پاکستان آرمی نے اپنی سرحدوں کے
علاوہ بلاشبہ دہشت گردوں کا بہت ہی کامیابی سے قلع قمع کیا ہے اور تاحال اس
ذمہ داری کو بہت ہی احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں مگر مشرف دور میں
بگٹی کی موت دراصل پاکستانی تاریخ میں ایک سانحے کے طور پر یاد رکھا جائے
گا۔فی الحال ہماری حکومت کو بلوچستان پر بہت زیادہ فوکس کی ضرورت ہے اور
بالخصوص بلوچستان کے تما م چھوٹے بڑے مسائل کو حل کرنے میں حکومت اپوزیشن
کو قومی یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
تما م ناراض بلوچ لیڈروں اور بلوچی عوام کے مورال کو ہائی کرنے کی سخت
ضرورت ہے۔پاکستان بننے کے بعد جب بنگلہ دیش کی صورت یک لخت ہوا تب سے لیکر
اب تک پاکستان دشمن عناصرپاکستان کا مذاق اڑانے کے علاوہ پاکستان کو
مزیدٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازشیں تیار کرنے میں لگاتار مصروف ہیں۔قائداعظم
محمد علی جناح اور ان کے رفقاء نے یہ ملک اسلام اور اسلامی روایات کی پرورش
کے لئے بنایا تھا لیکن ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ اس ملک میں غیرمذہب قوتیں اور
غیر ملکی سامراج نہ صرف اپنی من مرضی کر رہے ہیں بلکہ وہ بلوچستان جیسے اہم
مسئلے کو اپنے ایوانوں میں ”ڈسکس“ کرنے لگے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو یہ ہماری
حکومت اور ہمارے فیصلوں کے سرا سر فیل ہونے کی واضح دلیل ہے بلکہ یوں کہیں
کہ چراغ تلے اندھیرا ہے۔
بلوچستان میں قومی منافرت جیسے بہت سے مسائل ہیں وہاں آپس میں علاقائی نفرت
پھیلانے کے لئے ملک دشمن عناصر لوگوں کے سر تن سے جدا کے پھینک دیتے
ہیں۔کبھی موٹر سائیکل سواروں سے فائرنگ کروا دیتے ہیں،کبھی بس یا کار میں
سوار افراد کو اغواءکروا لیتے ہیں،کبھی بم دھماکہ کروا دیتے ہیں اور کبھی
کوئی دہشت گردی کی واردات کروا دیتے ہیں۔کچھ عرصے سے وہاں انسانی سمگلنگ
جیسے مذموم کام کروانے والے عناصر بھی سرگرم ہیں۔یہ سمگلر وہاں سے لوگوں کو
انسانی سمگلنگ کی صورت میں نہ صرف سرحد پار کرواتے ہیں بلکہ دوسری طرف سے
بھی انسانوں کو سمگل کرکے یہاں لے آتے ہیں۔ سینکڑوں افغان باشندے ہر سال
چمن سرحد کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد کوئٹہ سے مختلف انسانی
سمگلروں کے ذریعے ایران جانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں اکثر یا تو راستے میں
پکڑے جاتے ہیں یا پھر ایرانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد
انہیں واپس پاکستان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال
پانچ سے دس ہزار نوجوان پاکستان سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی
کوشش کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ انسانی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں کو دس
سے پندرہ لاکھ روپے بھی دیتے ہیں۔ سرحد پار کرنے والے زیادہ تر ایران، ترکی
اور دیگر یورپی ممالک میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں یا پھر
انہیں گرفتار کر کے واپس پاکستان بھیج دیا جاتا ہے۔2009 میں کوئٹہ کے قریب
ہزار گنجی کے مقام پرانسانی سمگلنگ کا ایک افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا
تھا جب ایک ایجنٹ نے چمن شہر میں 60 کے قریب افغان باشندوں کو ایک کنٹینر
میں بند کر کے کوئٹہ روانہ کر دیا لیکن راستے میں کنٹینرکا ائیرکنڈیشن خراب
ہونے کے باعث 40 افغان باشندے راستے میں دم گھٹنے کے نتیجے میں ہلا ک ہوگئے
۔اس حادثے کے بعد اگرچہ پاک افغان حکام تھوڑے چوکنے ہوگئے لیکن سمگلر اپنی
کاروائیوں کو تاحال چلا رہے ہیں۔
اسی طرح کی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گجرات اور کھاریاں سے لیکر
جہلم تک کے علاقے سے بڑی تعداد میں لوگ بیرون ملک جاتے ہیں اور ان علاقوں
کی نگرانی کے لیے خفیہ انٹیلی جنس یونٹ قائم کیے جارہے ہیں۔اس وقت صرف ترکی
کی مختلف جیلوں میں سات ہزار کے قریب ایسے پاکستانی مقید ہیں جنہوں نے
یونان جانے کی خواہش میں غیر قانونی طور پر ترکی کی سرحد عبور کرلی
تھی۔پاکستان سے سمگل کئے جانے والوں سے اور یہاں سمگل ہو کر آنے والوں سے
یہی سمگلر ہمارے ملک بالخصوص بلوچستان میں ملک دشمن کاروائیاں کرواتے
ہیں۔اگر یہی منفی سرگرمیاں جاری رہیں تو ایک نہ ایک دن ہمارے ملک کے لئے
خدانخواستہ یہ لوگ بہت بڑی بدنامی اور ناکامی کا باعث بن سکتے ہیں۔
بلوچستان جو کہ پاکستان میں گیس کے علاوہ کئی اہم معدنیا ت کے علاوہ
جغرافیائی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اس میں خوشحالی و امن لانے کے
لئے ہم سب کو تن دھن سے مثبت کوششیں کرنی ہونگی۔ سردیوں میں جب کوئٹہ کے
لوگ منفی درجہ حرارت میں بغیر گیس کے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں تو ہم لوگ
یہاں پنڈی اسلام آباد میں ان کی گیس سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں،سیاستدانوں اور انتظامیہ کے علاوہ تما م ناراض اور راضی
بلوچی قیادت کو سر جوڑ کر اس اہم قومی ایشو کو حل کر نے کے لئے لازمی مل
بیٹھنا ہوگا۔بلوچستان کے ناراض نمائندے کینڈا، امریکہ، دبئی، ہندوستان اور
افغانستان سے پاکستان کے خلاف بیان بازی سے ہر گز باز آئے اور پاکستان میں
آکر اس ملک و ملت کے دکھ سکھ میں شریک ہو یہی وقت کا تقاضا ہے ورنہ تو ملک
دشمن اورسازشی عناصر اس ملک کوخدانخواستہ ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے خوابوں پرعمل
پیرا ہونے کو تیار ہیں۔ |