یسوح مسیح اوبامہ اور پاکستان

امریکی صدر اوبامہ نے اپنے تازہ ترین اور غم الود بیان پر مرثیہ خوانی کی ہے کہ قران پاک جلانے کے واقعات کے بعد قرائن سے ثابت ہوچکا کہ اب امریکی فورسز کو افغانستان سے واپس بلایا جائے تاہم ہم یہ یقین کرلینا چاہتے ہیں القاعدہ مستقبل میں فعال تونہیں ہوگی۔ اوبامہ نے ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا۔ امریکی فورسز نے افغانستان میں اپنی جانیں قربان کرکے ایک طرف شدت پسندوں کی حکومت کو ڈھیر کیا اور دوسری طرف انتہاپسندی میں ڈوبے ہوئے خطہ افغاں میں جمہوریت کے احیا کو یقینی بنایا۔ اوبامہ امریکہ کے صدر ہیں وہ اپنی استعماری فورسز کو چاہے دسیوں مرتبہ تعریف و توصیف کے گن گاتے رہیں وہ کہہ سکتے ہیں مگر ایک سچ تو یہ بھی ہے کہ امریکی فوجیوں نے افغانستان کے طول و عرض میں استبدادیت اور سفاکیت کے وہ جواہر دکھائے کہ انسانیت تک شرما گئی۔ امریکہ اور یورپی یونین نے صہیونیت کے پرچار مغربی زرائع و ابلاغ میں پروپگنڈہ وار سے پاکستان اور امت مسلمہ پر دہشت گردی کے پے درپے ایسے الزامات تھوپے کہ عالمی سطح پر یہ تاثر ا بھرا کہ پاکستان دہشت گردوں قاتلوں اور فرقہ واریت کے مبلغین کے لئے جنت کا درجہ رکھتا ہے مگر دوسری جانب انسانی حقوق کی نام نہاد اور خود ساختہ سپر پاور امریکی ریاست کے سماج کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہونا چاہے۔ امریکہ میں گوروں اور کالوں کے مابین لسانیت اور فرقہ واریت عروج پر ہے۔دونوں نے اپنے گینگ بنارکھے ہیں جس میں جدید اسلحہ سے لیس ملیشیا شامل ہے۔گورے آج بھی برتر ہونے کا احساس تفاخر رکھتے ہیں۔ گورے اپنے عقائد میں متشدد ہیں۔ امریکی عدالت نے سفید فاموں کی ملک گیر متعصب جماعت کو کیان پر پابندی عائد کردی ہے مگر انکے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ کولوراڈو میں انکے لگ بھگ درجن کینگ پوری طرح فعال ہیں۔ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں سفید فام اپنے آپکو برتر مخلوق سمجھتے ہیں انہی ریاستوں میں چرچ سیاہ فاموں کو روح سے عاری خلائی مخلوق کے فتوے جاری کئے ہیں۔جنوبی ریاستیں لسانیت کا آئینہ دار ہیں جو یونین کی بجائے فیڈریشن کی حمایت پر کمر بستہ رہیں۔امریکہ کی سول وار میں سیاہ فاموں کو غلام سمجھنے والوں کو شکست ہوئی مگر رسی تو جل گئی مگر اس کابل وہیں ہے۔ متعصبانہ و متشدد نظریات کے حامی سفید فام فوجی وردی بندوق کو طاقت کا منبع سمجھتے ہیں اور انکی اولین ترجیح فوج میں شامل ہو کر محاز جنگ پر اپنا جوہر دکھانے کی خواہش پر مشتمل ہوتی ہے۔ سفید فام دہشت گرد میک وے سابق فوجی تھا جس نے اوکلوہاما میں تباہ کن دھماکوں میں قیامت صغری بپا کی تھی۔2011 کے آخری عشرے میں مارٹن کنگ لوتھر کی سالانہ میموریل تقریب کے سلسلے میں منعقدہ پریڈ میں بم نصب کرنے والہ امریکی فوجی تھا جسکے دماغ پر کالوں کو تہس نہس کردینے کا بھوت سوار تھا۔ امریکی فورسز میں اقلیتی فوجیوں کی تعداد نہ ہونے کے برار ہے۔ پولیس سے لیکر ایجنسیوں اور پینٹاگون سے لیکر سیکیورٹی فورسز میں ہر طرف سفید فام چھائے ہوئے ہیں۔ایک دور میں غلامی کے قہر سے بچنے کے لئے جوان فوجی کیمپوں میں پناہ لیا کرتے تھے۔ ویت نام کی جنگ میں سیاہ فاموں کو جبری طور پر فوج میں شامل کیا گیا۔ اکثر سیاہ فام انکاری ہوجاتے جنہیں سزا بھگتنی پڑتی۔1970 کی دہائی میں یہ سلسلہ تھم گیا۔ جبری بھرتی پر پاپندی عائد ہوئی تو فوج میں سیاہ فاموں کی شمولیت میں59 فیصد کمی واقع ہوئی۔دوہزار میں کالوں کی مجموعی تعداد42 ہزار تھی جو2005 میں17 ہزار ہوگئی۔ سیاہ فاموں کی اکثریت کے نزدیک عراق جنگ غیر منصفانہ اور ناپسنددیدہ ہے۔ عراق اور کابل میں جنگجووں کی ہیبت گورے فوجیوں پر ایسی دھاک بٹھائی کہ سفید فام فوجیوں کی تعداد میں سترہ فیصد کمی واقع ہوئی۔2005 میں امریکی منسٹر برائے دفاع رمز بیلڈ نے نوجوانوں کو فوج میں شمولیت کی طرف راغب کرنے کے لئے پرکشش پیکجز کی اشتہاری مہم چلائی مگر کسی نے رمز فیلڈ کے بے سرے گانوں پر کان نہ دھرے۔ امریکہ کے جنگی ماہر> نک ٹرسر <نے یکم اکتوبر 2006 کو واشنگٹن پوسٹ میں فوجی بھرتی اور رمز فیلڈ کے متعارف کردہ پیکج پر تبصرہ لکھا کہ جدید ترین سائنسی ٹیکنیکس سے مسلح اور دنیا کی۹ وسیع الحرکت اور سب سے بڑی فوجی قوت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے کیونکہ مطلوبہ تعداد کا10 فیصد ٹارگٹ حاصل نہ ہوسکا۔ مغرب کے ایک اور دفاعی تجزیہ نگار ڈیوڈ بون نے لکھا کہ ایک جوان کو فوج میں شمولیت اختیار کرنے کی خاطر اشتہاری مہم چلائی گئی جس پر 10ہزار ڈالر خرچ ہوئے۔فروری2004 میں فوج کے لئے نوجوانوںکاقحط الرجال تھا۔ تب پالیسی میکرزنے پانجولاں اور پابند سلاسل مجرموںکوفوج میں بھرتی کیا انکے کالے کرتوتوں کو نظر انداز کیا گیا۔امریکی محقق بالٹی مور نے لکھا کہ جیلوں میں بند ڈکیٹوں دہشت گردوں اور قاتلوں کو فوجی یونیفارم پہنایا تھوڑی بہت تربیت کے بعد عادی مجرمان بغداد و کابل میں امریکی فورسز کا جز و لانفیک بن گئے۔ جرائم کی دنیا کے بادشاہ قیدیوں کی شمولیت کے بعد فوجی بھرتی میں23 فیصد اضافہ ہوا۔شاگاسن کی رپورٹ کے مطابق امریکی فورسز کی54 فیصدتعداد ماضی میں سنگین جرائم سے کسی نہ کسی طرح ملوث رہی ہے۔ امریکی فوج میں اپنے گروہ کی پسندیدہ مونوگرام بازووں اور کمر پر گینگ ٹیٹوز بنوانے والوں پر پابندی تھی مگر یہ پابندی نظر انداز کی گئی۔ امریکی اخبارات نے قیدیوں قاتلوں اور دہشت گردوں کی فوج میں شمولیت پر بے باکانہ تبصرے شائع کئے۔ فوک نیشن گینگ مافیا ہے جو سربازار لوٹ مار مار دھاڑ میں شہرت رکھتا ہے۔نیویارک سن نے تو یہاں تک لکھ ڈالہ کہ امریکی فورسز پر فوک نیشن مافیا چھا چکا ہے سدرن پاورٹی لاسز پادری لائنز نے رپورٹ جاری کی کہ افرادی قوت کے شارٹ فال سے گنجے سفید فام بدمعاشوں نیو نازیوں کو فوج میں پہناہ مل گئی۔ نیو نازی جریدے میں مافیا اور گینگ ممبران کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پیدل فوج میں شامل ہوں کیونکہ غیر سفید فاموں کو مار بھگانے کی خاطر ایسا کرنا لازمی ہوگا۔ جس سماج میں چاہے وہ امریکہ ہو یا ارجنٹائن سفید فاموں اور کالوں کی جنگ ہو یا مسلم ممالک کی سیکیورٹی فورسز میں انسانیت سوزی کرنے والے فوجی درندے لشکر کا حصہ ہوں تو کم سن بچیوں کے ساتھ گینگ ریپ ہوتے رہیں گے عراق و کابل میں عوام کو خرگوشوں کی طرح کچلا جائیگا۔ مخالف اور قتل ہونے والے فوجیوں کی لاشوں پر گورے پیشاب کرتے رہیں گے۔ مسلمانوں کی دل ازاری کی خاطر قرانی کتب کو نذر آتش کیا جائے گا ابوغریب جیل میں انسانوں پر کتے چھوڑنے کی بربریت بھی جاری رہے گی۔ سفید فام امریکی اور یورپی فوجی بغض حسد کینہ پروری نفرت تعصب لسانیت فرقہ واریت تشدد فرعونیت اور قتل و غارت کا علمبردار ہیں۔ ایسے فوجیوں سے بھلائی اور خیر کی توقع کرنا بے عبث ہوگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا پہلا پتھر وہ اٹھائے جس کا دامن آلودہ نہ ہو اور اس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو۔ صدر اوبامہ مسلمانوں پر دہشت گردی کی طومار سے قبل وائٹ ہاؤس کے گریبان میں جھانک لیتے تو یہ نوشتہ دیوار انکا استقبال کرتا کہ امریکہ روئے ارض کا خطرناک ترین دہشت گرد ہے جس نے کائنات کے امن و امان کو تہہ بالہ کر رکھا ہے امریکی سفاکیت استعماریت کا خاتمہ کئے بغیر روئے ارض پر بھائی چارے رواداری باہمی ہم آہنگی دو طرفہ عقیدت و یگانگت کی خواہش رکھنا ہتھیلی پر سرسوں اگانے کے مترادف ہوگا۔
 
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140998 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.