ہم جناب گیلانی صاحب کو سلام پیش کرتے ہیں
جو پاکستان کی تاریخ کی بہادر ترین شخصیت کا روپ دھار رہے ہیں۔ اس سے پہلے
بھی بہت سے لوگ توہین عدالت کے مرتکب ہو چکے ہیں اور بہت سے لوگوں نے
عدالتی احکامات کی نہ صرف حکم عدولی کی ہے بلکہ دھجیاں بکھیر کر رکھی دی
ہونگی۔ مگر کسی نے بھی آج تک سرعام اور یوں اتنی دیدہ دلیری اور سرکشی سے
نہ عدالت کی حکم عدولی کی ہوگی اور نہ اپنے آپ کو عدالت کا ما تحت نہ ہونے
کا دعوی کیا ہوگا۔ گیلانی صاحب عدالت کو بار بار کہ رہے ہیں کہ میں عدالت
کا ماتحت نہیں ہوں، عدالت کا حکم نہیں مانتا ، چپڑاسی نہیں ہوں ، عدالت کو
جواب دہ نہیں ، پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوں اور اس طرح کے بہت سے بیانات دیئے
جارہے ہیں۔ میں ان سے چند سوالات کے جوابات چاہتا ہوں اگر دے سکیں تو:
١۔ کیا پارلیمنٹ اس قابل ہے کہ ان سے کسی قسم کی بازہرس کرے؟
٢۔ عدالت کو حکم نہ مانیں مگر جو وہ کہہ رہے ہیں کہ آئین ملک کا بالا ترین
قانون ہے اس کے ما تحت ہوں اور اس پر عمل کروں گا۔ کیا آئین پر عمل کریں گے۔
٣۔ کیا آئین میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ عدالت کی طرف سے سزا یافتہ ملک کا صدر،
وزیر اعظم اور وزیر مقرر نہیں ہو سکتا؟( سزا یافتہ)
٤۔ کیا صدر صاحب سزا یافتہ نہیں ہیں اور اور کیا انہوں نے ایک لمبا عرصہ
جیل میں نہیں گزارا۔
٥۔ کیا آپ اپنے آپ کو عوام کا جوابدہ سمجھتے ہیں اور آپ اپنےکو عوام کا
نمائندہ کہتے ہیں تو کیا آج تک عوام کے لئے کچھ کام کیا ہے میرا مطلب عوام
ہے، عوام کے نمائندےنہیں۔
ہزاروں اور سوال ہیں لیکن صرف ایک اور سب سے اہم اور بنیادی سوال:
کہ چلو وہ نہ عدالت کو، نہ عوام کو ، نہ پارلیمنٹ کو اور نہ کسی شخص یا
ادارے کو جواب دہ ہیں صرف یہ بتا دیں کہ کیا عزت ماب جانب وزیر اعظم گیلانی
صاحب خود کو اللہ تعالٰی کے جواب دہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں سے بھی استثنی
حاصل کی ہوئی ہے۔
جس طرح پاکستان میں صدر صاحب کے بارے کہا جا رہا ہے کہ انہیں ہر قسم کی
استثنی حاصل ہے اس طرح تو وہ جو مرضی آئے کرتے رہیں ان کو کوئی نہیں پوچھ
سکتا چاہے ملک کو اپنی ذاتی جاگیر کی طرح بیچ بھی دیں اور ملک کی عوام کو
ذاتی غلام سمجھ کر جسے چاہے اور جس قیمت پر چاہے بیچ دے۔ حالانکہ اسلام میں
کئی مثالیں ہیں کہ اسلامی حکمرانوں نے خود کو عدالت میں عام آدمی کی طرح
خود کو پیش کیا۔ بات آگے نکل گئی اس وقت اتنا ہی کافی ہے باقی پھر کبھی۔
وزیر اعظم کی طرف سے کوئی جوابات دینا چاہے تو مجھے خوشی ہو گی۔ |