میں اور میرے والد محترم ، شیخ
ظہور الٰہی مرحوم کے گھر گوجرانوالہ میں ان کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا رہے
تھے۔ شیخ ظہور الٰہی مرحوم بہت نفیس انسان، بزرگ شخصیت اور انتہائی مہمان
نواز تھے۔ جب وہ دھیمے لہجے میں باتیں کررہے تھے تو اپنے بیٹے کا ذکر کرکے
ان کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے، میں ان کی باتیں سننے میں مگن تھا اس لئے
چائے اور اس کے ساتھ بھرپور قسم کے لوازمات سے تھوڑی دیر کے لئے میری توجہ
ہٹ گئی، جب انہوں نے دیکھا تو خود اپنے ہاتھوں سے میری پلیٹ بھری اور مجھے
گرم چائے لاکر دی۔ شیخ ظہور الٰہی صاحب ، علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید ؒ کے
والد بزرگوار تھے ، میرے والد صاحب مجھے لیکر علامہ صاحب کی شہادت کے کچھ
عرصہ بعد ان سے ملنے گئے تھے۔ شیخ صاحب بتارہے تھے کہ علامہ احسان الٰہی
ظہیر ؒ بچپن سے ہی انتہائی ذہین تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں غضب کی
یادداشت عطا کی تھی۔ علامہ صاحب نے نو سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا
اور بقول ان کے والد جب وہ قرآن حفظ کررہے تھے تو وہ روزانہ ان کا کھانا
گھر سے تازہ پکوا کر لے کر جاتے تھے، کبھی انہوں نے ان کو مدرسے کا کھانا
نہیں کھانے دیا تھا، خود ان کا پورا جسم دبایا کرتے تھے کیونکہ ان کا بیٹا
قرآن کو اپنے سینے میں سمو رہا تھا، یاد کررہا تھا۔ آنسوﺅں کے ساتھ شیخ
صاحب کی باتیں جاری تھیں کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا، شیخ صاحب نے خود
اذان دی ، نماز کے بعد دوبارہ ہم لوگ ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے، شیخ
صاحب اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتے تھے اور ان کے بچپن، نوجوانی اور شہادت کی
باتیں کررہے تھے ، ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی شہادت سے بہت خوش ہیں
اور اللہ کے حضور سجدئہ شکر بجا لاتے ہیں لیکن وہ ان کی سیاست میں آمد سے
خوش نہیں تھے۔
علامہ صاحب 31 مئی 1945 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انہوں نے 9 سال کی عمر
میں قرآن مجید حفظ کرلیا، ابتدائی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ اور بعد
ازاں جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں حاصل کی، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے
مدینہ یونیورسٹی چلے گئے، مدینہ یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ میں محمد نصیر
الدین البانی اور عبدالعزیز ابن عبداللہ ابن باز بھی شامل تھے، مدینہ
یونیورسٹی سے اعلیٰ ترین نمبروں سے گریجوایشن کرنے کے بعد علامہ صاحب
پاکستان واپس آگئے ، ان کو دوران طالب علمی مدینہ یونیورسٹی میں لیکچرز
دینے کا اعزاز بھی حاصل رہا، وہ پہلے طالب علم تھے جو اپنے ساتھی طالب
علموں کو لیکچرز دیتے رہے۔ اسی دوران علامہ صاحب نے اپنی پہلی کتاب
”القادیانیہ“ لکھی، جب اس کی پرنٹنگ کا وقت آیا تو ابھی ان کی گریجوایشن کا
نتیجہ نہیں آیا تھاجبکہ علامہ صاحب کتاب پر ”فارغ التحصیل مدینہ یونیورسٹی“
لکھنا چاہتے تھے جس کے لئے مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر عبدالعزیز ابن
عبداللہ ابن باز کی خصوصی اجازت درکار تھی، چنانچہ علامہ صاحب نے اپنے
استاد اور چانسلر سے اس بابت پوچھا تو انہیں بخوشی اجازت دیدی گئی کہ آپ
”فارغ التحصیل“ کا لفظ لکھ سکتے ہیں، علامہ صاحب نے استاد سے کہا کہ ”اگر
میں فیل ہوگیا“، بن باز کا جواب تھا ”اگر احسان الٰہی فیل ہوگیا تو میں یہ
یونیورسٹی بند کردوں گا“....وطن واپس آکر علامہ صاحب نے عربی، اسلامیات،
اردو اور فارسی میں ماسٹرز اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں اورپھر ایک
نامور عالم دین، مصنف، خطیب اور سیاستدان کی شکل میں ابھرے۔ وہ اپنی بات
دلائل سے کیا کرتے تھے کہ سامنے والا لاجواب ہوجایا کرتا تھا۔ بھٹو کی
آمریت میں جیلیں بھی برداشت کیں اور قتل کے مقدمے بھی، 1977 کے الیکشن میں
حصہ لیا اور جب دھاندلی کی وجہ سے ملک گیر تحریک چلی تو اس کے ہراول دستے
میں علامہ صاحب بھی شامل تھے۔ تحریک نظام مصطفیٰ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،
ضیا الحق نے جب بھٹو حکومت ختم کی تو ابتدائی دنوں میں علامہ صاحب ضیاءالحق
کے مشیر بھی رہے لیکن جیسے ہی اندازہ ہوا کہ ضیاءالحق اسلام کا صرف نام لے
رہا ہے، اس کا پروگرام کچھ اور ہی ہے، فوراً مشیر کے عہدے سے علیحدہ ہوگئے
کیونکہ ضیاءکی منافقت کا پردہ چاک ہوچکا تھا کہ یہ صرف اپنے اقتدار کے لئے
اسلام کا نام لے رہا ہے۔ علامہ صاحب نے ضیاءآمریت کے خلاف جمہوریت کے حق
میں کسی قربانی سے دریغ نہ کیا اور ضیاءالحق کے آمرانہ دور میں بھی پابند
سلاسل رہے۔ ضلع بدریاں، صوبہ بدریاں اور مختلف قسم کی پابندیاں ان کے پایہ
استقلال میں کوئی لغزش پیدا نہ کرسکیں ۔ ضیاءالحق کی آمریت کا سیاہ دور تھا
جب کسی شخص میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اس کے ظالمانہ، جابرانہ اور منافقانہ
اقدامات ، جمہوریت مخالف اور اسلام مخالف پالیسیوں پر تنقید کرسکے، ایک لفظ
بھی بول سکے، تب بھی یہ علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒکی ذات تھی جو اس آمر کے
سامنے سیسہ پلائی دیوار کی صورت کھڑی تھی، نہ صرف خود بلکہ اپنے ارد گرد
اسلام کے چاہنے والوں اور جمہوریت کے دلدادہ لوگوں کو بھی اکٹھا کرنے میں
کامیاب رہے۔ایم آر ڈی کا کوئی جلسہ علامہ صاحب کے بغیر سجتا ہی نہیں تھا۔
علامہ صاحب ضیاءالحق کو طاغوت قرار دیتے تھے اور ببانگ دہل اس کے منافقانہ
اقدامات پر تنقید کیا کرتے تھے۔
تیئس مارچ 1987 کی رات کا شروع تھا جب علامہ احسان الٰہی ظہیر لاہور میں
مینار پاکستان کے قریب قلعہ لچھمن سنگھ میں سیرت النبی کے جلسے سے خطاب
کررہے تھے۔ ان کے خطاب کے دوران پھولوں کے گلدستے میں جو کہ سٹیج پر رکھا
گیا تھا، بم دھماکہ ہوا اور آن کی آن میں جہاں علامہ صاحب اس وقت کے فوجی
آمر ضیاءالحق پر برس رہے تھے جلسہ گاہ خون کی بارش میں نہا گئی۔ مولانا
حبیب الرحمان یزدانی، محمد خان نجیب اور مولانا عبدالخالق قدوسی جہان فانی
سے شہادت پا کر رخصت ہوگئے جبکہ علامہ صاحب کو شدید زخمی حالت میں لاہور کے
میو ہسپتال میں لایا گیا، شائد ستائیس یا اٹھائیس مارچ کا دن تھا جب شاہ
فہد کا خصوصی طیارہ علامہ صاحب کو لیکر ریاض چلا گیا جہاں ریاض ملٹری
ہسپتال میں ان کا علاج شروع کیا گیا۔ بم کے اثرات بہت گہرے تھے اوران کی
ایک ٹانگ کو بہت زیادہ نقصان پہنچ چکا تھا، ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنے کا مشورہ
دیا لیکن علامہ صاحب نہ مانے، اللہ کی طرف سے ان کا بلاوہ آچکا تھا، مدینے
کی گلیوں کا عاشق اور نبی ﷺ کا مدح خواں، اللہ کے دین کی سربلندی کا علم
اٹھانے والا 30مارچ 1987 کو شہید ہوگیا۔ علامہ صاحب کی شہادت کو تقریباً
پچیس سال گذر چکے ہیں لیکن آج تک ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں
پہنچایا جا سکا، اس سلسلہ میں جمعیت اہلحدیث کے پلیٹ فارم سے احتجاج بھی
کیا گیا، مظاہرے کئے گئے، جلسے کئے گئے، جلوس نکالے گئے، بھوک ہڑتال بھی کی
گئی لیکن کچھ نہ ہوسکا،والد محترم جناب ریاض فیضی مرحوم نے علامہ صاحب کی
شہادت پر جہاں اور بہت سی شاعری کی وہیں ان کا یہ قطعہ بہت مقبول عام ہوا
تو اگرچہ جلوہ فرما خلد کی محفل میں ہے
اے ظہیر محترم تو جاگزیں ہر دل میں ہے
حضرت حمزہ کا پاکیزہ لہو جس میں بہا
گلفشاں! تیرا لہو بھی اب اسی مقتل میں ہے
علامہ صاحب کی نماز جنازہ ریاض میں ان کے استاد بن باز ؒنے پڑھائی اور
دوران نماز ان کی روتے ہوئے ہچکی بندھ گئی، یہ سعودی عرب کی تاریخ کی سب سے
بڑی نماز جنازہ تھی جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 30 لاکھ سے زائد
لوگوں نے شرکت کی تھی جس میں سعودی عرب کی اعلیٰ حکومتی و مذہبی شخصیات اور
سعودی عرب میں موجود اسلامی سکالرز کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ذرائع کے
مطابق علامہ صاحب کی نماز جنازہ میں پاکستان سے ضیاءالحق، جنرل اختر
عبدالرحمان اور اس وقت کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان بھی شامل ہوئے
تھے۔ علامہ صاحب کو جنت البقیع میں حضرت مالک ابن انس کے پہلو میں جگہ مل
گئی اور ان کی وہ آرزو پوری ہوگئی جو انہوں نے اس سے پہلے اپنے آخری حج پر
اللہ تعالیٰ سے رو رو کر اور گڑگڑا کرکی تھی۔علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒ جیسا
عالم صدیوں میں پیدا ہوتا ہے، وہ ایک بے بدل عالم دین ہی نہیں بہادر اور
ذہین انسان بھی تھے، اللہ کی وحدانیت پر ہر وقت کٹنے اور مرنے کے لئے تیار
رہتے تھے، ان کو اپنی شہادت کا یقین تھا اور اللہ نے اس یقین کی لاج رکھی۔
وہ اپنے دور کے ان سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کے دلوں میں کانٹے کی طرح
کھٹکتے تھے جو اس ملک کو اپنی جاگیر اور عوام کو رعیت سمجھتے تھے کیونکہ نہ
وہ کسی سے ڈرتے تھے، نہ خوفزدہ ہوتے تھے اور نہ انہیں کوئی لالچ تھا، اگر
خوف تھا تو اللہ کا، اگر لالچ تھا تو شہادت اور نبیﷺ کے شہر میں اپنے مدفن
کا، اللہ نے ان کی دونوں دعائیں دونوں آرزوئیں پوری کردیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر اپنی شہادت سے اہلحدیثوں کو بھی
بریلوی بنا گئے ہیں کیونکہ آج بھی اکثر اہلحدیث علامہ کو یاد کرکے ٹھنڈی
آہیں بھرتے ہیں اور رو پڑتے ہیں، وہ ذات ، وہ شخصیت ان کے دلوں سے محو ہوتی
ہی نہیں، اس کی یاد دلوں سے نکلتی ہی نہیں،آج جب ہرطرف قحط الرجال ہے،
بولنے والے تو بہت ہیں لیکن سچ بولنا جیسے بھول ہی گئے ہیں، لکھنے والے تو
بہت ہیں لیکن حق سے جیسے کوسوں دور، تقریریں تو بہت سے لوگ کررہے ہیں اور
دھواں دھار کررہے ہیں لیکن وہ گھن گھرج کسی میں نہیں، اس طرح کے دلائل دینا
ہر کسی کے بس میں تو نہیں، جن سینوں میں منافقت بھری ہو وہاں سے حق اور سچ
کی بات نکل بھی کیسے سکتی ہے، جو لوگ پیٹ سے سوچنے والے ہوں، ان کے سینوں
میں کشادگی آبھی کیسے سکتی ہے، جن لوگوں کے نزدیک ملت اسلامیہ کی کوئی
حیثیت نہ ہو، جو اللہ کی وحدانیت کی بات تو کرتے ہوں لیکن ان کا اپنا ایمان
بھی متزلزل ہو، جو نبی آخرالزمان ﷺپر ایمان تو رکھتے ہوں لیکن ان کے لئے
جان قربان کرنے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں ان کی باتوں میں اثر آبھی کیسے سکتا
ہے۔علامہ صاحب کی شہادت سے جہاں عالم اسلام ایک نڈر اور جری عالم دین سے
محروم ہوا وہیں جمعیت اہلحدیث بھی اپنے قائد سے محروم ہوگئی، اس کے بعد جو
آئے انہوں نے ان سے ہی یاریاں لگا لیں جن کے غلط کرتوتوں کی وجہ سے علامہ
صاحب ان کے خلاف جدوجہد کرتے رہے، بولتے رہے اور ان کی منافقتوں کے پردے
چاک کرتے رہے، پوری اہلحدیث جماعت کو سینٹ کی ایک سیٹ کے لئے یرغمال بنا
دیا گیا۔اب علامہ صاحب ؒ کو کون بتائے کہ ان کے بعد ان کی اس جماعت کا کیا
حال ہوا جسے انہوں نے اپنی خون جگر سے سینچا تھا
”کسے پڑی ہے کہ جا سناوے ہمارے پی کو ہماری بتیاں
نہ انگ چیناں، نہ نیند نیناں، نہ آپ آوے، نہ بھیجے پتیاں“ |