پاکستان ۔ حکمرانوں کے ناٹک عوام کی بربادی

پاکستان کی ریاست کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔معیشت کی گراوٹ میں کمی نہیں آرہی جس کے ساتھ ساتھ سماجی ڈھانچہ بھی تکلیف دہ حد تک بوسیدہ ہوتا جا رہا ہے۔بجلی، پانی، گیس، ریلوے، صحت، تعلیم جیسی تمام بنیادی سہولتیں عوام سے چھیننے کا عمل جاری ہے ۔اس بنیادی انفراسٹرکچر کو موجودہ حالت میں قائم رکھنے کے لیے درکار سرمایہ حکومت کے پاس موجود نہیں جس کے باعث ان میں تیز ترین گراوٹ آ رہی ہے اور ان کی خستہ حالی عوام کے لیے اذیت بنتی جا رہی ہے۔اس خستہ حال اور بیمار معیشت میں پاکستان کے وزیر اعظم نے دیامر بھاشا ڈیم کا افتتاح کیا جس کی تعمیر کے لیے 12ارب ڈالر درکار ہیں۔پاکستان کے کل زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت 18ارب ڈالر کے قریب ہیں جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت اس ڈیم کو بنانے میں کتنی سنجیدہ ہے یا یہ کہ اس ڈیم کی تعمیر کبھی مکمل بھی ہو پائے گی یا نہیں۔ ہیلری کلنٹن کے حالیہ دورہ پاکستان میں توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اس ڈیم کے لیے خطیر رقم کا اعلان کرے گی لیکن وہ صرف یہاں کے حکمرانوں اور فوجی جرنیلوں کو ڈانٹ پلا کر واپس چلی گئی۔خود امریکہ اس وقت شدید ترین معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ایسے میں امریکہ سے کسی بڑی امداد کی توقع کرنا ہی بیوقوفی ہے۔اس کے علاوہ اگر کوئی امداد متوقع بھی ہے تو وہ اسلحے اور فوجی ساز و سامان کی صورت میں ہے کیونکہ اس سے خود امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے منافع وابستہ ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ امریکی امداد ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی مالیاتی اداروں کی امداد سے کسی بھی ملک میں کوئی بہتری یا ترقی نہیں ہوئی بلکہ وہاں کا سماجی ڈھانچہ برباد ہوا ہے اور وہاں رہنے والے انسانوں کی اکثریت کی زندگیوں میں تکلیف بڑھی ہے۔پاکستان اپنے جنم کے ساتھ ہی امریکی امداد سے وابستہ ہے اور آج تک اس امداد نے یہاں کے سرمایہ داروں، سیاست دانوں اور جرنیلوں کی جیبیں تو خوب بھری ہیں لیکن محنت کش عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑا ہے۔

چونسٹھ سال کی اس امدادی زندگی کے بعد یہ حالت ہے کہ یہ ریاست اس ملک میں رہنے والے لوگوں کی گنتی بھی کرنے سے قاصر ہے۔ مردم شماری پر شدید اختلافات موجود ہیں اور جو خانہ شماری ہوئی ہے اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔اسی طرح یہاں پر بسنے والے لوگوں کی غربت کا شمار بھی ان حکمرانوں کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ہندوستان کے پلاننگ کمیشن نے غربت کی تعریف یوں کی کہ شہروں میں یومیہ بتیس روپے اور دیہاتوں میں چھبیس روپے کمانے والا شخص غریب نہیں۔غربت کی اتنی تضحیک آمیز تعریف کرنے کے بعد وہاں کے حکمران غربت میں کمی کا واویلا کرنا چاہتے تھے۔

پاکستان میں حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں یہاں غربت کے بارے میں اندازے لگانے کا کام 2000-2001 میں شروع ہوا۔ درحقیقت1999 میں آئی ایم اور ورلڈ بینک نے عالمی سطح پر غربت میں کمی کا ایک پروگرام شروع کیا تھا جس میں تمام ممبر ممالک کو شریک کیا گیا تھا۔اس پروگرام کے آغاز کے بعد سے عالمی سطح پر غربت میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ 2010 کے مشی گن یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق امریکہ جیسے ملک میں بھی 15فیصد لوگ غریب ہیں۔

کسی بھی ملک کی غربت کا شمار کرنے کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ بھی پاکستان میں موجود نہیں اور انتہائی غلط اعداد وشمار پیش کیے جاتے ہیں تاکہ حکمرانوں کی ہوس اور لوٹ مار کو جھوٹے اعداد و شمار کی ملمع کاری میں چھپایا جا سکے۔ 2007-08 کے سروے کے مطابق پاکستان میں 17 فیصد لوگ غریب ہیں جو انتہائی بھونڈا مذاق ہے۔ ان اعداد وشمار کو تخلیق کرنے کے فارمولے بھی ان حکمرانوں کے اپنے ایجاد کردہ ہیں لیکن بحران کی حالت یہ ہے کہ ان فارمولوں میں بھی ہیر پھیر کیا جاتا ہے۔پہلے2550کیلوری روزانہ کھانے والے کو غربت کی لکیر کے اوپررکھا جاتا تھا لیکن پھر یہ حد 2350کیلوری تک گرا دی گئی۔ بحران کی انتہا یہ ہے کہ 2007-08 کے بعد سے اب تک یہ اعداد و شمار پیش کرنے کی جرات ہی نہیں کی گئی جو ان حکمرانو ں کے کھوکھلے پن کا ثبوت ہے۔معیشت کی موجودہ زوال پذیر کیفیت میں جھوٹ بولنا بھی آسان نہیں رہا۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.2ارب ڈالر کی حد تک جا پہنچا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ 597ملین ڈالر تھا۔بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 49فیصد کمی آئی ہے۔ حکمرانوں کی تمام تر نا اہلی اور معاشی بحران کا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں جس طرح اضافہ کیا جا رہا ہے اور ضرورت کی بنیادی اشیا جس طرح عوام کی پہنچ سے دور ہو رہی ہیں اس سے واضح نظر آرہا ہے کہ عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہے۔

معیار زندگی کی گراوٹ کا مطلب جہاں پر یہ ہے کہ محنت کشوں نے اپنی اور اپنے بچوں کی خوراک میں کمی کر دی ہے اور گھر کے بیمار افراد کے علاج کے متعلق سوچنا چھوڑ دیا ہے بلکہ اس عمل سے جو تلخیاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں اوروہ ان انسانوں کے ذہنوں پر جو اثرات مرتب کرتی ہیں وہ انتہائی بھیانک ہیں۔ سماجی پراگندگی ، اخلاقی گراوٹ اور اعصابی تنا میں شدید اضافہ ہوتا ہے اور انسان کی کیفیت زخمی جانور کی سی بن جاتی ہے۔ایک ایسا سماج جہاں خود کش بم دھماکے ، خود کشیاں، گھنانے اور قابل نفرت جرائم روز مرہ کا معمول بن جائیں اس سماج میں زندگی گزارنے والے افراد کو نارمل نہیں کہا جا سکتا۔

لیکن اس سماج پر حکمرانی کرنے والے انسانوں کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جائے جو اس سب کے ذمہ دار ہیں تو انسان کی ذلت کی پستی کا شاید اندازہ لگایا جا سکے۔گدھ کا لفظ شاید ان حکمرانوں کے لیے باعث اعزاز ہو گا، یہ اس سے بھی زیادہ نیچے گرچکے ہیں اور زندہ انسانوں کا گوشت کھا کر، ان کی ہڈیاں چبا کر ،ان کا لہو پی کر جشن مناتے ہیں۔ لاہور میں احتجاج کا ڈرامہ رچا کرمحنت کشوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے۔اس ملک کے محنت کشوں کی خون پسینے کی کمائی کو بے رحمی سے لوٹنے والے احتجاجی جلسہ کر رہے ہیں۔شرم اور غیرت نام کی اقدار ان سیاست دانوں کے لیے تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جہاں سرمایہ داری میں پہلے عزتیں بکتی تھیں، غیرت کا سودا ہوتا تھا اور ضمیر کی خرید و فروخت ہوتی تھی اب اپنی زوال پذیری میں یہاں بے عزتی بھی نیلام ہوتی ہے اوربے غیرتی کی قیمت سب سے زیادہ لگتی ہے ۔جو شخص جتنا رسوا اور جتنا بد عنوان ہو اسے اتنا ہی اونچا عہدہ اور مال و دولت ملتا ہے۔صدر پاکستان سے شروع ہو کروفاقی وزیر داخلہ ، وزیر اعلی پنجاب اور پھر آگے چلتے جائیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی چلی جائے گی۔حد تو یہ ہے کہ کسی عورت کی عصمت دری ہوجائے تو بھی گوشت نوچنے والی این جی اوز وہاں پہنچ جاتی ہیں اور اس گھنانے عمل کی خرید و فروخت میں پیسہ بناتی ہیں۔ میڈیا اس میں دلال کا کردار ادا کرتا ہے۔

اس سماج کی گراوٹ نے یہاں پر موجود سرمایہ داری کے حامی تمام دانشوروں، معیشت دانوں ، تجزیہ نگاروں اور راہنماں کی اصلیت عوام کے سامنے بے نقاب کر دی ہے۔ پہلے مختلف حیلے بہانوں سے عوام کو دھوکے میں رکھا جاتا تھا کہ نئی پالیسیوں سے ایساچمتکار ہو گا کہ سب غربت ، بھوک، بیماری اور جہالت ختم ہو جائے گی اور خوشحالی عوام کے پاؤں چومے گی لیکن ایسا ہونے کی بجائے ان اذیتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور حالت یہ ہے کہ آج سے پہلے کی نسلوں کی زندگیوں کے بارے میں سن کر لوگ حسد کرتے ہیں۔

جس حمام میں سارے ننگے ہوں وہاں سیاست کرنے کے لیے کبھی حقیقی ایشوز نہیں سامنے لائے جاتے بلکہ ایسے نان ایشوز کو ابھارا جاتا ہے جن سے بے غیرتی کی دکانوں کا کاروبار چلتا رہے۔لیکن عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے جس دوا کے منتظر ہیں وہ ان بیوپاریوں کے پاس موجود نہیں۔ایسے میں عمران خان کی شکل میں ایک نئے متبادل کو پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ایک ایسا شخص جس پر ابھی تک حکمرانی کے دھبے نہیں لگے لیکن جس کی تمام پالیسیاں اور نظریات عوام دشمن ہیں۔1968 میں جب محنت کش طبقے نے سوشلزم کے نعرے پر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو اس ملک کی سیاست میں ایک واضح لکیر کھچ گئی۔ایک سیاست حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست تھی جو مختلف مسلم لیگوں اور پیپلز پارٹی مخالف پارٹیوں میں بٹی رہی جبکہ دوسری سیاست محنت کش عوام کی سیاست تھی جس کی بھاری اکثریت پیپلز پارٹی میں موجودرہی۔ عمران خان کی پارٹی بھی انہی مسلم لیگوں کا ایک تسلسل ہے جو مختلف ادوار میں مختلف حروف تہجی استعمال کرتی رہیں۔مسلم لیگ(عمران خان) کی بجائے اس پارٹی کا نام تو تحریک انصاف ہے لیکن اس کا کردار ماضی کی تمام مسلم لیگوں سے مختلف نہیں۔اس نام نہاد شفاف اور با کردار متبادل کی حقیقت وقت کے ساتھ واضح ہوتی جارہی ہے جب گزشتہ حکومتوں میں شامل رہنے والے گدھ اس پارٹی میں جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں اور محنت کشوں کا خون چوسنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی قیادت شہادتوں اور اموات کو اپنے مفادات کے لیے مسلسل استعمال کر رہی ہے۔نصرت بھٹو کی وفات پر پیپلز پارٹی کے بہت سے کارکن غمگین تھے لیکن پارٹی کی قیادت نے اسے بھی اپنے گھنانے مالی و سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا۔

ضیا الحق کی باقیات کا حصہ موجودہ وزیر اعظم نے نصرت بھٹو کی وفات پر تعزیتی پیغام پرویز الہی کے گھر بیٹھ کر دیا۔جس گھر کے افراد نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوانے میں اہم کردار ادار کیا، ضیا دور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر بد ترین تشدد کروایا اور جنہیں بینظیر کا قاتل ٹھہرایا گیا وہی آج نصرت بھٹو کی وفات پر تعزیت کر رہے ہیں اور مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔نصرت بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کا انداز بھی موجودہ قیادت کی طرح ظالمانہ اور حقارت آمیز ہے۔

اس انتقال کے موقع پر بھٹو خاندان کی تیسری نسل سیاست میں داخل ہوتی ہوئی نظر آئی جہاں اس کا آغاز خاندان کی اندرونی کشمکش سے ہوا۔لیکن پیپلز پارٹی کے چوتھے اقتدار نے عوام کی جو درگت بنائی ہے اور ان سے کیے گئے وعدوں کا جو بلاد کار کیا ہے اس کے بعد پیپلز پارٹی پر حاکمیت کے تسلسل کو جاری رکھنا آسان نہیں ہو گا۔معاشی بحران کے باعث عوام کے صبر کا پیمانہ جس نہج تک پہنچ چکا ہے اور سماجی تضادات کی شدت جتنی گہری ہو چکی ہے اس کے بعد پیپلزپارٹی میں اختلافات اور لڑائیاں ابھرنا ناگزیر ہے۔

ذوالفقار مرزاکا واقعہ اس آتش فشاں کی ایک چنگاری ہے ۔ ایسے بہت سے واقعات آنے والے دنوں میں رونما ہونگے جو درحقیقت محنت کش طبقے کی پارٹی کی جانب بیگانگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تضادات کا اظہار ہیں۔پاکستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اسی لڑائی پر ہو گا۔اس لڑائی کی شدت جیسے جیسے بڑھے گی ویسے ویسے پارٹی پر مسلط مختلف شخصیات کے مقف بھی تبدیل ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔زندہ طاقتوں کی اس لڑائی میں نظریات سے عاری افراد محنت کشوں کے جذبات کی حدت میں پگھل کر ختم ہو جائیں گے۔حتمی معرکہ سوشلزم کے نظریات پر ہو گا۔اس نظریے کے مخالفوں کی دنیا میں کوئی کمی نہیں۔لیکن آج دنیا بھر میں ابھرنے والی تحریکیں گواہ ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہو چکا ہے۔آج اس کا واحد متبادل سوشلزم ہے۔ایسے میں سوشلزم کے مخالفوں کی مقدار خواہ کتنی بھی ہو، ان کا حسب نسب چاہے کچھ بھی ہو وہ محنت کشوں کو اس نظام میں مزید عبرت ناک زندگی گزارنے پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ پیپلز پارٹی کے اندر لڑے جانے والے اس حتمی معرکے میں اگر سوشلزم کے حامی انقلابی نظریات سے لیس اور منظم ہوئے اور اپنے سچے نظریات پر تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود ڈٹے رہے تو انہیں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔دنیا کی کوئی فوج، کوئی ریاست ان عوام سے زیادہ طاقتور نہیں ہوتی جو اپنا حق چھیننے کے لیے باہر نکل آئے ہوں۔عرب انقلاب نے ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کیا ہے۔آنے والے عرصے میں دنیا کا کوئی بھی خطہ ایسا نہیں بچے گا جہاں طبقاتی اور استحصالی نظام کے خلاف تحریکیں نہ برپا ہوں۔

پاکستان بھی اسی سیارے پر موجود ہے گو یہاں زندگی کی سسکیاں بہت اونچی ہیں،انسانیت بلک رہی ہے،انسانی اقدار، تہذیب کا جنازہ اٹھ رہا ہے ، پورے کا پورا سماج ایک ابلتی ہوئی دوزخ بن چکا ہے۔لیکن یہ سب ایسے ہی نہیں چلتا رہے گا۔ جہاں موجودہ حکمران سیاست دانوں، جرنیلوں، ججوں،ملاں، جھوٹے اورمکار دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی شکل میں وقت نے انسان کی ذلت کی انتہا دیکھی ہے وہاں وقت اور تاریخ ایک دوسری انتہا بھی دیکھیں گے۔انسان کی عظمت کی انتہا۔ایسے انسان جو دکھ ، تکلیف اور زخموں سے چور ہونے کے باوجود اس سماج کو ان ذلتوں سے چھٹکارا دلائیں گے ، اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کریں گے اور یہاں ایک غریب اتحاد انقلاب برپا کریں گے۔
Ahmed Ali
About the Author: Ahmed Ali Read More Articles by Ahmed Ali: 3 Articles with 2014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.