مغرب کو سائبر اسپیس اور آن لائن
کلچر پر بہت فخر ہے۔ مغربی ماہرین اِس بات پر نازاں ہیں کہ اب کسی کی کہیں
موجودگی لازم نہیں یعنی ”ورچوئل“ وجود ہی کافی ہے۔ مگر اُنہیں اندازہ نہیں
کہ ہم اُن سے ایک نہیں کئی قدم آگے ہیں۔ مغرب نے صرف ویب سائٹس متعارف
کرائی ہیں، ہمارے ہاں متحرک یعنی زندہ ویب سائٹس موجود ہیں اور دن بہ دن
پَھل پُھول رہی ہیں۔ یہ فکر دنیا کو لاحق ہوگی کہ ویب سائٹس کو زیادہ سے
زیادہ متحرک اور ”انٹر ایکٹیو“ کِس طرح بنایا جائے، ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ
چلتی پھرتی ویب سائٹس اور گھومتے پھرتے انسائیکلو پیڈیاز کو کِس طرح کنٹرول
کریں!
دنیا بھر میں لوگ معلومات کے حصول کے لیے آن لائن انسائیکلو پیڈیا سے کنسلٹ
کرتے ہیں اور ہمارے ہاں یہ سہولت، انٹرنیٹ کو بیچ میں لائے بغیر، کہیں بھی
حاصل کی جاسکتی ہے۔
معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں جنہوں نے از خود نوٹس کے تحت خود کو
چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا قرار دے دیا ہے! یہ معلومات کے وہ خزانے ہیں جن
سے کسی بھی وقت مستفید ہوا جاسکتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ اِس بات کے
بھی محتاج اور مُکلّف نہیں کہ آپ اُنہیں مدعو کریں۔ یہ فیصلہ بھی اُنہی کو
کرنا ہے کہ آپ کو کب، کِس طرح اور کِس حد تک مُستفید کیا جائے!
ذرا غور سے دیکھیے، آپ کے ارد گرد چند ایسی شخصیات ضرور ہوں گی جو بات بات
پر مینٹل ٹائم ٹریول کرتی ہیں یعنی اپنے اور آپ کے ذہن کو پلک جھپکتے میں
ماضی کی گہرائیوں میں اُتار دیتی ہیں۔ عشروں کا سفر یہ ایک لمحے میں کرتی
ہیں اور چار پانچ عشرے پہلے کی دنیا میں جاکر وہاں سے وہ سب کچھ لے آتی ہیں
جو ہم نے دیکھا ہے نہ سُنا ہے۔ جہاں آپ نے گزرتے ہوئے دور کے بارے میں کوئی
ایسی ویسی بات کی اور یہ نابغے آپ کو لتاڑنے پر تُل جاتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ
کا یہ خیال ہے کہ آپ کا زمانہ بہت اچھا ہے اور بہت سی سہولتیں آسانی سے
میسر ہیں تو کوئی نہ کوئی چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا آپ کے ساتھ آکر یاد
دلائے گا کہ گزرے ہوئے زمانے میں ایسا بہت کچھ تھا جو حقیقی معنوں میں اللہ
کی نعمت تھا اور اب ہم اُس نعمت سے محروم ہوچکے ہیں۔ اگر آپ نے اُن کی کسی
بات سے اختلاف کیا تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ اپنی موت کو دعوت دے دی!
یہ لوگ وہ ہیں کہ جن کی چند لمحات کی گفتگو میں کئی زمانے اپنی جھلک دکھاتے
ہیں اور ہر زمانہ اپنے تمام رنگوں کے ساتھ آن کی آن میں چھلانگیں مارتا ہوا
ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ ہر دور کی ”مستند“ تاریخ جاننا ہو تو معلومات
کے اِن زندہ خزانوں سے رابطہ کیجیے اور اِنہیں دعوتِ کلام دیجیے۔ واقعات کا
درست ترین سیاق و سباق جاننے کی خواہش ہے تو اِن سے رابطہ کیجیے۔
ویسے تو کمپیوٹر بھی آپ کو انٹرنیٹ کی دنیا میں لے جاکر کسی بھی موضوع پر
تفصیلی معلومات سے ہمکنار کرسکتا ہے مگر یہی سب کچھ اگر اِنسانوں کے ذریعے
ملے اور وہ بھی بھرپور ڈرامائی کیفیت کے ساتھ تو کیا کہنے! اِن کا دم غنیمت
ہے کہ ہمیں بہت کچھ اضافی معلومات کے ساتھ معلوم ہو پاتا ہے۔ یہ اضافی
باتیں وہ ہیں جو کسی کتاب میں نہیں ملیں گی کیونکہ اِنہیں درج کرنے کی زحمت
کسی نے گوارا نہیں کی۔
آج جو لوگ 80 سال سے زیادہ کے ہیں اُن سے آپ بہت آسانی سے پوچھ سکتے ہیں کہ
1950 کا یعنی پاکستان کے قیام کے فوری بعد کا زمانہ کیسا تھا۔ یہ آپ کو
بتائیں گے کہ دفاتر میں اسٹیشنری نہیں ہوا کرتی تھی اور لوگ کاغذات کو آپس
میں جوڑنے کے لیے کیکر کے کانٹوں کو پن کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے! یہ
بزرگ آپ کو بتائیں گے کہ ایک روپے میں کتنا آٹا آتا تھا اور بس کا کم از کم
کرایا کتنا تھا۔ مشکل یہ ہے کہ یہ اپنی گفتگو میں آنوں اور پائیوں کا ذکر
کریں گے اور آپ، اگر بیس بائیس سال کے ہیں، سمجھ ہی نہیں پائیں گے کہ اُس
دور میں قیمت کس طور ادا کی جاتی ہوگی! دنیا میں آپ کے آنے تک پیسوں اور
آنوں کو دفن کیا جاچکا تھا اور سب کچھ روپے کے سانچے میں ڈھل چکا تھا!
ماضی کے یہ چلتے پھرتے ”پروموٹرز“ آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے
ہیں کہ گزرے ہوئے زمانوں میں سب کچھ اچھا تھا اور کسی کو کسی معاملے میں
پریشانی کا سامنا نہ تھا۔ اِن کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ گزرے ہوئے کل میں
کم آمدنی بھی سُکھ دیتی تھی اور تھوڑے میں بھی گزارا ہوا کرتا تھا۔ ذرا سا
چھیڑنے کی دیر ہے اور پھر دیکھیے کہ ماضی سے عقیدت کی حد تک محبت کرنے والے
یہ بزرگ گزرے ہوئے زمانوں کی کتنی اور کیسی کہانیاں سناتے ہیں۔ اِن کی
باتیں سُن کر کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے کہ زمانے پلٹ جائیں اور ہم گزرے
ہوئے ادوار میں پہنچ کر سُکون کی زندگی بسر کریں! اگر ہمارے ہاں مطالعے کا
ذوق اور شوق زیادہ پروان نہیں چڑھ سکا تو اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے
کہ بہت کچھ گوش گزار کرنے والے موجود ہیں! جب کچھ پڑھنے سے قبل ہی بہت کچھ
خود بخود سماعت کی نذر ہو جاتا ہے تو کتاب خریدنے اور پڑھنے کی ضرورت کیا
ہے؟ گزرے ہوئے زمانوں کی کہانیاں سُنانے والے برگد کے درخت کے مانند ہوتے
ہیں۔ کچھ دیر اِن کی چھاؤں میں بیٹھیے تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں کوئی
پریشانی ہے ہی نہیں۔ یہ آپ کو گزرے ہوئے حسین زمانوں میں لے جاتے ہیں اور
یہ باور کرانے میں بہت حد تک کامیاب رہتے ہیں کہ کبھی اِس دنیا میں سب کچھ
اچھا بھی تھا!
مرزا تنقید بیگ کو ماضی میں رہنا بہت اچھا لگتا ہے۔ انگریزی میں ماضی کو
ایک الگ ملک سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یعنی جب ہم گزرے ہوئے زمانوں میں رہتے
ہیں تو کسی اور ملک میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ مرزا کا استدلال ہے کہ
جو لوگ ماضی پرست ہوتے ہیں وہ کچھ دیر کے لیے غموں سے چھٹکارا پالیتے ہیں۔
بات اُن کی غلط نہیں مگر وہ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ ماضی کے راگ الاپنے
والے اُن زمانوں کی خامیوں کو بیان کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یہ تو
بتایا جاتا ہے کہ فلاں سن میں آٹا ایک روپے کا چار کلو آتا تھا مگر یہ
بتانے سے گریز کیا جاتا ہے کہ تب ماہانہ تنخواہ پندرہ سولہ سو روپے ہوا
کرتی تھی! جن ادوار کو خوشحالی کا نقیب قرار دیکر اُن کے نام کے ڈنکے بجائے
جاتے ہیں تب گھروں میں بنیادی سہولت کی بہت سی اشیاءنہیں ہوا کرتی تھیں۔ آج
گھر گھر ریفریجریٹر، ٹی وی، کمپیوٹر، کچن کے برقی آلات اور دوسری بہت سی
اشیاءہیں۔ تب یہ سب کچھ نہیں تھا۔ مگر مرزا ہماری کسی بھی بات سے کب اتفاق
کرتے ہیں؟ وہ ماضی میں گم رہنا پسند کرتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانوں کی یادوں
میں کھوکر سُکون کے سانس لینے والوں کو دیکھ کر ہم سوچتے ہیں کہ ہر وقت
ماضی کی حسین یادوں کو دہرانے والے لوگ کہیں حکومت کے پلانٹیڈ بندے تو
نہیں! حکومت عوام کو ویسے تو کوئی ریلیف دے نہیں پاتی، ایسے میں ماضی کی
حسین یادوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے افراد معاشرے میں پھیلاکر لوگوں کو تھوڑا
بہت سُکون حاصل کرنے کا موقع تو فراہم کیا ہی جاسکتا ہے! |