نیپرا نے بجلی 6.39روپے مہنگی
کردی ،لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ20گھنٹے تک جا پہنچا۔سب پاکستانیوں کو ایک بار
پھر مبارک ہو خیر اس ’ساری مبارک‘ کا سہرہ ہماری حکومت کو ہی جاتا ہے۔اس
حکومت میں موجود مشیران، وزیران اور پارٹی کے کرتا دھرتا تمام افراد قابلِ
تحسین ہیں،زبردست کیا کامیاب حکومت چلا رہے ہیں؟۔وزیراعظم پاکستان نے ایک
بار عدلیہ کے احترام کو تہہ وبالا کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی قانونی چارہ
جوئی نہ کرنے او ر خط نہ لکھنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس پر عوام کو ردِ عمل
نہ آنا بھی ہماری قومی غیرت مندی کی ایک واضح دلیل ہے۔حکومت کے مطابق سب
کچھ ”ٹھیک“ ہے اور اس پر شاید یہی کیہ سکتے ہیں کہ عوام کے مطابق سب کچھ
”ٹھیک“ نہ ہو تب بھی چلے گا۔
بجلی کے نرخ بڑھنے پر اگرچہ کچھ شہروں میں احتجاج ہوا،لوگوں نے توڑ پھوڑ
کی۔جو بھی نقصان ہوا بہت ہی غلط ہوا،ہم اس نقصان پر کسی قسم کے جشن کا
اعلان کرنے کی حمایت ہر گز نہیں کریں گے۔ہاں تما م پاکستانیوں سے فقط اتنی
گزارش ہے کہ ہم سارے پاکستانی مل کر پر امن احتجا ج بھی تو ریکارڈ کر وا
سکتے ہیں مگر شر ط یہ بھی ہے کہ کوئی”نگہبان“ اس پر نوٹس بھی تو لے،یقینا
لوگ بھی اسی وجہ سے مایوس ہیں کہ کوئی بھی ان کی فریاد کو ”لفٹ“ ہی نہیں
کرواتا۔اس حکومت کو پانچ سال پورے ہونے میں تھوڑا ہی عرصہ باقی ہے لیکن کسی
بھی پاکستانی کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ ”صاحبان“ اپنی مدت ملازمت کے خاتمے کے
بعد یا خاتمے سے کتنے دن پہلے عوام کی خوشحالی کا عملی پروگرام سامنے لائیں
گے یا پھر سابقہ صدر مشرف کی طرح خالی بڑھکیں۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں وائس چیئرمین نیپرا غیاث الدین احمد کی
سربراہی میں عوامی سماعت ہوئی جس میں بجلی کی قیمت میں 4 ماہ کے ماہانہ
فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 6.39روپے اضافہ کی منظوری دی گئی۔ نیپرا کے مطابق
اکتوبر کے لیے2 روپے 22 پیسے ، نومبر ایک روپے 27 پیسے ، دسمبر 94 پیسے اور
جنوری کے لیے ایک روپے 96 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی گئی۔ اضافے کے
اطلاق کے بارے میں نیپرا کی جانب سے نوٹیفیکیشن بعد میں جاری کیا جائے گا۔
دوسری جانب گرمی شروع ہونے سے پہلے ہی ملک بھر میں بجلی کی پیداوار تشویش
ناک حد تک کم ہو گئی ہے۔شہروں میں لوڈشیڈنگ 13،13 گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں
میں یہ دورانیہ 20 گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔ پیپکوترجمان نے حکومت کی طرف سے
سبسڈی کی مد میں اربوں روپے ملنے تک نیا شیڈول جاری کرنے سے انکار کر دیا
ہے۔ پیپکو اور وزارت خزانہ کے درمیان بقایاجات کی ادائیگی کا معاملہ حل نہ
ہونے سے ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سنگین صورت اختیار کر گئی ہے۔ پیپکو
حکام نے فوری طور پر 136 ارب روپے ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیپکو کا
کہنا ہے کہ ہمارے پاس تیل خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، کل اور زیادہ لوڈ
شیڈنگ ہوگی۔ان کا کہنا ہے کہ تیل اورگیس نہ ہونے سے کئی پاور ہاﺅسز میں کم
بجلی پیدا ہو رہی ہے، فوری طور پر رقم نہ ملی تو مزیدپاور ہاﺅسز بھی بند
ہوسکتے ہیں۔پیپکو، پی ایس او سے روزانہ 35ہزار ٹن تیل چاہتی ہے جبکہ اسے 12
ہزار ٹن تیل بھی نہیں مل سکا۔ اس وقت ملک میں بجلی کا شارٹ فال6 ہزار 300
میگاواٹ سے بھی تجاوز کرچکا ہے۔ پنجاب کے شہروں میں 13،13 گھنٹے جبکہ دیہات
میں 20،20 گھنٹے تک غیرعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے جس سے گھریلو صارفین
اور کاروباری طبقے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی
ہے۔ پیپکو حکام کے مطابق حکومت نے کراچی الیکٹر ک سپلائی کمپنی کو روزانہ
340 کے بجائے 740 میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ وی وی آئی
پیز فیڈرز بھی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں، جس کا سارا بوجھ عوامی فیڈرز ہی کو
برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
دوسری طرف روایتی طریقے سے عالمی بینک سے پھر قرض لیا جا رہا ہے جوکہ آنے
والی حکومتیں اور عوام ہی اد ا کریں گی۔عالمی بینک نے پاکستان کو پن بجلی
پیدا کرنے اور کم پانی کے استعمال سے زرعی پیداوار بڑھانے کے دو منصوبوں کے
لیے ایک ارب نو کروڑ ڈالر کا آسان شرائط پر قرضہ منظور کیا ہے۔اطلاعات کے
مطابق اس رقم سے 84 کروڑ ڈالر تربیلا ڈیم کے توسیعی منصوبے کے لیے ہیں، جس
کے تحت پانی سے چودہ سو دس میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی جبکہ پچیس کروڑ
ڈالر پنجاب میں پانی کے مناسب استعمال سے زرعی پیداوار بڑھانے کے منصوبے پر
خرچ ہوں گے۔ اب دعا یہ کریں کہ یہ پیسے اسی مقصد کے لئے ہی استعما ل ہوں
۔مزید یہ کہ پاکستان کو تربیلا کے توسیعی منصوبے کا قرضہ اکیس برس کے لیے
دیا گیا ہے اور چھ سال مزید اس میں اضافہ ممکن ہے۔ جبکہ پنجاب کے منصوبے کے
لیے قرضہ پچیس برس تک قابل واپسی ہوگا اور اضافی مدت پانچ سال طے پائی
ہے۔اس قرضے پر سود اور سروس چارجز کے مد میں دو فیصد ادا کرنے ہوں گے۔
عالمی بینک کے پاکستان میں سربراہ مسٹر ریچڈ بینمسود کا کہنا ہے کہ موسم
گرما میں جب پاکستان میں بجلی کی قلت بڑھ جاتی ہے اور دریاؤں میں پانی کا
بہاؤ زیادہ ہوتا ہے اس وقت تربیلا توسیعی منصوبے سے چودہ سو دس میگا واٹ
بجلی پیدا ہوگی۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جہاں وسیع پیمانے پر بجلی کی لوڈ
شیڈنگ سے عام آدمی کی زندگی متاثر ہوتی ہے وہاں معیشت کل ملکی پیداوار یعنی
’جی ڈی پی‘ کی دو فیصد متاثر ہوتی ہے۔پاکستان میں پانی سے سستی بجلی پیدا
کرنے کے وسیع مواقع موجود ہیں لیکن پیداوار صرف پندرہ فیصد تک ہے۔پنجاب میں
زراعت کے لیے پانی کے مناسب استعمال کے منصوبے کے بارے میں عالمی بینک کے
پانی کے ایک ماہر مسعود احمد کا کہنا ہے کہ پچیس کروڑ ڈالر کی رقم سے ایک
لاکھ بیس ہزار ایکڑ کے رقبے کو ’ڈرپ اینڈ سپرنکلر ایریگیشن سیسٹم‘ میں شامل
کیا جائے گیا۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی کی دستیابی کم ہو رہی ہے اور
طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نہر سے کھیت تک پانی پہنچانے والے واٹر کورسز کی
خراب صورتحال کی وجہ سے کافی مقدار میں پانی ضائع ہوتا ہے اس لیے اس
ٹیکنالوجی کے استعمال سے کافی بہتری آئے گی۔عالمی بینک تو اس پیسے کے
استعمال کو مثبت ہی ثابت کرے گا آخر اسے بھی توسو د ہی واپس ملے گا اور ہم
سب کو دیکھنا یہ ہے کہ پاکستا ن اور عوام کی قسمت سنوارنے کے نام پر لیا
جانے والا یہ قرضہ کیسے اور کہاں خرچ ہوتا ہے۔کہیں قرض پیسہ لے کر مال کو
اپنے اکاﺅنٹس میں ٹرانسفر کرنے کی ٹیکنالوجی ہی نہ استعمال ہو جائے۔عوام کو
تو بتایا جا رہا ہے کہ فرشتے زمین پر ہیں لیکن ہم سب کو فی الحال ایسا ہی
لگ رہا ہے کہ یہ فرشتے کھاتے پیتے فرشتے ہیں جو عوام کی ہر چیز ”ہڑپ“ کر
جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔بجلی کا بل اداہو یا نہ ہو بس یہی سوچ کر خوش
ہو جائیں کہ فرشتے زمین پر ہیں۔ |