امام جلال الدین رومی ؒ
ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک درویش دن میں چراغ لیے بازار میں
گھومتاتھا ایک شخص نے اس سے دریافت کیا تو دن کی روشنی میں چراغ لے کر چکر
لگاتاہے آخر تو کیاتلاش کرتاہے اس درویش نے جواب دیا میں ہر جگہ انسان کو
تلاش کرتاہوں اس شخص نے کہاکہ تجھے بھرے بازار میں انسان نظر نہیں آتے کیا
اس درویش نے کہاکہ میں دوحالتوں میں انسان کی تلاش میں ہوں میں غصہ کے
راستے پر اور حرص کے راستے پر انسان تلاش کرتاہوں مجھے غصہ اور حرص کے ساتھ
متوازن انسان کی تلاش ہے جو ان دونوں حالتوں میں اپنے انسانی خواص کو برﺅے
کار لاکر ان حالتوں پر قابو پالے ۔۔
قارئین کیا پاکستان اور کیاآزادکشمیر۔۔۔ یوں لگتاہے کہ جیسے کسی منڈی کے
اندر ہم ایک غلام کی حیثیت سے موجود ہیں اور ہماری جانوں اور روحوں کی
تجارت ہورہی ہے زمانہ قدیم کے غلاموں کی داستانیں پڑھتے تھے تو کسی وقت عقل
دنگ رہ جاتی تھی کہ کیا انسان اس حد تک گر سکتاتھا کہ وہ اپنے ہی جیسے کسی
انسان کی خریدوفروخت کرے اسلام کی برکتوں سے ظاہری طور پر تو اس غلامی کی
لعنت کا خاتمہ ہوچکاہے لیکن بقول علامہ اقبال ؒ
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم او ر
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ظاہری غلامی جو بندشوں اور زنجیروں کی شکل میں دکھائی بھی دیتی تھی وہ تو
ختم ہوگئی لیکن تہذیب کے آزرنے غلامی کی نئی شکلیں پیدا کردیں جو سلیمانی
ٹوپی پہن کر دکھائی تو نہیں دیتیں لیکن انسان کا بند بند اس کے اندر جکڑا
ہوتاہے
قارئین پاکستان میں 10سالہ مارشل لا ءکے بعد ”کھپے والی سرکار “کی حکومت
برسراقتدار آئی اور ”روٹی کپڑا اور مکان “کا نعرہ لگاکر عوامی خدمت کا سفر
شروع کیا تو اس وقت پاکستان کے مجموعی قرضے 30ارب ڈالرز کے قریب تھے اور یہ
خطیر رقم کا بوجھ قرضے کی شکل میں لادنے میں ہمارے فوجی اور سیاسی حکمرانوں
کو تقریباً 60سال لگے ۔کھپے والی سرکار کی حکومت کی برکتیں تو دیکھیے کہ
چار سال کے اندر اب ان قرضوں کا حجم مجموعی طور پر 70ارب ڈالرز سے تجاوز
کرچکاہے اسی طرح تیل ،گیس ،آٹا ،چینی ،دالیں ،اشیائے صرف سے لے کر زندگی کی
ہر ضرورت کی چیز کی قیمت میں 70سے 100فیصد اضافہ ہوچکاہے دوسری جانب 18کروڑ
پاکستانیوں کی قوت خرید اس حد تک کم ہوئی ہے کہ وہ خاندان جو 2008ءمیں پانچ
ہزا رسے لے سات ہزار روپے میں اپنا گزارہ کرلیتاتھا اب پندرہ ہزار روپے میں
بھی گزارہ کرنا ان کے لیے ناممکن ہے کھپے والی سرکار نے بجلی کی لوڈشیڈنگ
دورکرنے کے لیے سستی ترین بجلی یعنی پن بجلی کی بجائے مہنگی ترین بجلی لینے
کے لیے رینٹل پاور پلانٹس کا کام شروع کیا اور ”ہذا من فضل ربی“کے تحت
اربوں ڈالرز کے ان منصوبوں میں خطیر کمیشن اپنی جیبوں میں ڈالا اپنی ہی
پارٹی کے جیالوں کو نوازنے کے لیے ریلوے ،پی آئی اے ،اوجی ڈی سی ،بینکوں
اور دیگر تمام اداروں میں فضول قسم کی بھرتیاں کی گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا
کہ منافع پیدا کرنے کے قابل یہ قومی ادارے ڈوب گئے اور اب حالت یہ ہے کہ ہر
ادارے کا نظام چلانے کے لیے قوم کے خون پسینے سے کشید کیے گئے قیمتی ٹیکس
کی رقم میں سے اربوں روپے ان اداروں کو امداد کی مدمیں دیئے جاتے ہیں تاکہ
وہ ملازمین کی فوج ظفر موج کو تنخواہ دے سکیں یہاں تک لطیفہ نما حقیقت
سامنے آئی ہے کہ قومی ائرلائن کی ایک فلائٹ کوآپریٹ کرنے کے لیے جہاں 75سے
85ملازمین کی ضرورت تھی وہاں اب 400سے زائد ملازمین کام کررہے ہیں اور کیا
کام کررہے ہیں اس کا درست انداز ہ وہی لگاسکتاہے جو پی آئی اے میں سفر
کرتاہے اور اس کے بعد پکی توبہ کرتاہے کہ آئندہ کبھی بھی اس ائرلائن میں
سفر نہیں کرے گا اگراس کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہوا ۔
قارئین یہ تو پاکستان کی عوامی حکومت کی کارکردگی کا ایک چٹکی نما جائزہ ہم
نے آپ کے سامنے رکھا آئیے اب آزادکشمیر میں طویل جدوجہد کے بعد مسلم
کانفرنس کو شکست دے کر اقتدار میں آنے والی حکومت کے سات ماہی اقتدار کی
ہلکی سی جھلک بھی آپ کو دکھا دیں 26جون 2011ءکے انتخابات کے بعد آزادکشمیر
میں پیپلزپارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری اور تین امیدواران وزارت
عظمی کی کرسی کے لیے جدوجہد کرتے دکھائی دیئے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان
محمود چوہدری ،پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے صدر چوہدری عبدالمجید اور آصف علی
زرداری صدر پاکستان کے قریبی دوست چوہدری یاسین کے درمیان وزار ت عظمیٰ کے
لیے سخت ترین مقابلہ تھا ان دنوں قومی اخبارات میں تواتر کے ساتھ یہ خبریں
چھپیں کہ آزادکشمیر کی وزارت عظمیٰ کی بولیاں لگائی جارہی ہیں اور اس حوالے
سے صدر پاکستان کے خاندان کی ایک سیاسی شخصیت کا نام بار بار لیاگیا کہ وہ
آزادکشمیر کی ایک سیاسی شخصیت سے وزارت عظمیٰ کی نیلامی کے عوض کئی ارب
روپے وصول کرچکی ہے جب یہ خبر پوری دنیا میں پھیل گئی تو شنید ہے کہ اس وقت
ہما کا پرندہ اُڑ کر چوہدری عبدالمجید کے سر پر جابیٹھا اور وہ وزیر اعظم
بن گئے ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد امید تو یہ تھی کہ وہ میرٹ ،عدل ،انصاف
او ردیگر سنہری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے آزادکشمیر کو ایک ماڈل سٹیٹ
بنائیں گے لیکن انہوںنے بھی وزیر اعظم کے عہدے کو ”مجاور اعظم “میں بدل کر
کشمیری قوم کے وقار کو ایک سوالیہ نشان بنادیا ،لارڈ نذیر احمد جیسی عظیم
شخصیت کو صر ف اپنے سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ”ناپسندیدہ شخصیت “قرار دینے
کی حرکت کی اور ان کی شہریت بھی منسوخ کرنے کی کوششیں کیں یعنی وہ کام جو
بھارت آج تک نہ کرسکا وہ آزادی کے بیس کیمپ کے وزیر اعظم نے ”شاہ سے بڑھ کر
شاہ کا وفادار “بننے کی کوششوں میں کرڈالی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چوہدری
عبدالمجید کی مقبولیت کا گراف کریش لینڈنگ کرگیا چاہیے تو یہ تھا کہ اپنی
غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے وہ بہتر حکمت عملی اپناتے لیکن کیاکہیے کہ ان کے
نالائق مشیر یا ان کی اپنی بدقسمتی حالیہ دنوں میں وہ ایک اور بہت بڑی غلطی
کر بیٹھے میرپور جو آزادکشمیر کامعاشی دل ہے اور جہاں سے پورے آزادکشمیر کا
80فیصد سے زائد ٹیکس اکٹھاہوتاہے جہاں پر واقع منگلاڈیم سے پاکستان کو
ہرسال بجلی اور پانی کی مد میں اربوں روپے کی آمدن ہوتی ہے اور جہاں سے
تعلق رکھنے والے دس لاکھ سے زائد برطانوی شہری ہر سال وطن کو 14ارب ڈالرزسے
زائد فارن ایکسچینج مہیا کرتے ہیں چوہدری عبدالمجید نے اسی شہر میں اپنے
سیاسی سفر کا آغاز کیا جو وزار ت عظمی کی کرسی تک جا پہنچا چوہدری
عبدالمجید نے گزشتہ دنوں اعلان کیا کہ میرپور میونسپل کارپوریشن کی حدود
میں جتنی بھی سٹیٹ پراپرٹی ہے اسے نیلام کردیاجائے اور حاصل ہونے والی آمدن
ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جائے گی یہ اعلان ہونا تھا کہ میرپور کی تمام
سیاسی ،سماجی ،رفاعی تنظیمیں جاگ اُٹھیں اور انہوںنے یک زبان ہوکر اس ”خود
کش حملے “کو شٹ اپ کال دے دی “گزشتہ دنوں چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم
آزادکشمیر میرپور ایک ہنگامی دورے پر تشریف لائے اور انہوںنے تمام شہریوں
سے ایک میٹنگ کی اور جذباتی انداز میں کہاکہ میں حرام کھاﺅں اگرمیں مقاصد
غلط ہوں میں یہ رقم شہر کی ترقی کےلئے خرچ کروں گا اور میرپور شہر کو بین
الاقوامی سطح کا شہر بناﺅں گا وغیر ہ وغیرہ وغیرہ ۔
قارئین ہم نے میرپور میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ریاض
احمد سے اس حوالے سے خصوصی نشست رکھی اور اس مسئلے کے متعلق دریافت کیا
میرپور میڈیکل کالج کی تحریک میں ڈاکٹر ریاض احمد چوہدری عبدالمجید کے
قریبی ترین ساتھی کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے اور وہ کافی کچھ جانتے تھے
ڈاکٹر ریاض احمد نے بتایا کہ اگر حکومت نیک نیت ہو تو بڑی آسانی سے اربوں
روپے کی رقم بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور یہ قومی جائیداد فروخت کرنے سے بھی
ہم بچا سکتے ہیں ڈاکٹر ریاض نے کہاکہ آج حکومت اگر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ
کے تحت ان زمینوں پر کمرشل نوعیت کی بلڈنگز اور پلازے تیار کرے تو تاجر
برادری بھاری رقوم دے سکتی ہے اور تاحیات ان جائیدادوں سے حکومت اور شہری
دونوں فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ڈاکٹر ریاض کی گفتگو کی جز ئیات اور تفصیل ہم
آئندہ کے کالم میں تحریر کریں گے آج بقول غالب یہی کہیں گے ۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آروز میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
قارئین چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم آزادکشمیر سے ہم یہی گزارش کرنا چاہتے
ہیں کہ اگر گھر میں بھوک ہو تو اس بھوک کو مٹانے کیلئے محنت کی جاتی ہے
ناکہ گھر کو ہی بیچ دیاجاتاہے گھر کو مت بیچئے بلکہ بھوک ختم کرنے کے لیے
روز گار کی سکیمیں بنائیے اور دستیاب وسائل کو کام میں لائیے آپ کی نیت نیک
ہوگی ہمیں اس پر کوئی شک نہیں لیکن آپ کے مشیروں کے مشورے درست نہیں ہیں
خود دار لوگوں کے متعلق مشہو رہے کہ وہ مر تو جاتے ہیں لیکن اپنی عزت اور
آن کا سودا نہیں کرتے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
جج نے غصے سے مجرم کو کہا
تم ہر بار ایک ہی گھر سے چوری کرتے ہوئے کیوںپکڑے جاتے ہو
مجرم نے مسکین سا منہ بناکر جواب دیا
جج صاحب میں اس گھر کا ”فیملی چور “ہوں
قارئین میرپور بھی آزادکشمیر کا وہ بدنصیب شہر ہے جہاں مختلف چور اور ڈاکو
بھیس بدل بدل کر آتے ہیں اور اسی کو لوٹ کر چلے جاتے ہیں ۔۔ |