دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان
ایک طویل عرصہ سے خود کو معاشی طور پر ترقی یافتہ بنانے کیلئے وسطی ایشیائی
ممالک کے معدنی وسائل اوربحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی کیلئے خاموش جنگ
جاری ہے جو کسی وقت عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اس خاموش جنگ میں
پاکستان کا کردار مرکزی نوعیت کا ہے کیونکہ ان معدنی وسائل اور گرم پانیوں
تک رسائی کیلئے مختصر ترین راستہ بلوچستان سے ہو کر گزرتا ہے جبکہ خود
بلوچستان میں گیس، تیل، سونے، تانبے، یورینیم اور دوسری قیمتی معدنیات کے
وسیع ذخائر موجود ہیں۔ جہاں برطانیہ سرزمینِ افغاناں کو سامراجی تسلط میں
لے کر پورے برصغیر پر اپنے قبضے کو ہمیشہ کیلئے یقینی بنانا چاہتا تھا وہیں
روس کا گرم پانیوں تک تلاش کا سفر بھی دراصل یہی تھا کہ وہ بلوچستان تک
رسائی حاصل کرے۔ اب گرم پانیوں اور معدنی وسائل تک رسائی کا یہ خواب امریکا
کا ہے جبکہ چین بھی گرم پانیوں تک رسائی کا خواہاں ہے تاکہ اُس کی معیشت
مزید ترقی کر سکے۔ اِدھر جاپان، بھارت اور یورپی ممالک کو بھی اپنی اقتصادی
اور تجارتی ضروریات پوری کرنے کے لیئے ایران، افغانستان اور وسطی ایشیاءکی
گیس اور تیل کی اشد ضرورت ہے ،اس لیئے یہ ممالک بھی بلوچستان کے ساحل پر
اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ ان ممالک کی بلوچستان میں دلچسپی
کے باعث یہ صوبہ عالمی سازشوں کا مرکز بن چکا ہے، جس کا اندازہ یہاں پھوٹ
پڑنے والی بغاوت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف عالمی ایجنڈا بھی بلوچستان میں ایسی شورش کو برقرار رکھنا ہے
تاکہ پاکستان مستقبل میں بلوچستان کے معدنی وسائل اور گوادر کی بندرگاہ سے
کوئی فائدہ نہ اُٹھا سکے کیونکہ ایسی صورت میں ایٹمی ملک کی معیشت بھی ایٹم
کی طرح مضبوط ہو سکتی ہے جو پاکستان دشمن قوتوں کو کسی طور قبول نہیں۔
بلوچستان اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے پاکستان کیلئے سونے کے انڈوں کی حیثیت
رکھتا ہے کیونکہ اس صوبہ سے ملک کا روشن مستقبل وابستہ ہے جبکہ گوادر اور
پسنی کی بندرگاہیں پاکستان کے علاوہ چین، افغانستان، وسط ایشیاءکے ممالک
تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر روسی
ریاستوں کے استعمال میں آئیں گی جس سے پاکستان کو بیش بہا محصول ملے گا۔
اگر ان دونوں بندرگاہوں نے اپنا کام درست طور پر شروع کر دیا تو پاکستان
اور چین گرم پانیوں کی حکمرانی دوسرے ممالک سے چھین لینگے، تیل کی ترسیل کا
بڑا حصہ جو روس کی بندرگاہوں سے کیا جاتا ہے وہ بھی اس سے چھن جائیگاجبکہ
دوسری جانب ایرانی بلوچستان میں بننے والی بندرگاہ کی اہمیت بھی کم ہو جائے
گی ۔گوادر کی تعمیر سے ایران کے بحری ٹریفک کنٹرول اور اسکے مفادات پر سخت
ضرب پڑتی ہے کیونکہ اس طرح گزرنے والی تمام ٹریفک کو گوادر سب سے بہترین
مقام پڑتا ہے۔ایران نے اس سے نبرد آزما ہونے کیلئے ایرانی بلوچستان میں
بھارت کے تعاون سے ایک نئی بندرگاہ تعمیر کی ہے جس کے ذریعے بھارت بھی گرم
پانیوں پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے۔
اس تمام صورتحال کے تناظر میں بلوچستان امریکا، چین،بھارت، ایران، یورپ اور
ایشیائی ممالک کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل خطہ بن گیا ہے۔ امریکا کے اس
خطے میں دو مقاصد ہیں ایک وسط ایشیاءسے توانائی کا حصول جبکہ دوسرا چین اور
ایران کیخلاف گھیرا تنگ کرنا۔ چین کی ابھرتی طاقت کو روکنا اور اپنی
سپرپاوری کو برقرار رکھنا امریکی خارجہ پالیسی کا اصل ہدف ہے۔ پاک چین کی
لازوال دوستی کی بدولت امریکا اپنے اِن اہداف کے حصول میں فی الحال ناکام
دکھائی دیتا ہے ۔امریکا جانتا ہے کہ اگر اس کا پاکستان پر مکمل تسلط قائم
ہو جاتا ہے تو نہ صرف بلوچستان اور سندھ کی معدنیات اس کے کنٹرول میں آ
جائیں گی بلکہ اسے پوری دنیا کا گیٹ وے بھی میسر آ جائیگا جس میں چین،
بھارت اور ایران سرفہرست ہیں۔ امریکا گرم سمندروں سے ملحقہ بلوچ علاقوں کو
پاکستان سے الگ کرکے وہاں ایسی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے جو خلیجی ممالک کی
طرح اس کی طفیلی ہو۔ اس لیئے وہ بلوچستان میں شورش برقرار رکھ کر اور چند
بلوچ سرداروں کے ذریعے آزاد بلوچستان کے مسئلے کو ہَوا دیکر یہ مقاصد حاصل
کرنا چاہتا ہے۔اسی مقصد کے لیئے روس نے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی
کوشش کی تھی اور یہی امریکا کا بھی مقصدہے۔ روس کا مفاد یہ ہے کہ پاکستان
مستقبل میں افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ نہ
کر سکے۔ جنوبی سمندروں تک رسائی کا روس کا پرانا خواب ہے اور وہ اسی مقصد
کے لئے افغانستان پر قابض ہوا تھا تاکہ گوادر کے راستے گرم پانیوں تک پہنچ
کر وسط ایشیاءکی دولت کو کیش کروا سکے۔
چین ہمیشہ گوادر کو دوست پاکستان کی سویلین بندرگاہ کہتا ہے کیونکہ گرم
پانیوں تک پہنچنے کی خواہش اس کی بھی ہے۔ اس نے گوادر میں بہت بڑی سرمایہ
کاری کر رکھی ہے جسے چین کی جنگی اور سٹریٹجک چال بھی کہا جا سکتا ہے ۔ چین
ہر اس ملک پر اپنی بھاری سرمایہ کار ی کر رہا ہے جہاں سے امریکا یا اس کے
دیگر دشمن ممالک ممکنہ طور پر اس کی تیل کی ٹریفک کو روک سکتے ہیں۔ چنانچہ
گوادر پورٹ پر چین کی موجودگی سے گرم پانیوں کی ٹریفک محفوظ ہو جائے گی،
لہٰذا چین ہرگز یہ نہیں چاہے گا کہ بلوچستان اُس کے دوست ملک پاکستان کے
ہاتھ سے نکل جائے۔ جہاں تک بلوچستان میں بھارت کا کردار ہے تو وہ سمجھتا ہے
کہ مستقبل میں گوادر بندرگاہ کے ذریعے پاکستان اور چین کی اس خطے پر اجارہ
داری قائم ہو جائے گی اس لیئے بھارت پاکستان کو کسی قسم کا چانس دینے کو
تیار نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف پاکستانی بلوچستان میں بغاوت کو
ہَوا دے رہا ہے بلکہ ایران کیساتھ مل کر ایرانی بلوچستان میں ایک بندرگاہ
بھی تعمیر کر رہا ہے اور ساتھ ہی ایک سڑک بھی بنانے میں مدد کر رہا ہے جو
اس بندرگاہ کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ممالک سے ملائے گی۔ مزید
برآں ایران کیساتھ تعاون کے نتیجے میں وہ گوادر میں چین کے اثرات کو بھی کم
کر سکتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور بلوچستان کے معدنی وسائل سے ایران
کے بحری ٹریفک کنٹرول اور اس کے دیگر مفادات پر بھی سخت ضرب پڑتی ہے۔ اس
لیئے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایران بھی پاکستانی بلوچستان کے حالات
کی خرابی میں کسی حد تک ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔
اگر سوویت یونین کی گرم پانیوں تک رسائی کی خواہش پوری ہو جاتی تو روس کبھی
نہ ٹوٹتا اور آج امریکہ کی بجائے سوویت یونین ہی سپر پاور ہوتا اور اس کے
بحری بیڑے بحرِ ہند اور بحیرہ عرت میں اُتر کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں
کا ناطقہ بند کر دیتے۔پہلے امریکا ہمیں ڈراتا رہا کہ روس گرم پانیوں تک
پہنچنا چاہتا ہے لہٰذا اس نے پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے اس کا راستہ
روکا اور خود سپر پاور بن بیٹھا۔ اب امریکا اپنی سپر پاوری کو برقرار رکھنے
کیلئے گرم پانیوں تک رسائی کا خواہاں ہے لیکن اس کے راستے میں سب سے بڑی
رکاوٹ چین ہے۔ اگر امریکہ گرم پانیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو
وہ ایک طویل عرصے تک خود کو سپر پاور برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے،
بصورت دیگر چین سپر پاور بننے کی پوزیشن میں ہے۔ حالیہ برسوں میں چین نے
خود کو علاقائی سپر پاور ثابت کر دیا ہے اور اب وہ عالمی سپر پاور بننے کی
منزل پر پہنچنے والا ہے۔ امریکا کے نزدیک پاکستان کی زیادہ اہمیت بلوچستان
کی وجہ سے ہے لیکن اسکے ایٹمی طاقت ہونے اور چین کی گوادر میں موجودگی کے
باعث وہ براہ راست جارحیت سے قاصر ہے لہٰذا امریکا بہادر اپنی حکمت عملی
تبدیل کرکے قوم پرستوں کے ذریعے پاکستان کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرنیکی
منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے ۔ بلوچستان میں شورش کا بڑا مقصد صرف اتنا ہے
کہ کسی طرح چین کو گوادر کی بندرگاہ سے دور رکھ کر اسے گرم پانیوں پر
حکمرانی سے روکا جا سکے۔
پاکستان اس وقت سبھی کی نظروں میں چبھ رہا ہے اور دشمن قوتیں بلوچستان کو
الگ کرنا چاہتی ہیں ۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے ہاتھ سے
بلوچستان نکلتا جا رہا ہے اور بہت جلد ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنا وجود
تسلیم کرانے میں کامیاب ہو جائیگا لیکن یہ محض ایک خام خیالی ہے کیونکہ
پاکستان اور چین اس خطے کو کسی صورت بھی اپنے دشمن ممالک کے ہاتھ نہیں لگنے
دینگے ۔ اگر بلوچستان کے معاملہ پر جنگ شروع ہو تی ہے تو یہ عالمی جنگ بن
جائے گی۔ پاکستان اس جنگ میں آخری حد تک جائیگا جبکہ چین، ایران اور روس
بھی ایک بلاک کا حصہ بن کر پاکستان کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
بلاشبہ روس اور ایران کے بلوچستان میں اپنے اپنے مفادات ضرور ہیں لیکن
سامراجی امریکا کیخلاف کمیونسٹ ممالک چین اور روس ایک ہو سکتے ہیں جبکہ
ایران کے ساتھ امریکا کے تعلقات پہلے سے کشیدہ ہیں۔ ایران اور چین بھی یہ
سمجھتے ہیں کہ اس خطے میں امریکا کی موجودگی سے دونوں ملکوں کی سلامتی کو
خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جبکہ روس کو امریکا سے اپنی شکست کا بدلہ چکانے کا
موقع ہاتھ آ جائیگا۔ یہ سچ ہے کہ دشمن قوتیں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے
پاکستان کو غیر مستحکم کرکے نہ صرف اس کی تقسیم چاہتی ہیں بلکہ ایٹمی
ہتھیاروں پر بھی قبضہ کرنا چاہتی ہیں لیکن پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں بھی اس
کے توڑ میں متواتر لگی ہوئی ہیں۔ ان کی رفتار اس لیئے سست ہو سکتی ہے کہ
بیک وقت ساری دنیا سے لڑنا آسان نہیں جبکہ حکمران بھی اس طرح کا تعاون نہیں
کر رہے جیسی ضرورت ہے۔ اگر حکمران، فوج، خفیہ ایجنسیاں اور عوام کسی ایک
نظریہ پر متحد ہو جاتے ہیں تو پھر بہت جلد پاکستان کی دشمن طاقتیں پسپا ہو
جائیں گی۔ حکومت کو چاہئے کہ بلوچی عوام کو اُن کے بنیادی حقوق فراہم کرے
تاکہ وہ اِن سرداروں کے چنگل سے نکل سکیں جو صرف پیسے کو خدا سمجھتے ہیں۔ |