کیاراجہ ا وررانا کی لڑائی زیب
دیتی ہے..؟؟
زبان شیرین مُلک گیری،زبان ٹیڑھی مُلک باَنکا....
کہا جاتاہے کہ حکمرانِ وقت دریاکی مانندہوتاہے جس کا پانی چھوٹی چھوٹی
ندیوں میں جاتاہے اگردریاکا پانی شیریں ہوتوندیوں کا پانی بھی شیریں
ہوگااور اگر دریاکاپانی تلخ ہوتو ندیوں کا پانی بھی تلخ ہوگاہمارے صدر
مملکت عزت مآب آصف علی زرداری کی مثال بھی ایسی ہی جو کسی کے لئے شریں ہیں
تو کسی کے لئے تلخ اور کچھ ایسے بھی ہیں جواِن کے شیریں اور تلخ کے ذائقے
کی تمیز کئے بغیر اِن کی ذات سے ہمیشہ بے حسی کا مظاہرہ کئے ہوئے ہیں اِن
میں سے ہم یہاں ایک ایک کا نام لے کر اُن کر ذکر تو نہیں کرسکتے ہاں
البتہ!اِس حوالے سے مثال کے طور پر شبہاز شریف کا تذکرہ کرتے ہوئے آگے
بڑھیں گے جنہوں نے صدرزرداری کے عہدہ صدارت کے بعد ہی سے اِن کے شیریں اور
تلخ کی حس سے بے نیازی برتے ہوئے اپنا ایسارویہ اپنائے رکھا کہ جو آج سب کے
سامنے ہے۔ہم شہباز شریف کی صدر زرداری سے متعلق متعدد بار مختلف مواقعوں پر
استعمال کی گئی زبان پرسوائے شبہاز شریف کی زبان و عقل پر افسوس کا
اظہارکرنے کے اور کچھ نہیں کرسکتے ہیں ۔
اوراِس کے ساتھ ہی اپنی اِسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہیں گے کہ ہمارے
یہاں ایک معقولہ بڑا مشہور ہے کہ ” زیادہ بولنے سے انسان کی عقل مفلوج
ہوجاتی ہے۔“ جس طرح گزشتہ دنوں پنجاب کے باتونی وزیراعلٰی(المعروف خادم ِاعلیٰ)
ٰشہباز شریف نے صدرمملکت عزت مآب جناب آصف علی زرداری سے متعلق جس قسم کی
زبان استعمال کی ہے (ہم اِسے صدر کے وقار کو اپنے قلم سے مجروح ہونے سے
بچانے کے لئے اِن سطور میں لکھ کر شہباز شریف کی صف میں کھڑاکرناہرگز نہیں
چاہیں گے کہ کہیں ہماراشمار بھی اِن سمیت اور دوسروں میں نہ ہونے لگے جو
برا ہ راست صدر مملکت آصف علی زرداری کی ذات اور اِن کی اعلیٰ فہم وفراست
سے لبریز شخصیت پر طرح طرح کے کیچڑ اُچھال کر اِن کا وقار مجروح کرتے رہتے
ہیں )جِسے سُننے کے بعد توہم واقعی اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بے شک مندرجہ
بالامعقولہ حقیقت سے قریب تر ہے یقین جانئے کہ اِس کے بعد ہمیں شہباز شریف
کی نہ صرف عقل بلکہ اِن کا دماغ بھی مفلوج لگنے لگاہے کچھ بھی ہے ہمارے
صدرمملکت آصف علی زرداری میں بقول اپوزیشن جماعتوں کے لاکھ برائیاں صحیح
مگرمسٹر شبہاز شریف کو صدرزرداری سے متعلق ایسی باتیں پبلک مقام پر نہیں
کرنی چاہئے تھی جس کی وجہ سے ہمارے بیچارے صدرمملکت کا وقار مجروح ہوا۔
جبکہ دوسری جانب اِس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف کے بھائی شہباز
شریف نے جو زبان صدر کے وقار کو مجروح کرنے کے لئے استعمال کی وہ صدرکا تو
کچھ نہ بگاڑسکی مگراِس موقع پر ہم اتنا ضرور یہ کہیں گے کہ ہماری نظر میں
شہباز شریف کا جو ایک اچھا اور قابلِ تعریف امیج کبھی قائم ہواکرتاتھا وہ
اَب ضرورختم ہو کر رہ گیاہے شہباز شریف کے صدر زرداری سے متعلق استعمال کی
گئی جارحانہ زبان درازی نے یہ ضرور ثابت کردیا ہے کہ شہباز شریف ایک
انتہائی جذباتی اور بغیر سوچے سمجھے بولنے والے اِنسان ہیں جو اپنے بھائی
نواز شریف کے بالکل برعکس ہیں ۔
شہباز شریف کی صدر زرداری سے متعلق استعمال کی جانے والی جارحانہ زبان
درازی کے بعد شاید ہی اِس حقیقت کو کوئی جھٹلاسکے کہ کوئی آئینہ انسان کی
اتنی حقیقی تصویر پیش نہیں کرسکتاہے جتنی اُس کی بات چیت ۔اوریہی وجہ ہے کہ
ازل سے ہی عقل مندوں کا یہ طریقہ رہاہے کہ وہ اپنی کامیابی کے لئے اِس بات
کو سب سے پہلے گراہ سے باندھے رکھتے ہیں کہ”سلامتی اِسی میں ہے کہ اپنی
زبان کو بندرکھو ایسے ہی جیسے جب تک مچھلی کا منہ بندرہتاہے وہ کانٹے کی
گرفت میں نہیں آتی“یعنی کہ آج شہباز شریف نے اپنے جذباتی پن اور جلد بازی
کی وجہ سے عقل مندوں کے اِس طریقے کار کو بالائے طاق رکھ کر خود کو وہ
مچھلی ثابت کردیاہے جو بغیر سمجھے کانٹے میں لگے آٹے کو کھانے کے لئے منہ
کھول کر اِس کی گرفت میں آجاتی ہے۔اور آج درحقیقت شہباز شریف ایک ایسی گرفت
میں آگئے ہیں جس کے اثرات آئندہ انتخابات میں اِن کی ذات اور اِن کی جماعت
کے گرتے ہوئے گراف کی صورت میں سامنے آئے گی ۔
ہمیں اِس موقع پر سسرو کا ایک قول یاد آگیاہے ہم چاہیں گے کہ اِسے بھی اپنے
قارئین کی خدمت میں پیش کرتے چلیں وہ کہتاہے کہ” عقل مندانسانوں کی
راہنمائی عقل،ذراکم عقل مندانسانوں کی راہنمائی تجربہ، عقلی طور پر
معذورانسانوں کی راہنمائی ضرورت اور وحشیوں کی راہنمائی قدرت کرتی ہے۔“اَب
سسروکے اِس قول کی روشنی میں مسٹرشہباز شریف اپنا احتساب کریں اور خود کو
جانیں کہ یہ کس خانے میں فٹ ہوتے ہیں بات یہیں ختم نہیں ہو گئی اِسے موقع
کے لئے اہلِ دانش کہتے ہیں کہ جیسے بینائی ختم ہوکر اندھے پن کوجنم دیتی ہے
،کہرافصلوں کو غارت کردیتاہے اور گُھن لکڑی کو کھاجاتاہے،اور اِسی طرح عجیب
وغریب خامیاں اور بُرائیاں انسانی روح کو تباہ کردیتی ہیں یہ خامیاں بے
انصافی، غیر معتدل مزاجی،بزدلی اور جہالت ہیں۔
شہباز شریف جو اپنی زبان درازی کے باعث بڑے مشہور ہیں اورملک کی ایک بڑی
سیاسی اور موجودہ حکومت میں حزبِ اختلاف کا ذرا سا لوز اور مبہم رول
اداکرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمدنواز شریف جو
ملک کے سابق وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اِن کے بھائی بھی ہیں شہباز شریف کو
اپناخیال ہونہ ہو مگر نوازشریف کے بھائی ہونے کے ناطے ہی کچھ نہیں تو شبہاز
شریف کواپنے بھائی کی ہی لاج رکھنی چاہئے تھی کہ وہ صدرزرداری سے متعلق
غلیظ زبان استعمال کرنے سے پہلے ایک سوباراور پھر ایک ہزار بار سوچتے کہ وہ
صدرِ مملکت عزت مآب آصف علی زرداری سے متعلق کیا کہنے والے ہیں یا کیاکہہ
رہے ہیں ...؟مگر شہباز شریف تو اپنے جذبات کے ہاتھوں مجبورہوکراپنے پاگل کی
وجہ سے جو کہناتھا وہ تو کہہ گئے۔اِس کی معافی صدرزرداری چاہیں تو دے سکتے
ہیں مگر اِن کے علاوہ اِن کے جیالوں میں اتنی سکت نہیں کہ یہ اپنی پارٹی کے
چیئرمین سے متعلق کہی جانے والی کسی کی باتیں برداشت کرسکیں۔
مگر شہباز شریف کی صدر زرداری سے متعلق زبان درازی کے جواب میں ایک مثال
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کی موجود ہے جنہوں نے صدر آصف
علی زرداری کی الفت اور محبت میں گرفتار ہوتے ہوئے جس طرح کی زبان استعمال
کرتے ہوئے کہاہے وہ بھی غلط اور انتہائی غلط ہے جِسے ہم جیسے کروڑوں
پاکستانی ہر حالت میں کنڈم کرتے ہیں راجہ ریاض نے کہا کہ ”وزیراعلیٰ پنجاب
شہباز شریف نے منتخب صدر آصف علی زرداری کے بارے میں اِنتہائی غلیظ زبان
استعمال کی ہے(جس ہر پاکستانی تائید کرتاہے کہ شہباز شریف کو ایسی زبان صدر
کے بارے میں استعمال نہیں کرنی چاہئے تھی) اِس پر میں مینٹل ہسپتال کی
انتظامیہ سے کہتاہوں کہ وہ فوری طور پر شہباز شریف کو اپنی تحویل میں لے
اور دوسرے مریضوں کو اِس سے محفوظ رکھنے کے لئے اِسے الگ تھلک رکھے اور اِس
کے ساتھ ہی جس طرح راجہ ریاض نے اپنے جذبات کوقابومیں نہ رکھتے ہوئے صدر سے
اپنی والہانہ محبت کا اظہار بھی کچھ نیم پاگل پن کی کیفیت میں اِس طرح
کرڈالاکہ ”لیکن میں اِس کے ساتھ یہ بھی واضح کردوں کہ آئندہ الیکشن میں جب
پیپلز پارٹی کی پنجاب میں حکومت بنے گی تومیرانام بھی راجہ ریاض نہیں اگر
میں نے شہباز شریف کو لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا، اِسے کھیسٹ کر ڈینگی،
جعلی ادویات اور جعلی پولیس مقابلوں اور غلط نتائج سے متاثرہوکرمرنے والوں
کے گھروں پر بھی لے جاؤں گا“ اِس پر ہم یہ کہیں گے کہ راناثناءاللہ نے بھی
راجہ ریاض کے جواب میں جس طرح کی زبان استعمال کی ہے وہ بھی غلط ہے اور کسی
ایسے عوامی نمائندے کو جس پر عوام نے اعتماد کا اظہارکیاہے اور اِس کو
اپنامسیحاجان کر اِس کے کاندھوں پر اپنے مسائل کے حل کی ذمہ داری ڈالی ہے و
ہ خواہ شہباز شریف ہوں یا راجہ ریاض اور راناثناءاللہ اِنہیں کسی کی ذاتیات
پر کیچڑاچھالناکچھ زیب نہیں دیتاہے کہ ایوانوں میں عوامی مسائل حل کرنے کے
بجائے ذاتیات کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے بناتے ایک وقت یہ یہاں تک پہنچ
جائیں کہ یہ ”چِھنالوں“ کی طرح لڑتے ہوئے اپنی حکومتی مدت
گزارجائیں۔اورعوام کے مسائل جوں کے توں رہ جائیں اور بیچارے معصوم عوام بعد
میں اپنے نمائندؤں کی چِھنالوں والی حرکتوں پر کبھی خود کو اور کبھی اپنے
فیصلوں اور کبھی اپنے نصیبوں کو دیکھ کر روتے رہیں قبل اِس کے کہ پھر
ایساہو اِن لمحات میں ہم اپنے ملک کے معصوم عوام سے یہ کہیں گے کہ اللہ کے
واسطے آئندہ انتخابات میں ذراسوچ سمجھ کراپنے ایسے نمائندوں کو ووٹ دیں جو
ایوانوں میں پہنچ کر نہ شہباز شریف، نہ راجہ ریاض اور نہ راناثناءاللہ کا
کردار اداکریں اور اِسی کے ساتھ ہی ہم اپنی قوم کے ووٹروں سے یہ بھی
کہناچاہیں گے کہ اللہ کے واسطے کسی ایسے کو صدر مملکت کے عہدے پر بھی فائز
نہ ہونے دیں جس کی مثال ہمارے موجودہ صدر جیسی ہو جن کے حصے میں سوائے
تنقیدوں اور ایوان مشترکہ کے اجلاس سے پانچ بار خطاب کرنے کے اعزاز کے اور
کچھ نہ آیاہو جو اپنی تنقیدوں کے احصار میں ایسا پھنس کر رہ گیاہوکہ اِسے
اِس سے نکلنے کی مہلت ہی نہیں ملی اور عوام بیچارے اِس فہم وفراست سے لبریز
مگر قدم قدم پر مصالحت پسندی سے کام لینے والے صدر کے ہاتھوں چار اور پانچ
سالوں میں مہنگائی، بیروزگاری، بھوک وافلاس ، گیس و بجلی اور توانائی کے
حقیقی اور مصنوعی بحرانوں میں دفن ہوکر رہ گئے ہوں خدارا اِب ایسے صدر کو
بھی خود پر مسلط ہونے سے بچائیں اَب اپنے مستقبل کی فکر کرنی ہم ووٹروں پر
لازم ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے کیا ایساکریں کہ ہمیں
آئندہ سُکھ اور چین نصیب ہوتو آج ہی سے ہم سب کو اپنے لئے اپنی نسل اور
اپنے ملک کے لئے سنجیدگی سے سوچناہوگاتو پھر سوچوہم کیاکریں ...؟اور
کیاکرسکتے ہیں ...؟اور اِسی کے ساتھ ہی ہم یہ کہہ کر اجازت چاہیں گے
کہ”زبان شیرین مُلک گیری،زبان ٹیڑھی مُلک باَنکا“- |