کوئی کچھ بھی کہے ، سچ مگر یہ ہے
کہ بڑے بڑے بزرجمہر اور افلاطونی لکھاری اکثر خاک چاٹتے اور منہ کی کھاتے
نظر آتے ہیں۔وجہ شاید یہ کہ ہماری دُنیا ئے سیاست کُل عالم سے ”ذرا ہٹ کے “
ہے ۔لکھاری حضرات سیاسی اخلاقیات ، خودی ، خود داری اور غیرت و حمیّت کو مدِّ
نظر رکھ کر تجزیہ کرتے ہیں جب کہ ہمارے سیاست دانوں کی موجودہ کھیپ کا ان
”فضولیات “ سے دور کا رشتہ بھی نہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔ ” وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں
گے ، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں “ ۔۔۔۔۔۔ کے مصداق نہ لکھاری اپنی قطعی اور
الہامی تجزیہ نگاری سے باز آتے ہیں اور نہ وہ اُن کی درگت بنانے سے ۔ میں
کئی ایسے معتبر لکھاریوں کو جانتی ہوں جو PPP حکومت کے خاتمے کی تاریخ پہ
تاریخ دیتے چلے گئے ، حتٰی کہ کچھ ”بزرگوں “ نے تو شرطیں بھی باندھ رکھی
تھیں لیکن نہ ”تخت نشیں“ کا کچھ بگڑا نہ ’گدی نشیں“ کا ، البتہ انہوں نے
قوم کو 8500 ارب کا ٹیکہ لگا کر بڑے رسان سے کہہ دیا کہ اب نہ اندر جا رہے
ہیں نہ باہر اور نہ ہی اوپر ۔۔۔۔ گویا کہ کر لو جو کرنا ہے ۔۔۔۔ اندر اور
باہر بھیجنے کا فریضہ تو خیر ہم نے فوج کے سپرد کر رکھا ہے جسے آج کل ایسے
”فضول “ کاموں میں ہاتھ ڈالنے کی فرصت نہیں ویسے بھی پڑھے لکھے فلاسفر ٹائپ
جنرل کیانی صاحب کسی بھی کام میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ”گہرے مراقبے“ میں چلے
جاتے ہیں اس لئے ان سے کوئی توقع عبث ہے ۔فوج سے مایوس لکھاریوں کی امید
بھری نظریں اعلیٰ عدلیہ پر اٹھتی رہیں لیکن ان کی لمبی لمبی تاریخوں نے بھی
طبیعت ”آوازار“ کر دی ۔ جب کچھ بن نہ پڑا تو سارا غصہ نکل گیا بیچاری ”نواز
لیگ“ پر۔ اب ہر کوئی یہ کہتا پھرتا ہے کہ صرف نواز لیگ ہی حکومت کو ”ٹف
ٹائم“ دے سکتی تھی لیکن ”بڑے بھائی“ نے ”چھوٹے بھائی“ کی ایک نہ سنتے ہوئے
”منہ بولے بھائی“ کو ہمیشہ بحرانوں سے نکالا اور جب کبھی کسی ”نویدِ خوش
کُن“ کی اُمید بندھی تو وہ خم ٹھونک کر میدان میں اترے اور تخت نشینوں کو
صاف بچا لے گئے پھر بھی یہ دعویٰ کہ ”فرینڈلی اپوزیشن“ نہیں ؟۔ خیر چھوڑیئے
اس اندر باہر کے فسانے کو ۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ آخر ”گدی نشینوں“ کی
پہنچ کہاں تک ہے کہ انہوں نے پوری قطعیت سے ”اوپر“ نہ جانے کا دعویٰ بھی کر
دیا ؟۔ کیا انہوں نے (نعوذ با اللہ ) اللہ میاں سے بھی کوئی معاہدہ کر لیا
ہے ؟ یا پھر وہ رعونیت کے اس مقام تک جا پہنچے ہیں جس تک معلوم تاریخ کے
کئی لوگ پہنچے اور نشانِ عبرت بنا دئیے گئے ۔ محترم گیلانی صاحب کو ہمیشہ
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غرور و تکبر صرف ربِّ ذوالجلال کے لئے ہے اور جب کسی
فانی انسان نے ایسا دعویٰ کیا تو وہ نابود کر دیا گیا ۔ انہوں نے 630 ملین
روپئے تقسیم کرکے بیسویں ترمیم منظور کروائی اور یہ کوئی ایسا کارنامہ تو
نہیں تھا جس پر اتنا تکبر کیا جاتا ۔ انہیں یہ بھی مدِّ مظر رکھنا ہو گا کہ
بھوکوں مری قوم کو ان ترمیموں شرمیموں سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ انہیں تو
زندہ رہنے کے لئے ”نانِ جویں“ کی ضرورت ہے جو تا حال ان سے کوسوں دور ہے ۔
انہیں یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ وہ زمانہ لد گیا جب شاعر لوگ کہا کرتے تھے
کہ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
آج آنکھوں دیکھا لبوں پر بھی آتا ہے اور حضرتِ انسان اس حیرت کدے سے باہر
بھی آ گیا ہے ۔ سامنے کی بات ہے کہ محترم عمران خاں تبدیلی کا نعرہ لگا کر
میدان میں اترے تو خلقِ خُدا کا جمِ غفیر ساتھ ہو لیا لیکن جب دیکھتی
آنکھوں نے وہی بوسیدہ چہرے خاں صاحب کے دائیں بائیں دیکھے تو بیزاری کا
اظہار کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی ۔ شاہ محمود قریشی کو اپنے حلقہ انتخاب
کا بڑا زعم تھا لیکن انہی کے حلقے سے PPP کے علی موسیٰ گیلانی نے لگ بھگ
ایک لاکھ ووٹ لے کر شاہ صاحب کو یہ پیغام دے دیا کہ لوگ شاہ محمود قریشی کو
نہیں ، PPP کو ووٹ دیا کرتے تھے ۔ یہی حال جاوید ہاشمی کے انتخابی حلقے کا
ہوا جہاں سے نواز لیگ نے واضح کامیابی سمیٹی ۔ شنید ہے کہ اب شاہ محمود
قریشی سمیت کئی معتبر نام ایک بار پھر اُڑان بھرنے کو تیار ہیں ۔ شاید اسی
بنا پر کپتان کے قصیدہ گو بزرگ لکھاری کے کالموں میں وہ رعونت نظر نہیں آتی
جو کچھ عرصہ پہلے تک تھی ۔ ان کا جارحانہ انداز اب مصلحانہ روپ دھارنے لگا
ہے ۔
معزز قارئین ! کچھ نا گزیر ذاتی مصروفیات نے ذہنی طور پر اتنا تھکا دیا تھا
کہ شاید مزید چند روز کالم لکھنے سے گریز کرتی لیکن کالم لکھنے کی اچانک
تحریک ”وحیدہ شاہ“ کیس کے فیصلے کی وجہ سے ہوئی ۔ جب میں نے ایک سہمی ہوئی
ہرنی کو دھاڑتی ، چنگھاڑتی شیرنی کے قبضہ استبداد میں دیکھا تو سر شرم سے
جھُک گیا اور روح تک اس لئے گھائل ہو گئی کہ میں بھی ایک عورت ہوں اُس عورت
کے وحشیانہ پن اور قانون کے رکھوالے دو (۲) سہمے ہوئے گیدڑوں کو دیکھ کر
میں نے طے کر لیا کہ اب کبھی قلم نہیں اٹھاؤں گی کہ مجھے قلم کی بے حرمتی
اور الفاظ کی بے توقیری ہر گز قبول نہیں لیکن کل الیکشن کمیشن کے دل خوش کن
فیصلے نے حوصلہ بخشا ۔ البتہ ایک بات بہر حال غور طلب ہے کہ محترم آصف
زرداری کے مسلط کردہ سندھی چیف الیکشن کمشنر اور سندھ ہی کے صوبائی الیکشن
کمشنر نے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا اور یوں یہ فیصلہ اکثریتی بن گیا جسے
بہرحال متفقہ ہونا چاہیے تھا ۔ آخر یہ دو سندھی اصحاب پنجاب ، خیبر
پختونخواہ اور بلوچستان کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔ |