میمو، مہران عوام پریشان

بے بس اور لاچار عوام کریں بھی تو کیا کریں ایک تو بے روزگاری اپر سے کمرتوڑ مہنگائی پھر گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈ نگ کا عذاب غریب عوام کا تو جینا محال ہو گیا ہے زندگی موت سے بھی بدترلگنے لگی ہے محدود وسائل اور لامحدود مسائل ہونے کی وجہ سے پاکستان کے عوام اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ ان میں سے برداشت، خود اعتمادی، محبت ،بھائی چارہ اور احساس ہمدردی ختم ہو تاجا رہا ہے جبکہ ان میں اعتماد کمی اور خود غرضی بڑھتی جارہی ہے اگر ہمارے حکمرانوں اور سیا سی لیڈرز نے عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل کے خاتمے کے لیئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہ کیئے تو مستقبل میں اس کے بڑے ہی بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے اگرتجزیہ کیا جائے کہ منتخب ہونے والی نئی حکومت عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوگی تو جواب یقینا نہ ہی ہوگا کیونکہ نئی حکومت کے آنے سے چہرے ضرور بدل جائیں گئے لیکن نظام نہیں بدلے گا اور ہمیشہ کی طرح آنے والی نئی حکومت بھی پہلے ایک ڈیڑھ سا ل کا عرصہ تو سابقہ حکومت کی بُرائیاں کرنے میں ہی گزار دے گی اور ملک کے موجودہ بحران کو پچھلی حکومت کی نااہلی قرار دے گی اور پھر کوئی نئے میمویا مہران بنک جیسے سکینڈلز سامنے لائے جائینگے جن کا سہارا لے کر حکومت اپنے باقی کے دن بھی پورے کر لے گی اور اسی طرح وقت گزرتا جائیگا کیونکہ ہر حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ عوام اپنے حق کی خاطر آواز بلند نہ کر سکیں اس لیئے نت نئے سکینڈلز کھڑے کر کے معصوم عوام کو بیوقوف بنایا جاتاہے اور شاید ہمیشہ ایسے ہی بنایا جاتا رہے گا معصوم عوام کو ایسے فضول معاملات میں الجھا کر رکھا جاتاہے جن سے غریب عوام کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا مثال کے طور پر میمو گیٹ سیکنڈل کو ہی دیکھ لیجیئے 30اکتوبر 2011سے پہلے شایدکئی لوگ لفظ میمو سے بھی نا آشنا ہونگے کیونکہ 30اکتوبر 2011کو پہلی بار مینا ر پاکستان پر نکالی گئی تحریک انصا ف کی ریلی میں عمران خان نے میمو گیٹ سکینڈل کا تذکرہ کیا تھا لیکن اس وقت لوگوں نے اس خبر پر کوئی خاص توجہ نہ دی لیکن جب 17نومبر 2011میں یہی خبر پاکستان کے نیوز پیپرز اور ٹی وی چینلز کی زینت بنی تو پھر پاکستان کے کونے کونے میں میمو کا ہی ڈنکا بجنے لگاپاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میمو کے پیچھے ہی پڑ گئے اپنی سیاست چمکانے کے لیئے اور عوام کی واہ واہ بٹورنے کے لیئے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور خود میمو گیٹ سکینڈل کے فریق بن کر عدالت پہنچ گئے لیکن جب میمو گیٹ سکینڈل کے مرکزی کردار اعجاز منصور نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تو میمو گیٹ کی شہرت میں کمی آنے لگی اور پھر میاں نواز شریف بھی دھیرے دھیرے اس کیس سے پیچھے ہٹتے گئے لیکن تقریباً پچھلے پانچ ماہ میں میمو گیٹ سکینڈل کو لے کر بے شمار ڈرامے دیکھنے کو ملے اور ان پانچ مہینوں میں ہماری حکومت ، اپوزیشن ، عدلیہ ، قانون نافذ کرنے والے ادا رے اور تمام سیاسی لیڈرز کی تما م تر توجہ بس اسی میمو گیٹ سکینڈل پر مرکوز تھی اور مجال ہے کہ اس عرصے میں ان میں سے کسی ایک ادارے نے بھی عوام کے کسی ایک مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہو یا اس کا کوئی حل نکالاہو بے نتیجہ پانچ ما ہ ضائع ہونے کے بعد اب جاکر کہیں میمو کا بھو ت ہمارے سروں سے اتر ہی رہاتھا کہ یونس حبیب نے مہران بنک سکینڈل کا ایک نیا پینڈورابکس کھول دیا یونس حبیب کا مختصر تعارف یہ ہے کہ وہ 1963میں حبیب بنک آف پاکستان میں بطور کلرک بھرتی ہوا تھا اس کی تعلیم صر ف انڑمیڈیٹ تھی لیکن اپنی چالاکی٬ ذہانت اور عقل مند ی سے کم تعلیم ہونے کے باوجود 25سال کے عرصے میں وہsenior executive،وائس چیئر مین، ممبر آف بورڈ،اور پروونشنل چیف کے عہدے تک پہنچ گیا اتنا ہی نہیں1992میں اس شخص نے مہران بنک کے نام سے اپنا ذاتی بنک بنا لیا یونس حبیب پاکستان کے سابق صدر اسحاق خان اور آرمی چیف اسلم بیگ کا بیسٹ فرینڈ تھا اُسی یونس حبیب نے اب یہ الزام لگایا ہے کہ 1990 میں سابق صدر اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر اس نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے لیئے سیاستدانوں میں بھاری رقم تقسیم کی تھی جن میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا نام سرفہرست ہے لیکن 1993کے الیکشن میں یونس حبیب نے پیپلزپارٹی کی حمائیت کی بقول اس کے کہ 1990میں کی گئی غلطیوں کو سدھارنے کے لیئے اس نے پیپلزپارٹی کو سپورٹ کیا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں یونس حبیب نے سب سے بڑی کرپشن کا ارتکاب کیا ہے جس نے پاکستان کے جرنیلوں اور بڑے بڑے سیاستدانوں کے کرداروں پر سوالیہ نشان لگا دیاہے لیکن افسوس یونس حبیب کے ضمیر کی آواز نے لبوں تک آتے آتے بڑی دیر کردی کاش کہ یونس حبیب کی زبان کشائی بیس سال پہلے ہوجاتی تو شاید اس کے نتائج کچھ اور ہو تے لیکن ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد اس طرح اچانک یونس حبیب کی غیر ت کا جاگنا اس بات کی طرف اشارہ کر تی ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے اب اس کی باتوں میں کتنی صداقت ہے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں کرپشن کے کلچر کو فروغ دینے میں اس شخص کا ہمیشہ اہم کردار رہاہے ۔میمو او ر مہران کا موازنہ کرتے ہوئے بعض لوگوں کا یہ بھی سوچنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے مہران بنک سکینڈل کے ذریعے مسلم لیگ ن کو میمو گیٹ سکینڈل کی حمائیت کرنے کا جواب دیا گیاہے اب معاملہ ہو میموگیٹ کا یا پھر مہران بنک کا یہ سیاسی پارٹیوں کے لیئے اہم بھی ہوسکتا ہے اور سودمند بھی لیکن غریب عوام کا ان سیکنڈلز سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی عوام کو ان سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا ہے اس لیئے تما م سیاستدانوں اور حکمرانوں سے یہ گزارش ہے کہ مہنگائی ، بے روزگاری، بد امنی، بھتہ خوری ،کرپشن ،رشوت ،ملاوٹ، اجارہ داری اور بجلی ،گیس کی لوڈشیڈنگ سے ستائی ہوئی پریشان عوام کو میمو،مہران جیسے سکینڈلز سے دو ر ہی رکھا جائے تو بہترہے اور ماضی کی تلخ یادوں کو زیر بحث لا کر آپس میں لڑائی جھگڑے کرنے سے بہتر ہے کہ ان غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل میں پاکستان کو مظبوط اور عوام کو خوشحال بنانے کے سب لوگ ملکر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔۔
Kifayat Hussain
About the Author: Kifayat Hussain Read More Articles by Kifayat Hussain: 34 Articles with 31263 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.