شائد یہ احساس بھی نہیں تھا کہ کیمرے وہ
سارا منظر ریکارڈ کررہے ہیں۔ میڈیا پر یہ خبر آنے کے بعد الیکشن کمیشن کو
تھوڑا سا احساس ہوا، وہ احساس بھی اس وجہ سے ہوا کہ اگر الیکشن کروانے والے
عملے کے خلاف ایسی ہی کاروائیاں جاری رہیں، انہیں روکا نہ گیا تو مستقبل
میں کم از کم خواتین ٹیچرز شائد یہ ذمہ داریاں ادا کرنے سے صاف انکار کردیں
چنانچہ صوبائی الیکشن کمشنر نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور وحیدہ شاہ کی
کامیابی کا نوٹیفکیشن روک دیا، جبکہ بعد ازاں ریٹرننگ آفیسر نے ان کے خلاف
مقدمہ بھی درج کروا دیا ہے، قوانین کے مطابق انتخابی عملے کو ہراساں اور
تشدد کرنے کے جرم میں تین ماہ تک قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ کی سزا
ہوسکتی ہے۔ بعد ازاں وحیدہ شاہ نے اس وقت ایک اور چالاکی کرنے کی کوشش کی
جب انہوں نے ایک برقعہ پوش خاتون کو ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس میں یہ ظاہر
کیا کہ وہ خاتون ”شگفتہ میمن“ ہیں جن پر انہوں نے تشدد کیا تھا، صحافیوں کے
مطالبے کے باوجود موصوفہ نے اپنا برقعہ نہ اتارا اور یہ کہا کہ وحیدہ شاہ
کے ساتھ ان کے خاندانی مراسم ہیں نیز وحیدہ شاہ نے ان سے معافی بھی مانگ لی
ہے کیونکہ یہ واقعہ غلط فہمی پر مبنی تھا۔ اس جھوٹ کا بھانڈہ بھی جلد پھوٹ
گیا اور یہ پتہ چلا کہ شگفتہ میمن اور ان کی ساتھی حبیبہ (یاد رہے کہ حبیبہ
کو بھی وحیدہ شاہ کے ہاتھ سے تھپڑ لگا تھا)کو ڈی او ایجوکیشن حاجی اشرف
میمن نے گھرپر یرغمال بنایا ہوا ہے اور ان پر شدید دباﺅ ہے کہ وہ دونوں
حاجی اشرف میمن کی مرضی کا بیان دیں ورنہ ان کا تبادلہ کسی دور دراز جگہ پر
کردیا جائے گا۔اس واقعہ پر خواتین اساتذہ نے احتجاج کیا ہے جبکہ ملک کے طول
و عرض میں صرف چند ایک سیاستدانوں نے اس پر مذمتی بیان جاری کیا جن میں
سندھ سے شازیہ مری نے یہ کہنا ہی کافی سمجھا کہ ”تحقیقات“ ہونی چاہئیں جبکہ
منظور وسان نے جو کہا اس کا لب لباب یہ تھا کہ پرچہ درج ہوگیا ہے، قانون کے
مطابق کارروائی ہوگی، جبکہ اس کے برعکس صدر اور وزیر اعظم سمیت تمام پارٹی
رہنماﺅں نے ضمنی الیکشن جیتنے والوں کو مبارکباد سے نوازا ہے اور یقینا اس
مبارکباد میں وحیدہ شاہ بھی شامل ہیں۔
مجھے توقع تھی کہ اس واقعہ کے بعد وہ لوگ جنہوں نے خواتین کے حقوق کا
”ٹھیکہ“ لے رکھا ہے اور جو خواتین پر ہونے والے مظالم پر ہمیشہ سیخ پا رہتے
ہیں، وہ لوگ جن کا کاروبار اور جن کی این جی اوز ہی خواتین پر ظلم اور تشدد
کو دکھا کر چلتی ہیں، وہ ضرور فوری رد عمل دیں گے، وہ این جی او زدہ خواتین
جو ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی جعلی فوٹیج پر واویلا مچا دیتی ہیں اور دین
حق اسلام پر کیچڑ اچھالنا اپنا اولین فرض خیال کرتی ہیں، وہ انسانی حقوق کے
چمپئن جو سات سمندر پار سے گلا پھاڑ پھاڑ کر خواتین کے حقوق کی باتیں بھی
کرتے ہیں خواتین کے جلسے بھی منعقد کرتے ہیں ، وہ لوگ ،وہ دانشوراب کہاں
ہیں جو ساری خرابی صرف مذہب سے وابستہ افراد میں ڈھونڈتے ہیں، جو صرف داڑھی
والوں، شلوار ٹخنوں سے اوپر باندھنے والوں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکانام
لینے والوں کو ملعون اور مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،
اب کیوں انکی زبانیں گنگ ہوگئیں؟ کیوں ان کی ”نسوانی“ حس سو گئی ؟ اس لئے
کہ ایک عورت نے ہی ظلم کیا، عورت نے ہی قانون ہاتھ میں لیا، وحیدہ شاہ
دیکھنے میں تو عورت ہی نظر آتی ہیں لیکن انہوں نے شگفتہ میمن، حبیبہ اور اس
قبیل کی دوسری ”کمی کمین “ عورتوں پر اپنی مردانگی کی دھاک ضرور بٹھا لی
ہے۔ڈی او ایجوکیشن جن کو اپنی بیٹیوں (ضلع میں ڈی او ایجوکیشن ہی اساتذہ کا
والی وارث ہوتا ہے) کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے تھا اور اس واقعہ پر بھرپور
احتجاج کرنا چاہئے تھا نہ کہ اپنی بیٹیوں کو یرغمال بنا کر ان سے وحیدہ شاہ
کے حق میں بیان لینے کی کوشش کرنی چاہئے تھی لیکن ظاہر ہے ڈی او بھی گوشت
پوشت کا بنا ہوا انسان ہوتا ہے ، اس کا بھی گھر بار ہوتا ہے، بیوی بچے اور
بہن بھائی ہوتے ہیں، والدین ہوتے ہیں، وہ کیوں اپنی اور اپنے پورے خاندان
کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا، وحیدہ شاہ بھی چونکہ ایک سیاستدان ہے اور اب
تو اسمبلی کی ممبر بھی بن چکی ہے اس لئے سیاستدانوں نے بھی آخر کار اسی کی
حمائت کرنی ہے اور وہ دن بھی آنے ہی والا ہے جب ”سچ مچ “کی شگفتہ میمن،
اپنے چہرے پر بغیر شگفتگی لئے ہوئے ”اصل “ پریس کانفرنس کررہی ہوگی اور
ببانگ دہل یہ اعلان کررہی ہوگی کہ ہاں! میں اصل مجرم ہوں، میں ہی مخالف
امیدوار کے ساتھ ملک کر دھاندلی کروا رہی تھی اور محترمہ وحیدہ شاہ نے تو
صرف میرے چہرے کو پیار سے سہلایا تھا، یہ تو میڈیا ہے جس نے خواہ مخواہ بات
کا بتنگڑ بنا دیا ورنہ مجھے تو باجی وحیدہ شاہ سے کوئی گلہ ، شکوہ یا شکائت
ہرگز نہیں! |