سب سے پہلے مجھے اپنی کم مائیگی
کا اعتراف کرنا ہے کیونکہ مہران گیٹ سکینڈل کے مرکزی کردار یونس حبیب کی
چشم کشاہ پریس کانفرنس سے قبل مجھے اس حقیقت کا مکمل ادراک نہیں تھا کہ
نہتی لڑکی کا خوف فوجی جنتا اور مذہبی حلقوں پر اس شدت سے موجود تھا جسے
یونس حبیب نے اپنی پریس کانفرنس میں مکمل طور پر کھول کر رکھ دیا ہے۔ عوامی
شاعر حبیب جا لب نے اپنی ایک شہرہ آفاق نظم نہتی لڑکی لکھ کر اس جانب بڑا
واضح اشارہ کیا تھا لیکن اس کے اشعار واقعی اتنی بڑی حقیقت کو اپنے دامن
میں چھپائے ہوئے تھے میرے ادراک سے ماوراءتھا ۔میں اسے ایک شاعر کی شعری
موشگافیاں اور فنی لطا فتیں ہی تصور کیا کرتا تھا۔ حبیب جالب چونکہ خود بھی
فوجی جنتا کے ظلم و جبر کا نشانہ بنے ہو ئے تھے لہذا انکی اپنی روح بھی
بغاوت کے خوبصورت رنگوں سے سجی ہو ئی تھی اور چونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو
بغاوت کے ان خوبصورت رنگوں سے سجی ہو ئی ایک ایسی دلکش تصویر تھی جس میں
حبیب جالب اپنی شخصیت کے رنگ بھی د یکھا کرتے تھے لہذا ان کی یہ نظم دو
پہلو ﺅں سے انتہائی اہم تھی اور میں اسے اسی تناظر میں دیکھ کر محظوظ ہوا
کرتا تھا۔ ان کی یہ نظم ان کی اپنی ذات اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سوچوں
کی آئینہ دار تھی لہذا میں اس نظم کو ہمیشہ اسی انداز میں پڑھتا اور سمجھا
کرتا تھا اور شائد یہی وجہ تھی کہ توپوں اور ٹینکوں والوں کا ایک نہتی لڑکی
سے یوں خوف زدہ ہو جانا میری سمجھ سے ماوراءتھا اور پھر خاص کر اس وقت جب
فوجی جنتا ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر کھینچ کر منوں مٹی کے نیچے دفن
کر چکی تھی اور اسے فوری طور پر کسی بڑے خطرے کا سامنا نہیں تھا۔اس میں شک
و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک عوامی طاقت ہے
اور ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو اس عوامی طاقت کی ایسی
علامتیں جن پر پاکستانی عوام نے دل کھول کر اپنی محبتیں نچھاور کیں۔ غیر
عوامی طاقتوں کا ان کی قوت سے خوفزدہ ہو نا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس حد
تک کہ پوری فوجی قیادت ایوانِ صدر، خفیہ ایجنسیاں اور مذہبی پیشوائیت باہم
یکجا ہو کر پی پی پی کی راہ کی دیوار بن جا ئیں گی اور اس سیلِ بے پناہ کو
روکنے کے لئے ہر جائزو ناجائز حربے استعمال کر کے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال
کر پی پی پی کی بڑی فتح کو محدود کرنے کی سازشیں کرنے لگ جائیں گی میری
سمجھ سے بالا تر تھا۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ 1977 میں پاکستان کی ساری قابلِ ذکر سیاسی
قوتیں پی پی پی کے خلاف متحد ہو گئی تھیں اور اسے انتخابی میدان میں شکت سے
دوچار کرنا چاہتی تھیں۔ انتخابی منصوبہ بندی کرنا ہر ایک کا آئینی حق ہے
اور سیاسی جماعتیں ایسا کرنے کا حق بھی رکھتی ہیں۔ انکے اس حق کو تو
ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 کے انتخابات میں بھی تسلیم کیا تھا اور بھان متی
کے کنبے کو ایک انتخابی نشان (ہل) بھی الاٹ کیا تھا۔ پاکستان قومی اتحاد
کیا تھا مختلف جماعتوں کا ایک ایسا اتحاد جسکا واحد مقصد ذوالفقار علی بھٹو
کی شخصیت کو مٹا نا تھا جسکی بنیاد بد نیتی پر رکھی گئی تھی۔ ذولفقار علی
بھٹو کو اس کا علم تھا لیکن انھوں نے پھر بھی جوانمردوں کی طرح کھیل کھیلنے
کا فیصلہ کیا۔قومی اتحاد کو جب ان انتخابات میں شکست ہوئی تو اس نے دھاندلی
کا شور مچا کر ایک ایسی تحریک شروع کر دی جسکا کوئی جواز نہیں تھا ۔ پوری
دنیا میں انتخابات میں بے قاعدگیاں ہو تی ہیں جن پر انتخابی عذ ر داریاں
داخل ہو تی ہیں اور جہاں جہاں عذر داریاں اور شکائیات رجسٹر ہوتی ہیں وہاں
پر ان حلقوں میں دوبارہ انتخابات کروا د ئے جاتے ہیں اور یوں عذر داریوں کا
ازالہ ہو جاتا ہے۔ بھارت جیسے جمہوری ملک میں تو ہر انتخاب میں یہ شکا یات
وسیع پیمانے پر منظرِ عام پر آتی ہیں لیکن وہاں پر نہ تو مارشل لاءنافذ
ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی تحریک چلائی جاتی ہے۔ 1977 کے انتخابات میں 21
حلقوں کے کچھ پولنگ سٹیشنوں پر اپوزیشن نے اپنی شکائیات داخل کروائی تھیں
لیکن اس کی سزا پوری قوم کو جنرل ضیالحق کے گیارہ سالہ مارشل لاءکی صورت
میں ملی تھی ۔ پاکستان قومی اتحاد اس وقت بھی ایک سازش کی بدولت و جود میں
آیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح 1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد کو وجود بخشا
گیا تھا۔ 1977 میں نشا نہ ذولفقار علی بھٹوکا ذات تھی اور 1988 میں نشانہ
محترمہ بے نظیر بھٹو بنی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دونوں انتخابات میں
اپوزیشن کو شکست ہوئی لیکن دونوں دفعہ اس نے اپنی شکست کو تسلیم کرنے سے
انکار کر دیا اور سازشوں کا جال بننا شروع کر دیا۔کیا ہم نے یہ سوچنے کی ز
حمت گوارہ کی کہ کہ آخر پی پی پی کا قصور کیا ہے جس کی وجہ سے پو ری ریاستی
مشینری اس کے خلاف متحد ہو جاتی ہے اور اسے شکست سے دوچار کرنے کےلئے ہر
جائزو ناجائز و حربے استعمال کرتی ہے۔اس سوال کا جواب میں اپنے اگلے کالم
کےلئے اٹھا رکھتا ہوں۔آئیے پہلے حبیب جالب کی اس شعرہ آفاق نطم کے چند
اشعار ر پڑھ لیں تا کہ اس دور کی حقیقی تصویر کو سمجھنے میں آسانی بھی ہو
جائے اور شعری لطا فتوں سے لطف اندوز بھی ہوا جائے۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے۔۔پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی
لڑکی سے
ڈرے ہوئے ہیں مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں۔۔ملا، تاجر،جنرل جیالے،ایک
نہتی لڑکی سے
آزادی کی بات نہ کر،لوگوں سے نہ مل یہ کہتے ہیں۔۔بے حس ،ظالم،دل کے کالے
ایک نہتی لڑکی سے
سوچتا ہوں تو محوِ حیرت رہ جاتا ہوں کہ ایک نہتی لڑکی کے خلاف جب ریاستی
مشینری ، ساری مخالف سیاسی اور غیر سیاسی طاقتیں مجتمع ہو گئی تھیں اور پی
پی پی کی واضح فتح کا راستہ روکنے کےلئے ہر جائز و نا جا ئز حربہ استعمال
کرنے کی ٹھان لی گئی تھی تو پھر اس نہتی لڑکی نے کیا کیا؟ کیا وہ ان
خونخوار اور بے رحم گروہوں کے ہتھکنڈوں اور حربوں سے ڈر گئی؟کیا اس نے
جمہوریت کاارادہ ترک کر دیا ؟ کیا اس نے شخصی آزادیوں کی جنگ کو خیر باد
کہہ دیا ؟کیا اس نے معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد سے توبہ کرلی ؟ کیا اس نے
انسان دوستی اور مساوات کے علم کولپیٹ دیا؟ کیا اس نے فوجی جنتا کے سامنے
سرِ تسلیم خم کر دیا؟اس نے مزدوروں اور کسانوں کی جنگ لڑنے سے معذرت کر لی
؟ کیا ا س نے غریب اور کچلے ہوئے افرادِ معاشرہ کا ساتھ نبھا نے سے کنارہ
کشی اختیار کر لی ؟ اور کیا اس نے عوامی حقوق پر سودے بازی کر لی؟ سچ تو یہ
ہے کہ بھٹو کی بیٹی نے ایسا کچھ بھی نہ کیا وہ اپنے سارے مخالفین کے خلاف
سینہ سپر ہو کر میدان میں نکل آئی اور انھیں ان کی اپنی سپاہ کے درمیان
شکست سے دوچار کیا۔فتوے ہار گئے، فوجی جنتا کو اپنے حواریوں کے ساتھ شکست
ہو گئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1988 میں دنیائے اسلام کی پہلی خاتون
وزیرِاعظم کا حلف اٹھا کر نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔مذہبی پیشوائیت کے سینے پر
تو سانپ لوٹ گئے کہ ایک خاتون پاکستان کی وزیرِ اعظم کیسے بن گئیں۔ خاتون
جسے وہ کمتر تصور کرتے تھے اور اسے مرد کے مساوی حقوق دینے سے گریزاں تھے
اور مذہیب کی زبان میں جسے آدھی عورت سے تشبیہ دیتے تھے اور جس کےلئے انھوں
نے فتوے صادر کر رکھے تھے کہ کسی خاتون کا وزیرِ اعظم بن جانا اسلام کی روح
سے حرام ہے۔انکی نظرمیں عورت کا بر سرِ اقتدار آنا مذہب سے بغاوت تھی اور
پاکستانی عوام نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی محبت میں مذہب سے بغاوت کر کے بھی
دکھا دی تھی۔ مذہبی پیشوائیت نے عورت اور مرد کی تفریق کے نئے فلسفے تراشے
۔ اسلام کو خطرہ ہے کہ نعرے بلند کئے اور بھٹو خاندان کی وہ کردار کشی کی
کہ انسان اپنا منہ چھپا لے لیکن کیا نتیجہ نکلا ۔کیا انکی ساری ہرزہ
سرائیوں پر کسی نے کان دھرا۔ سچ تو یہ ہے کہ شکست و رسوائی اورذلت مذہبی
پیشوائت کا مقدر ٹھہری لیکن انکا پندارِ نفس پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوا
کیونکہ انھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو ے مخاصمت کی قسم کھا رکھی تھی۔ کمزور
دل کا کوئی انسان ہو تا تو ڈر کر بھاگ کھڑا ہوتا یا مذہبی پیشوائیت کے
حملوں سے خوفزدہ ہو کر کہیں چھپ جاتا لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو شیر کی بیٹی
تھیں لہذا اس نے سورج کی روشنی میں کھلے آسمان تلے ساری قوتوں کا ڈٹ کر
مقابلہ کیا اور انھیں تنِ تنہا شکست سے دوچار کیا۔کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے
کی زحمت گوارا کی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کتنے دل گردے والی خاتون تھیں
کتنی بہادر، جری اور نڈر خاتون تھیں اور وطنِ عزیز کا کتنا بڑا اثاثہ تھیں
۔وہ چاروں صوبوں کی ز نجیر تھیں، عوام کے دلوں کی دھڑکن تھیں اور وفاقِ
پاکستان کی مضبوط علامت تھیں لیکن کم ظرفوں نے ذاتی اقتدار کی خاطر اسکے
ساتھ انتہائی گھناﺅنا کھیل کھیلا ۔وہ عوامی حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے شہید گئی
۔اس نے مذہبی پیشوائیت کے فتووں کا پردہ چاک کیا اور اسلام خطرے میں ہے کے
نعرے کا مکمل ابطال کیا۔وہ عوام کو مذہبی پیشوائت کے خون آشام زنجیروں سے
رہا کر کے عالمِ بالا کو رخصت ہو گئیں ۔عوامی شاعر حبیب جالب نے مذہبی
پیشوائیت کی سوچ اور فکر پر جو شعرہ آفاق نظم تخلیق کی تھی اس کے دو اشعار
رقم کر رہا ہوں تا کہ اس دور کی فکر کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔
خطرہ ہے زرداروں کو۔ گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو۔خطرے میں اسلام نہیں |