شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

تحقیق کہ چمن زارِ دہر میں خاموشی موت کے مترادف ہے اور جو قومیں راہِ عمل پر گامزن نہ ہوں وہ کبھی محبوبِ فطرت نہیں ٹھہر سکتیں کہ یہ اسی کا فرمان ہے ”اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے آپ کو نہیں بدلتی (الرّعد)“۔ لیکن ہمارے ہاں اجتماعی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم روا اور نا روا کی تفریق تک فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ آقا ﷺ نے تو برائی کو ہاتھ سے روکنے کا حکم دیا لیکن ہم اسے دل میں برا کہنے سے بھی ڈرتے ہیں ۔

ہم نے ہنستے مسکراتے ، بیگانوں کو اپناتے ، اپنوں کے لئے دامانِ الفت وا کرتے ، خوابوں کو حقیقتوں کے رنگ بخشتے ، اشکوں کو گلابی شفقتوں کی نرم و نازک پنکھڑیوں سے صاف کرتے ، روشنیوں کے شہر ، شہرِ قائد کو قبضہ گروپوں اور بھتہ خوروں کے سپرد کر دیا ۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں کھُلی آنکھوں سے اپنی عظمتوں کے تمحے نوچتے طاغوتی ہاتھوں کو دیکھا ۔ریمنڈ ڈیوس ، عافیہ صدیقی ، سانحہ ایبٹ آباد اور سانحہ سلالہ چیک پوسٹ کی شکل میں اپنی غیرتوں کے جنازے اٹھائے لیکن کبھی پیشانی عرقِ ندامت سے ترنہ ہوئی ۔ ہم نے محسنِ پاکستان کے ساتھ کیا کیا؟۔عظیم فرانسیسی کیمیا دان انتونی ولائزر انقلابِ فرانس کے بعد گرفتار ہوا ۔جج نے اسے سزائے موت کا حکم سنایا ۔جب اس کا سر قلم کیا جانے لگا تو اس کی بیوی نے جج کو مخاطب کرکے کہا ”اس سر کو قلم کرنے میں ایک لمحہ بھی نہ لگے گا لیکن ایسا سر دوبارہ پیدا کرنے میں صدیاں بیت جائیں گی “ ۔ جج اپنی کرسی سے اٹھا ، انتونی ولائزر کے پاس پہنچا ،معذرت کے ساتھ اس کی سزا معاف کی اور کمرہ عدالت سے باہر چلا گیا ۔ہم نے پہلے اپنے غیر ملکی آقاؤں کے حکم پر ڈاکٹر عبد القدیر خاں کو رسوا کرکے نظر بند کیا ، پھر (وکی لیکس کے مطابق) جنابِ آصف زرداری نے امریکہ کو محسنِ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔اور اب ۔۔۔۔ اب یہ ”زندہ قوم“ حکمرانوں کو 8500 ارب ڈکارتے اور ”مٹی پاؤ ٹائپ“ کمیشن بنتے دیکھ رہی ہے لیکن مجال ہے کہ اس کے کان پر جوں تک رینگی ہو ۔

ایک محترم بزرگ لکھاری فرماتے ہیں کہ ”میاں نواز شریف اور جنابِ زرداری کیا ۔قومیں جب عزم اور ولولے کے ساتھ اٹھی ہیں تو نمرود و فرعون ہار گئے ہیں “۔ عرض ہے کہ نمرود و فرعون اللہ کے محبوب بندوں ، حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی بنا پر قہرِ خُدا وندی کا شکار ہوئے قوموں کے عزم و ولولے کی بنا پر نہیں ۔ لیکن آپ جس شخص میں ”پیغمبرانہ شان “ دیکھ رہے ہیں وہ محض ایک انسان ہے،عام انسان۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ میاں نواز شریف نے تو اپنی تمام تر شخصی اور سیاسی خامیوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کا سر فخر سے بلند کر دیا لیکن آپ کے کپتان کے دامن میں کیا ہے ؟۔ایک ورلڈ کپ ؟ جس میں کپتانی سے کہیں زیادہ قوم کی دعاؤں کا دخل تھا اگر آخری میچ میں مضبوط ویسٹ انڈیز غیر متوقع طور پر کمزور آسٹریلیا سے نہ ہارتا تو پاکستان سیمی فائنل میں بھی نہ پہنچ پاتا ۔۔۔۔ یا پھر ”شوکت خانم “ اور ”نمل یونیورسٹی“ ؟۔ تسلیم کہ یہ خاں صاحب کے قابلِ ستائش کارنامے ہیں لیکن دنیا کی تاریخ تو ایسے مخیر حضرات سے بھری پڑی ہے جنہوں نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر اس سے کہیں عظیم کارنامے سر انجام دیئے لیکن صلہ مانگا نہ ستائش ۔ آقا ﷺ کا تو فرمان ہے کہ مدد ایسے کرو کہ اگر دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو خبر تک نہ ہو لیکن ایک آپ ہیں کہ جگہ جگہ ڈنڈھورا پیٹتے پھرتے ہیں ۔اگر ایک لمحے کے لئے ”وزارتِ عظمیٰ کا یہی معیار تصور کر لیا جائے تو پھر انتہائی محترم عبد الستار ایدھی کو صدر اور ان کے بیٹے کو وزیرِ اعظم بنا دینا چاہیے کہ عمران خاں دس جنم لے کر بھی محترم ایدھی کی گردِ پا کو نہیں پہنچ سکتے

انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ صحافت ، عبادت ہی نہیں سیادت بھی ہے بشرطیکہ مداحی اور مداہنت سے پاک ہوکسی بھی شخص یا سیاسی جماعت سے نظریاتی وابستگی فطری امر ہے لیکن اس وابستگی کی آڑ میں کاسہ لیسی حرمتِ قلم کی پامالی کے مترادف ہے ۔ آقاﷺ کا فرمان ہے ”اندھا وہ نہیں جو بصارت سے محروم ہے بلکہ اندھا وہ جو بصیرت سے محروم ہے “ جب کہ ہمارے اس بزرگ صاحبِ بصارت و بصیرت کا یہ عالم ہے کہ کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھنے کے باوجود اپنے ممدوح پر تنقید کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔انہیں سوائے عمران خاں کے کچھ نظر ہی نہیں آتا ۔وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر شدید ترین ردِ عمل کا خوف نہ ہو تو وہ خان صاحب کو قا ئدِ اعظم سے بھی بڑا لیڈر قرار دے دیں ۔وہ فرماتے ہیں ”سب اندازے ، سب سروے ، سارا پروپیگنڈا دھرا رہ جائے گا اور کپتان قائدِ اعظم ؓ کی طرح خیرہ کن کامیابیاں حاصل کرے گا ۔“ یہ تو خیر تبھی پتہ چلے گا جب کپتان صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ میدان میں اتریں گے لیکن محترم لکھاری کی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ موصوف 2009 سے PPP کی حکومت کے خاتمے کی تاریخ پہ تاریخ دیتے اور شرطیں باندھتے چلے آ رہے ہیں لیکن حکومت بھی سلامت اور زرداری و گیلانی بھی قائم و دائم ۔موصوف فرماتے ہیں کہ ”ایک ٹی ۔وی اینکر، نواز لیگ میں شامل ہونے والی تیز و طرار لیڈر اور ایک معروف انگریزی تجزیہ نگار ذاتی رنجشوں کی بنا پر عمران خاں کے خلاف ہیں ۔“ عرض ہے کہ خاتون اینکر کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے تحریکِ انصاف کے سابقہ سیکرٹری اطلاعات عمر چیمہ سے یہ پوچھنے کی جسارت کر ڈالی کہ جب سوائے ڈی۔جی۔آئی ایس آئی کے تیز ترین میڈیا سمیت سارا پاکستان بے خبر تھا کہ میمو سکینڈل میں حسین حقانی بھی ملوث ہے تو پھر خاں صاحب نے مینارِ پاکستان کے جلسے میں حسین حقانی کا نام کیسے اور کس کے کہنے پر لے دیا ؟۔عمر چیمہ بغلیں جھانکنے لگے اور ساری تحریکِ انصاف ہاتھ دھو کے خاتون اینکر کے پیچھے پڑ گئی ۔” تیز و طرار لیڈر“ نے الیکٹرونک میڈیا پر عمران خاں کا دستخط شدہ ”آفر لیٹر “ دکھا دیا اس لئے معتوب ٹھہری ۔ رہی انگریزی تجزیہ نگار کی تحریک میں شمولیت میں بے تابی کی بات تو خاں صاحب تو بلا امتیاز ہر کسی کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ انگریزی تجزیہ نگار کو انکار کر دیتے ۔ یہ تو بزرگ لکھاری جانتے ہی ہوں گے کہ ضیاء سے زرداری تک مختلف سیاسی پارٹیوں کے مزے لوٹنے والے شاہ محمود قریشی نے پہلے سینئر وائس چیئر مین کا عہدہ لیا اور پھر تحریک میں شمولیت اختیار کی اور یہی کچھ بھنورا صفت سیکرٹری اطلاعات نے بھی کیا ۔ ویسے یہ عجب نظارہ بھی چشمِ فلک نے پہلی بار دیکھا ہو گا کہ انقلاب کا دعویدار ایک لیڈر کسی دوسرے کے جلسے میں جا کر اس سے اپنی پارٹی میں شمولیت کی بھیک مانگے ۔

موصوف فرماتے ہیں ” کپتان کبھی جھوٹ نہیں بولتا “ ۔ انٹر نیٹ پر تو خیر خاں صاحب کے بارے میں جھوٹ سچ بہت کچھ مل جاتا ہے لیکن اس سے قطع نظر خود خاں صاحب نے اپنے اثاثے ڈکلیئر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ انہوں نے محترمہ جمائمہ خاں سے کچھ رقم ادھار لے کر لندن کا فلیٹ خریدا اور طلاق کے بعد جمائمہ خاں نے انہیں ایک ” فلیٹ “ گفٹ کیا ۔اسی دن جمائمہ خاں نے نیٹ پر یہ پیغام چھوڑا کہ انہوں نے نہ کبھی خاں صاحب کو ادھار دیا اور نہ ہی کوئی فلیٹ گفٹ کیا ۔موصوف جانتے ہوں گے کہ خاں صاحب کا یہ نعرہ تھا کہ ”تحریکِ انصاف آزمائے ہوؤں کو دوبارہ نہیں آزمائے گی “ ۔ کیا انہوں نے ایسا ہی کیا ؟ ۔ خاں صاحب نے فرمایا کہ ٹکٹ ہولڈرز کی غالب اکثریت پاک دامن لوگوں پر مشتمل ہو گی لیکن سبھی نہیں ۔ پھر فرمایا کہ آسمان سے فرشتے کہاں سے لاؤں ، انہی پر گزارہ کرنا ہو گا ۔ اور آج کل فرما رہے ہیں کہ لیڈر اچھا ہو تو برے بھی اچھے بن جاتے ہیں ۔ کیا محترم تجزیہ نگار قوم کو یہ بنلانے کی زحمت فرمائیں گے کہ قوم خاں صاحب کے کس بیان پر اعتبار کرے ؟۔ ۔۔۔۔ باتیں تو بہت ہیں لیکن محترم لکھاری کے حضور فقط اتنی استدعا ہے کہ اس راندہ و درماندہ قوم پر رحم فرماتے ہوئے انسان کو انسان ہی رہنے دیں ، بھگوان نہ بنائیں ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 868 Articles with 564661 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More