بھیڑ بکریاں

ماہِ ربیع الاول کے انوارو تجلیات کی مناسبت سے ایک ایسے واقعے کا ذکر کرنا اپنے لئے سعادتِ دین و دنیا تصور کرتا ہوں جس میں فرمانِ رسول اللہ ﷺ کی فصاحت و بلاغت کا ایسا بیش قیمت خزانہ پوشیدہ ہے کہ میں اس پر جتنا غو رو عوض کرتاہوں اتنا ہی حیرت کی اتھا ہ گہرائیوں میں گم ہو جاتا ہوں۔ ویسے تو سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ کے سارے فرمان فصا حت وبلا غت کے نادر شاہکار ہوتے ہیں لیکن اس واقعے میں فصاحت و بلاغت کی کیفیت اپنی انتہاﺅں کو چھو رہی ہے ۔ حنین کی جنگ کے عواقب میں چند ایسے واقعات کا ذکر آتا ہے جو جہاں فکری اعتبار سے بڑے بلند ہیں تو وہاں سوزو گدا ز کی ایک دنیا بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ سوزو گداز کا یہ عالم ہے کہ میں قرآنِ کریم کو سال ہا سال سے دجہ ¾ِ شادابی ¾ِ قلب و نگا ہ بنا ئے ہو ئے ہوں لیکن میری کیفیت یہ ہے کہ میں جب بھی غزوہ حنین کے ان مقامات پر پہنچتا ہوں تو بلا ساختہ دل میں جذبات کا طلاطم برپا ہو جاتا ہے جو آنسو بن کر آنکھوں سے ٹپک پڑتا ہے یہ بخیلی ہو گی کہ اگر میں قارئین کو اس میٹھے درد کی لذت میں شامل نہ کروں ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ حنین کی جنگ میں کفار کی شکست خوردہ فوج طا ئف میں جا کر جمع ہو گئی ۔ حضور ﷺ نے جا کر شہر کا محاصرہ کر لیا۔ بیس دن تک محاصرہ رہا اور جب معلوم ہو گیا کہ کہ کفار کا زور ٹوٹ چکا ہے تو آپ ﷺ محاصرہ اٹھا کر واپس تشریف لے آئے۔ حنین میں بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا تھا ۔ اس کی تقسیم میں حضورﷺ نے یہ رعائت ملخوظ رکھی تھی کہ قریشِ مکہ میں سے جو لوگ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے ان کی تالیفِ قلوب کے لئے انہیں زیادہ حصہ دیاجائے۔( واضح رہے کہ تالیفِ قلوب سے مراد رشوت یا لالچ نہیں ہو تا اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے دین کی خاطر کسی قسم کا نقصان اٹھا یا ہو ان کے اس نقصان کی تلافی کر کے ان کی دل جوئی کا سامان کر دیا جائے ) اس سے انصار کے بعض افراد کے دل میں غالبا ´ یہ خیال ابھرا کہ یہ لوگ چونکہ رسول اللہ ﷺ اور مہاجرین کے اہلِ قبیلہ اور اعزہ و اقارب ہیں اس لئے انھیں زیادہ مال دیا گیا ہے۔ نبی ِ کریم ﷺ کو بحثیتِ امیرِ ملت تقسیمِ غنیمت کے کلی اختیارات حاصل تھے۔ آپ ﷺ کے فیصلوں کے خلاف کو ئی آواز بلند نہیں ہو سکتی تھی ۔حضور ﷺ چاہتے تو ایک لفظ سے اس خیال کو ابھرنے سے روک دیتے لیکن یہ مستبدانہ آمریت تصور میں بھی نہیں لائی جا سکتی تھی۔ حضور ﷺ نے تمام صحابہ کرام کو جمع کیا اور ایک ایسا خطبہ ارشاد فرمایا جو ایک طرف فنِ بلاغت میں اعجاز کا حکم رکھتا ہے تو دوسری طرف ان قلبی تعلقات کو نکھار کر سا منے لا رہا ہے جو حضور ﷺ کو انصار کے ساتھ تھے۔

حضور ﷺنے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ تم گمراہ تھے ۔خدا نے میرے ذریعے تم میں اتفاق و اتلاف پیدا کیا۔تم مفلس تھے خدا نے میرے ذریعے تمھیں دولت مند کر دیا۔ آپ ﷺ ٰ یہ فرماتے جاتے تھے اور انصار ایک ایک فقرہ پر کہتے جاتے تھے کہ خدا اور اس کے رسول ﷺ کا احسان سب سے بڑھ کر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں تم ٹھیک جواب نہیں دے رہے۔ تم یہ جواب دو کہ محمد ﷺ جب اور لوگوں نے تمھیں جھٹلایا تو ہم نے تیری تصدیق کی ۔ جب لوگوں نے تجھے چھوڑ دیا تو ہم نے تجھے پناہ دی ۔تومفلس آیا تھا ہم نے ہر طرح کی مدد کی ۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے فرما یا تم یہ کہتے جاﺅ اور میں ایک ایک فقرے پر کہتا جاﺅں گا کہ تم سچ کہتے ہو ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا اے انصار یہ سب سچ ہے لیکن کیا تم یہ پسند نہیں کرو گے کہ یہ لوگ اونٹ اوربکریاں لے جائیں اور تم محمد ﷺ کو اپنے گھر لے جاﺅ۔ اب کسے یارائے ضبط تھا ۔ مجمع کی بے ساختہ چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے پکار کر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ انہیں سب کچھ دے دیجئے اور ہمارے لئے صرف محمد ﷺ کو ہی رہنے دیجئے۔
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر۔۔اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
اکثر کا یہ حال تھا کہ روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے انھیں سمجھا یا کہ اس رعائت سے کیا مقصود تھا اور یوں ان کے دل کے ساتھ دماغ کو بھی مطمئن کر دیا کہ حضور ﷺ کا فیصلہ کس طرح عدل و انصاف پر مبنی تھا۔اسلام میں بات منوائی ہی دل و دما غ کے پورے پورے اطمینان کے ساتھ جاتی ہے اس میں نہ آمرانہ استبداد ہو تا ہے اور نہ ہی خالص جذباتی اپیل۔ اس میں عشق اور زیرکی دونوں کا حسین امتزا ج ہو تا ۔ حنین کے چھ ہزار قیدی ابھی تک محصور تھے ۔ آپ ﷺ نے انتظار کیا کہ ان کے اعزہ و اقارب آئیں اور فدیہ کی بات کی جائے لیکن ان میں سے کوئی نہ آیا تو آپ نے سب کو احساناً چھوڑ دیا کہ یہی قرآن کا حکم تھا۔

چودہ سو سال قبل سیرتِ النبی ﷺ کا یہ درخشاں واقعہ پڑھنے کے بعد دل میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ وہ مالِ غنیمت جسے سرکارِ دو عالم ﷺ نے بھیڑ بکریاں کہہ کر دنیاوی محبت کی علامت بنایا تھا وہ اب بھی ہماری زندگیوں پر اپنا تسلط جمائے ہوئے ہے ۔ سرکارِ دو عالم ﷺ کی وہ خالص اور سچی محبت جس کے سامنے دنیاوی مال و متاع کی حیثیت ثانوی ہو جا نی چائیے ہماری زندگیوں سے ناپید ہو تی جا رہی ہے۔ ہم بھیڑ بکریوں کو جمع کرنے کےلئے سرکارِ دو عالم ﷺ کی محبت سے دور ہو تے جا رہے ہیں اور اس پر شرمسار بھی نہیں ہوتے۔ زبان سے محبت کے دعوے بے شمار کرتے ہیں لیکن عمل کی میزان میں ان کا کوئی وزن نہیں ہے کیونکہ یہ سب خالی جمع خرچ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے دولت کو اپنا الہ بنا کر اس کی پرستش شروع کر رکھی ہے۔ ہم ما ل و دولت اور لا ل و زرو جواہر کو جمع کرنے میں اتنے مگن ہیں کہ ہم نے کبھی یہ سوچنے کی ز حمت بھی گوارہ نہیں کی کہ سرکارِ دو عالم ﷺ کی محبت ہم سے کس بات کا تقاضا کر رہی ہے۔ہم بھیڑ بکریاں اکٹھی کرنے میں لگے ہو ئے ہیں اور اس محبت کو جو دین و دنیا کی فلاح اور سرخروئی کی کلید ہے اسے فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ اسی لئے تو اقبال نے کہا تھا زبان سے کہہ بھی دیا لا ا لہ تو کیا حاصل۔دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ باعثِ عبرت ہے کہ ہم آج بھی خالی دعوؤں پر زندگی کی ساعتیں گزارتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں احساس تک نہیں کہ روزِ حساب سرکار کی محبت ہی ہماری نجات کا ذریعہ ہو گی یہ بھیڑ بکر یوں کے ریوڑ تو اسی فانی دنیا میں رہ جائیں گئے اور وہاں سرکارِ سرکارِ دو عالم ﷺ کی محبت ہی ہمارا حقیقی سرمایہ ہوگی جس کے حصول کےلئے ہم تساہل سے کام لے رہے ہیں۔

مقامِ فکر ہے کہ جس شہ کی حیثیت بالکل ثانوی ہے اسے ہم نے مقصدِ حیات بنا رکھا ہے اور وہ چیز جو ایمان کا درجہ رکھتی ہے اسے ہم نے ثا نوی حیثیت دے رکھی ہے۔ بھیڑ بکریوں کے طمع میں ہم نے دین و دنیا اور آخرت کو داﺅ پر لگا دیا ہے لیکن پھر بھی ہماری آنکھیں نہیں کھل رہیں اور ہم اندھا دھند اس کنو یں میں گرنے کے لئے تیزی سے بڑھتے جا رے ہیں جس میں ہماری ہلاکت اور بربادی یقینی ہے۔اقبا ل نے عشقِ رسول ﷺ کی عظمتوں کے بارے میں اپنی عمر کے آخری ایام میں ایک انتہائی پر اثر رباعی لکھی تھی اور اس رباعی کے بارے میں اہلِ علم اور اہلِ عشق لوگوں کی متفقہ رائے ہے کہ عشقِ رسول میں اس رباعی سے بہتر رباعی نہیں لکھی گئی ۔یہ رباعی بھیڑ بکریوں کی جگہ اس عشق کا جوہر کھولتی ہے جو ہر مسلمان کا مطمع نظر ہو نا چائیے تاکہ ہماری زندگیوں میں ایسا نقلاب آسکے جس سے یہ دنیا جنت نظیر بن جائے۔ افسوس ہم نے عشق کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا ہے اور دولت کی طمع اور لالچ کو حدود نا آشنا کر دیا ہے۔بے حدو حساب دولت اس محبت پر غا لب آتی جا رہی ہے جو ہر مسلمان کا مطمع نظر ہو نا چائیے ۔رباعی کو پڑھئے اور وجد میں آجا ئیے کہ اس میں عشق کے ایک ایسے افق کی بات کی گئی ہے کہ اگر اس کی ہلکی سی جھلک بھی ہماری زندگیوں میں موجود ہو جائے تو پھر یہ جہاں ایک ایسے جہاں میں بدل جائے جس میں محبت، اخوت ، انصاف، بھائی چارے اور احترامِ انسانیت کے اعلی ا و ارفع جذبات ہوں،جس میں ہر سو محبت کے زمزمے بہہ رہے ہوں اور جس پر انسانیت فخرو ناز کر رہی ہو۔۔۔۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر۔۔روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو می بینی حسابم نا گزیر۔۔۔از نگاہِ مصطفے پنہاں بگیر
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515665 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.