آہ مظلوم فاخرہ یونس ....!!ہم
پہلے بھی تیرے سامنے شرمندہ در شرمندہ تھے اور آج بھی جب کہ تو اپنے
حکمرانوں ، سیاستدانوں اور ملک کے قانون کے رکھوالوں سے اپنا انصاف نہ ملنے
پر مایوس ہوکرپردیس اِٹلی میں خودکشی کرکے ہمارے منہ پر ایک ایسا زوردار
طمانچہ مار دیاآج جس کی گونچ ساری دنیامیں سُنائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے
ہم دنیاکو اپنا منہ دیکھانے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا
کیایہی قانون ہے...؟؟ جہاں ایک عورت کو پہلے اِس کے شوہر نے تیزاب پلانے کی
کوشش کی جب اِس میں کامیاب نہ ہوسکاتو اِس کے چہرے پر تیزاب پھینک کر فرار
ہوگیا اور یہ بیچاری فاخرہ تب سے ایک ایسی اذیت میں مبتلارہی جس نے اِس سے
چھٹکارہ اپنی موت کو گلے لگا کر ہی کچھ اِس طرح حاصل کی کہ یہ اپنے منہ پر
کفن ڈالے وہاں پہنچ گئی ہے جہاں سے آج کوئی واپس نہیں آتا۔اورآج فاخرہ
تُو،تو خداکے سامنے حاضر ہے اور ہمارے حکمران اور ہم یہاں مجبور اور بے بس
کھڑے سوائے اپنی شرمندگی اورکفِ افسوس کے کچھ نہیں کر پارہے ہیں اور شائد
ہماری یہی شرمندگی کا ناگ ہمیں اور اپنے پھن سے تاقیامت اُس وقت تک ڈستا
رہے جب تک ہم عورت کے کسی بھی محبت کرنے والے حسین روپ میں اپنی ماں، بہن ،
بیٹی اوربیوی کو دیکھیں گے تو فاخرہ (اِس سے قطع نظر کہ تیراپیشہ کیاتھا
...؟اور تو کیا تھی ...؟ مگر تھی تو ایک انسان اور ایک مسلمان اِسی جذبہ
انسانیت کے تحت ہی صحیح )یقینا ہمیں اُن میں تجھ جیسی ہمارے معاشرے کی
سیکڑوں، ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں ایسی بھی مظلوم اور بے بسی کی زنجیروں
میں جکڑی عورتیں نظر آتی رہیں گیں جن پر اِن کے باپ، بھائی ، بیٹے اور شوہر
کی شکل میں ہمارے جلادمرد اِن پر انسانیت سوز مظالم کرتے ہیں تو ایسے میں
ہمارا وجود یقیناتھّراتو ضروراٹھے گااور تیرا چہرہ ہماری آنکھوں میں بھی
گھوم اُٹھے گا مگر ہم پھر بھی کچھ نہیں کر پائیں گے ....؟ پتہ ہے فاخرہ
کیوں ....؟؟ اِس لئے کہ ہم اپنے فیوڈرل لاڈ معاشرے میں رائج قانون کے نفاذ
کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر اِس کا اطلاق نہیں کرتے ...ہاں فاخرہ وہی
قانون جو تجھ جیسی بہت سی مظلوم عورتوں کو انصاف دلانے کے لئے توبنادیاگیا
ہے مگر اِس کا اطلاق کاغذوں میں تو بہت ہوتاہے مگر عملی طور پر نہیں
ہوتااور یہی وجہ ہے کہ تجھ جیسے مظلوم انصاف کے حصول کی آس میں مایوس ہوکر
موت کو تو گلے لگالیتے ہیں مگرپھر بھی حقیقی معنوں میں ہمارے ملک میں انصاف
کو بول بالا نہیں ہوگا جس کا فائدہ ظالموں کو پہنچاتاہے اور وہ اپنا سینہ
چوڑاکرکے معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں ہاں فاخرہ وہی قانون جس کی بے حسی
کے باعث تجھے بھی وہ انصاف نہ مل سکا جس کی تو حقدار تھی اور اَب تو اپنے
خالق اللہ رب العزت کے سامنے پیش ہوکر اپنے انصاف کے لئے پیش ہوگئی ہے۔
بالآخر24 مارچ کوجب ہمارے تمام ٹی وی چینلز نے اپنے اپنے انداز سے یہ خبر
بریک کی کہ”12سال بعدمصطفی کھرکے بیٹے (بگڑے نواب )بلال کھر کے ہاتھوں
تیزاب سے جھلسنے والی مصطفی کھر کی بہو فاخرہ نے انصاف نہ ملنے پر مایوس
ہوکر خودکشی کرلی“تواِس نیوز کے بعد ہمارے دماغ میں عورت کی عظمت کے بارے
میں بے شمار ایسے حسین اقوال امڈ پڑے ( جنہیں ہم اگلی سطور میں رقم کریں
گے)تو وہیں ہمارے معاشرے میں عورت کی بے توقیری کے واقعات کی خبریں اور
تصاویر بھی ہمارے سامنے تیزی سے آنے لگیں ایسے میں ایک لمحے کو ہم اپنے آپ
کو ایک ایسے ملک اور معاشرے کا فرد تصور کرنے لگے جہاں قانون شکنی کرنے
والے کی عظمت کے چرچے بڑے دھوم دھام سے کئے جاتے ہیں تووہیں جس معاشرے میں
منہ پر جھوٹ اور منافقت کرنے اور اپنے ماتحتوں کو کوڑاکرکٹ سے بھی کم تر
حیثیت دینے والی اپنے ملک کی افسر شاہی کی عیاشیوں اور اِنہیں ملک کے
اٹھارہ کروڑ غریب عوام کے ہاتھوں زبردستی دلائی جانے والی عزت پر بھی رونا
آیا . ... ہمارے معاشرے میں موجود ناسور نما و ہ افسر شاہی جو ہر معاملے
میں اپنے وقار کو ملحوظِ خاطر رکھتی ہے اوریہ اِسے کبھی مجروح ہونے نہیں
دیتی ہمارے ملک کا ایک افسر جوذات کا خواہ کچھ بھی ہومگرجب یہ کسی عہدے پر
فائز ہوجاتاہے تو وہ بعد میں یہ بھی بھول جاتاہے کہ وہ کہاں سے اٹھ کر کہاں
پہنچ گیا ہے مگر وہ اپنی ذات کی خصلت کبھی نہیں پھولتا اور ہر الٹے کام کو
کرنا اپنے لئے باعث فخر محسوس کرتاہے یہی وجہ ہے کہ انگریز نے جب کسی
کواعلی ٰ عہدہ دینے کا قانون بنایاتھا تو اِس میں اِس نے ذات پات اور سماجی
رکھ رکھاؤ کو بھی بڑی اہمیت دی تھی جب تک ایسا ہمارے یہاں ہوتا رہا
توہمارااُمور مملکت بھی ٹھیک طرح سے چلتارہا مگر جب سے ہم نے گورے کے اِس
قانون سے منہ موڑاتب ہی سے ہمارے یہاں ہر طرح کی جس میں کرپشن سمیت اور بھی
بہت سی ایسی سماجی اور اخلاقی برائیاں جڑ پکڑگئیں ہیں جن سے اَب جھٹکارہ
پانا مشکل ہوگیاہے آج ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِسی افسر شاہی کی وجہ سے ملک
میں لاقانونیت ہے کیوں کہ آج کوئی ایسا نہیں ہے کہ جو ملک میں قانون کی
بالادستی قائم کرسکے یاکراسکے تب ہی تو کہاں جاتاہے کہ درخت میں پھل ہمیشہ
اُوپر سے پکتا یا سڑتاہے اور مچھلی سر یا منہ سے سڑتی ہے تو پھر آج اگر
ہمارے معاشرے میں جتنی بھی اخلاقی برائیاں رچ بس گئیں ہیں یہ نیچے سے نہیں
بلکہ اُوپر سے ہی آئیں ہیں پہلے اُوپر والوں کو ٹھیک کیاجائے پھر نیچے والے
خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے وہ نیچے والے جو کرتے توکچھ نہیں ہیں مگر چیختے
زیادہ ہیں اور اُوپر والے بھی اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے اِنہیں
ہی ڈانٹتے ہیں حالانکہ کہ یہ کرتے کچھ نہیں ہیں مگر معاشرے کی ہر برائی کی
جڑ اِن ہی کو ٹھیرادیاجاتاہے۔
بہرحال !ہم بات کررہے ہیں معاشرے میں فاخرہ یونس جیسی مظلوم عورتوں پر
تیزاب پھینکے جانے والے بڑھتے ہوئے واقعات اور عورت کی مظلومیت پر جس کے
لئے آج ہی کیا رہتی دنیاتک جتنا بھی افسوس کیاجائے وہ کم ہے اوراِس کے ساتھ
ساتھ ہم اقوال کی شکل میں عورت کی خوبصورتی بیان کرنے سے پہلے اپنے قارئین
کے لئے عرض کرتے چلیں کہ اپنے ملک میں عورت کی عظمت اور وقار کے بارے میں
پارلیمنٹ سے قانون سازی کے باوجود تیزاب سے جھلسنے والی اپنی قوم کی ایسی
بہت سے معصوم عورتوں کی مظلومیت کی داستانوں پر کروڑوں پاکستانیوں کے د ل
خون کے آنسوؤں رورہے ہیں کہ حکومت الوقت نے قانون سازی کرنے کے باوجود
عورتوں پر تیزاب پھینکنے والے ظالموں کو ایسی سزااَب تک کیوں نہ دی جو
ہمارے معاشرے میں نشان عبرت بن جائیں ۔
قارئین حضرات! توہماراخیال یہ ہے کہ مظلوم فاخرہ یونس جو ہمارے ملک کی
انتہائی بااثر شخصیت مصطفٰی کھر کی بہوہے اورجو اِن کے بیٹے (بگڑے نواب )
اوراپنے شوہر بلال کھر کے ہاتھوں تیزاب پھینکے جانے کے باعث جھلسنے کے بعد
بارہ سال بعد اٹلی میں انصاف نہ ملنے پر مایوس ہوکر خودکشی کرچکی ہے اِس
المنا ک واقعے کے بعد اَب حکومت کو چاہئے کہ پارلیمنٹ سے کی جانے والی
قانون سازی کو جلد عملی جامہ پہنانے کے لئے اِس کی ابتداءمصطفٰی کھرکے
گھرانے سے ہی کردے اور ایساکرنے کے لئے حکومت اپنی تمام ترسیاسی مصالحت
پسندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مصطفٰی کھر کے بیٹے بلال کھر کو اپنی بیوی
فاخرہ یونس پر پہلے تیزاب پلانے میں ناکامی پر اِس کے چہرے پر تیزاب
پھینکنے کے پیش آنے والے واقع پرفاخرہ کو بارہ سال بعد انصاف نہ ملنے پر
مایوسی پر خودکشی کرنے پر ایسی عبرت ناک سزادے کہ یہ ظالم بلال کھر ایک طرف
نشان عبرت بن جائے تو دوسری جانب اپنے بیٹے کی سزاکے بعد مصطفٰی کھر بھی
اپنا سر اُونچاکرکے اور اپنی گردن تان کر یہ کہہ سکیں کہ اِن کے گھرانے، نے
بھی ملک میں قانون کی بالادستی کے لئے اپنا حق اداکردیاہے ۔
اِس سارے منظر اور پس منظر میں مظلوم فاخرہ کے ظالم شوہر بلال کھر کو سزا
دلانے کے بعد حکمرانوں ،سیاستدانوں، قانون کے رکھوالوں، مذہبی و سماجی
تنظیموں اور اہل دانش کا کام یہیں ختم نہیں ہوجاناچاہئے بلکہ ہم سب کی یہ
کوشش بھی ہونی چاہئے کہ ہمیں اپنے معاشرے کے مردوں کے زنگ آلود ذہنوں کو
اپنے اپنے طریقوں سے کھرچ کر اِن میں یہ بات بھی ٹھوسنی ہوگی کہ ”عورت مرد
کی غلام یا پیر کی جوتی نہیں اِس کی سچی ہمدرد، رفیق اور ساتھی ہے جو جلوت
اور خلوت میں اِس سے اظہارِ ُلفت کا دم بھرنا اپنا دین اور دھرم سمجھتی ہے
اور اِسی عورت سے متعلق ایک جرمن کہاوت ہے کہ ”بدمعاشوں اور ذیلوں سے بھی
محبت کرنے والی ہستی خداکے بعد عورت ہے اورازل سے ہی اِس حقیقت پر دنیاقائم
ہے اور رہے گی کہ عورت مرد کا رشتہ ہی انسان کا سب سے پہلا سماجی رشہ ہے
کائنات میں ایک عورت ہی تو ایسا پھول ہے جو اپنی خوشبو سے مرد کے چمنستانِ
حیات کومہکادیتی ہے اِس پر کوئی کچھ بھی کہے مگر یہ حقیقت ہے کہ عورت کے
محبت بھرے دل جو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں ہے اِس سے اچھی چیز
دنیامیں نہیں ہے یعنی اِسی لئے تو کہنے والوں نے یہ تک کہہ دیاہے کہ” عورت
اِس روئے زمین پر بسنے والی ایک ایسی ہستی ہے جو اپنے اند رایسی دلکشی اور
جادو اثرنظم رکھتی ہے جس کے سحر میں کائنات کا ذرہ خود کو پناہ میں محسوس
کرتاہے سقراط نے بھی عورت جیسی خوبصورت ہستی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار
کتنے پیارے انداز سے کردیاہے وہ کہتاہے کہ”ایک طرف مرد آنکھ ہے تو عورت اِس
کی بینائی، مرد پھول ہے تو عورت اِس کی خوشبو“کوپر کا کہناہے کہ ” ساری
دنیاکی بادشاہت مل جائے لیکن ہماری زندگی میں عورت نہ ہوتو ہم بھکاریوں سے
بھی بدتر ہیں“عورت کی عظمت سے متعلق چیکن جیسے ایک مرد کا کہنا ہے کہ”مرد
عورت کے بغیرایسا ہی ہے گویازندگی سانس کے بغیرچشمہ پانی کے بغیراور جسم
روح کے بغیر“مہابھارت کا کہنا ہے ”عورت کائنات کی بیٹی ہے، اِس پر غصہ نہ
کروکیوں کہ اِس کا دل نرم ہوتاہے“اسپنسر نے عورت سے متعلق کہا ہے کہ
”عورتوں کی مسکراہٹ اُن کی مرضی کے تابع تو ضرور ہوتی ہے لیکن آنسوؤں پر
اِن کا کوئی اختیار نہیں ہوتاہے اور اِسی طرح ہیلی برٹن کا کہنا ہے کہ
”عورت زخم معاف کردیتی ہے لیکن خراشوں کو کبھی نہیں بھولتی“اِن تمام خوبیوں
کے باوجود عورت اتنی مظلوم کیوں ہے.....؟؟
یہ بات آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی ہے۔ہم اپنی عورت سے کہیں گے کہ اگر
یہ یوں ہی لاچار اور بے کس و مجبور بنی رہی اور مردوں کے سامنے اپنے شرعی
حقوق کے حصول کے خاطرمقابلے کے نہ نکل کھڑی ہوئی تو ہمارے معاشرے میں موجود
بلال کھر جیسے وحشی مرد اِس پر کبھی تیزاب پھینکیں گے، تو کبھی کاروکاری کی
آڑ میں اِس کو قتل کریں گے، تو کوئی جائیداد ہتھیانے کے چکر میں اِس کی
شادی قرآن تو کبھی کسی مرغے سے ہی کرتے ہیں گے اور کبھی بغیر اِسے بغیر
شادی کے ہی قیدخانوں میں رکھ کر اِسے موت کے منہ میں دھکیل دیں گے ایسے میں
اَب ہمارے ملک کی ہر وہ عورت جوذرابھی دماغ رکھتی ہے وہ قرآن اور سُنت کی
روشنی میں اخلاقی اور معاشرتی طور پر ملنے والے اپنے حقوق کے حصول کے خاطر
اپنے معاشرے کے مردوں سے لڑ ے او راپنے حقوق لے اور مردوں کو مجبورکردے کہ
وہ اِس کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائیں۔ |