سندھ سے سابق امیدوار اسمبلی
وحیدہ شاہ کے عبرتناک انجام کے باوجود کوٹلی سے رکن اسمبلی سابق سنئیر وزیر
اور سنئیر سیاست دان ملک محمد نواز نے گزشتہ دنوں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی
موجودگی میں محکمے کے ہیڈ کلرک پر تشدد کیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں
دیں۔موصوف اچھی طرح جانتے ہیں کہ محکموں میں تقرریاں اور تبادلے وزراءکے
احکامات پر کیے جاتے ہیں اور ان پر عملدرآمد سنئیر افسران نے ہی کرنے ہوتے
ہیں لیکن ملک صاحب نے اپنا غصہ ایک غریب ہیڈ کلرک پر اتارا۔یہ دراصل ڈسٹرکٹ
ایجوکیشن آفیسر کے لیے ان کا پیغام تھا کہ اگلی بار یہ ہاتھ کہاں تک جائے
گا۔ ایک رکن اسمبلی نے علاقے کے معززین کے ہمراہ سرکاری دفتر میں ننگی
جارحیت کا مظاہرہ کرکے اپنی بہادری اور عوام دوستی کا ثبوت دیا۔ان کا فرمان
تھا کہ میں حلقے کا ایم ایل اے ہوں اور میری مرضی کے بغیر کوئی تقرری اور
تبادلہ نہیں ہو سکتا۔اگر تقرریاں اور تبادلے ملک صاحب کے دور حکومت میں
ہوئے تو درست تھے اور آج بھی اگر ان کی مرضی شامل کرلی جاتی تو انہیں کوئی
اعتراض نہیں تھا۔ انہیں غصہ تو یہ بھی ہے کہ وہ پی پی پی حکومت کے اتحادی
ہیں اور اس کے باوجود انہیں شامل مشورہ نہیں کیا جاتا۔ اس پر انہیں احتجاج
تو سردار عتیق سے کرنا چاہیے تھا کہ یہ کیسی مفاہمت ہے کہ ایک معمولی دفتر
میں بھی ان کی نہیں سنی جاتی۔ ملک صاحب کی دست درازی اس بات کا کافی ثبوت
ہے کہ قانون ان کی نظر میں کیا حیثیت رکھتا ہے اور اہل کوٹلی اچھی طرح
جانتے ہیں کہ وہ اپنے دور حکومت میں قانون کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق انہوں نے سالارشریف سے لاٹھی لے کرہیڈ کلرک پر
برسائی، سالار صاحب تو ویسے ہی لٹھ بردار مشہور تھے۔ کنٹرول لائن کے آس پاس
ان کی ایسی ہی حکمرانی ہے جیسی ملک صاحب کی کوٹلی شہر میں ہے۔ ان دونوں کی
نظر میں قانون، میرٹ اور انصاف وہی ہے جو وہ چاہیے اور جو کچھ ان کی مرضی
اور منشا ءکے خلاف ہو وہ غیر قانونی ہے۔ تقرریاں تو ویسے بھی آزادکشمیر میں
بڑا نفع بخش کاروبار ہے، جس میں عام سیاسی کارکن سے ریاستی قائدین تک سب
ملوث رہے ہیں۔ کوٹلی میں گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں ایک بڑی تبدیلی آئی
ہے، جس نے ماضی کے شہنشاہوں کے محلات کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ تبدیلی ملک
صاحب کو ہضم نہیں ہو رہی، حالانکہ یہ راجہ نصیر جیسے منہ زور اور سردار
سکندر جیسے جد پشتی شہنشاہ کے لیے بھی ناقابل برداشت ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ خفیہ
ہاتھوں کے ذریعے عوامی رائے کو بلڈوز کرتے رہے ہیں۔ اب کی بار خفیہ والوں
نے آنکھیں پھیر لیں تو عوام نے اپنا فیصلہ سنایا۔ شہنشاہ معظم نے تو لگے
ہاتھوں نکیال انتظامی اور عدالتی افسران پر قانون نافذ کیا پھر سرکاری
عمارتوںپر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ان کا بس چلتا تو وہ پورے ضلع میں
کاروبار زندگی معطل کر دیتے بلکہ نا ممکن بنا دیتے لیکن عوامی قوت نے انہیں
بے بس کر دیا۔ ملک نواز کو تو بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا شکرگزار ہونا
چاہیے کہ ان کے حسن انتخاب کی وجہ سے وہ اپنی سیٹ نکال گئے ورنہ کوٹلی کے
عوام کا فیصلہ تو درو دیوار پر لکھا جا چکا تھا۔سلطان محمود کی انا پرستی
نے ملک صاحب کے لیے راستہ بنا دیاپھر سردار عتیق نے پی پی پی کے ساتھ
مفاہمت کرکے ملک صاحب مزید طاقتور بنایا لیکن وہ ماضی کی طرح خود کو اب بھی
بادشاہ وقت ہی تصور کرتے ہیں، حالانکہ وقت بڑی تیزی سے سفر کر چکا ہے۔
قانون کو ہاتھ میں لینا تو ہمارے معاشرے میں بہت معمولی بات ہے۔ عوام تو
ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو وزارت کے قلم دان سنبھال کر ، اسمبلی
اور وزارت اور قانون اور قواعد کی پابندی کے حلف پڑھ کر صبح شام قانون کا
خون کرتے ہوں۔ قانون کی پاسداری کرنے والے کو ڈرپوک اور قانون شکن کو بہادر
کہا جاتاہے۔دوسرے آزادکشمیر میں بدترین معاملہ یہ ہے کہ ہر ممبر اسمبلی
اپنے حلقہ انتخاب کا وزیراعظم قرار پاتا ہے اور اس کے حلقے کے تمام محکمے
اس کی دسترس میں ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے قانون کی حکمرانی نام کی کوئی شے
ہمارے ہاں موجود نہیں۔ قانون صرف رشوت کا ریٹ بڑھانے ، غریب کا گلا کاٹنے
اور اسے سالوں تک دفتروں اور عدالتوں کے طواف کروانے کے لیے کتابوں میں
لکھا گیا ہے۔ ممبران قانون ساز اسمبلی، وزراءکرام اور مشیران عظام کسی بھی
طرح کے قانون اور قاعدے کی پابندی سے بالا تر قرار پاتے ہیں۔ حلف پڑھ کر اس
کا مذاق اڑانا ہمارے کلچر کا پہلا باب ہے۔ یہ جس کے حضور حلف پڑھتے ہیں،
اسے اتنا طاقتور نہیں سمجھتے کہ وہ کوئی گرفت کر سکے۔ انہیں کون بتلائے کہ
یہ تو چند لمحوں کی ڈھیل ہے اور جب پکڑ شروع ہوئی تو پھر ایک، ایک پائی،
ایک ایک فیصلہ اور ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائے گا۔
قانون کہاں ہے.... قانون موجود ہوتا تو ملک صاحب کو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس کے
اندر ہی ہتھکڑی لگ جاتی، وہ کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری اہل کار پر
تشدد کے دفعات میں جیل جاتے اور عدالت میں ان جرائم کا سامنا کرتے لیکن
ہماری ریاست میں قانون کہیں بھی نہیں، اسی لیے وہ حرکت میں نہیں آیا۔ گزشتہ
سال سردار عتیق کے صاحبزادے شراب کے نشے میں دہت کشمیر ہاؤس میں گھس آئے
اور بعض اخباری اطلاعات کے مطابق وہ وزیر اعظم کے بیڈ روم تک پہنچ گئے تھے
لیکن قانون کہیں نظر نہیں آیا۔ ہاں قانون حرکت میں آیا اور پولیس اہل کاروں
کو معطل کیا گیا کہ یہ دہشت گرد کیسے اندر داخل ہوا۔ وہ غریب اگر اس کو
کشمیر ہاؤس میں داخل ہونے سے روکتے تو نوکری چلی جاتی۔ یہ ہے قانون اور اس
کی عمل داری۔
اس کارنامے پر ملک نواز کو مبارک باد ہی دی جاسکتی ہے جنھوں نے یہ ثابت کر
دیا ہے کہ آزادکشمیر میں کوئی قانون نہیں اور اگر کتابوں میں کچھ لکھا ہوا
ہے تو موجودہ حکومت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ کشمیر ہاوس سے کوٹلی شہر تک
کسی ایک انچ پر اس کو نافذ کر دیں۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ممبران
اسمبلی کسی قانون کو قاعدے کے پابند نہیں۔ یہ دونوں اقدامات آزادکشمیر
قانون ساز اسمبلی اور حکومت کے جواز کے نفی کرتے ہیں۔میں تو ایک عرصے سے
عرض کر رہا ہوں کہ یہ اسمبلی ، وزارت اور حکمران عوام پر بوجھ ہیں۔ اگر
بریگیڈیر محمد حیات خان مرحوم تین مشیروں کے ساتھ ریاست کا نظم و نسق چلا
سکتے ہیں تو ایک تجربہ کار کمشنر بخوبی نو ڈپٹی کمشنروں سے موجودہ ریاستی
ڈھانچے کو چلا لیں گے۔ موجودہ نظام تو عوام کی دولت پر قانون شکن پیدا کرنے
اور ان کی سرکاری خرچے پر پرورش کرنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے، اسے ختم ہو جانا
چاہیے، کل نہیں بلکہ آج ہی اس پورے فرسودہ، جاہلانہ اور سفاکانہ نظام کا
خاتمہ ہونا چاہیے۔ آزادکشمیر کا ہر شہری اس نظام سے نفرت کرتا ہے۔ آج
ممبران اسمبلی قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں، کچھ قلم کے ذریعے قانون شکنی
کرتے ہیں اور کچھ سالار شریف کی لاٹھی کے ذریعے قانون درست کرتے ہیں، انہیں
یاد رکھنا چاہیے کہ جلد عوام بھی اپنے قائدین کی اطاعت کرتے ہوئے تقرریوں،
تبادلوں، بجلی کے بلوں، زمین کے فردوں، نقلوں اور زکواة کے لیے لاٹھیوں ،
گھونسوں اور لاتوں کا استعمال کریں گے۔ پھر اسے کوئی قانون شکنی قرار نہ
دے۔ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے قانون کی حکمرانی کے دعوے کرنے کے
بجائے عملداری قائم کرنی چاہیے وگرنہ آزادکشمیر میں نہ لاٹھیوں کی کمی ہے
اور نہ جرات کی۔میں ملک نواز کا شکر گزار ہو ں کہ جنھوں نے میرے دیرینہ
موقف کو درست ثابت کر دیا ہے قانون صرف غریب کو لوٹنے کے لیے ہی نافذ ہوتا
ہے، بالا دست طبقہ کسی قانون کا پا بند نہیں۔ وہ ہندو، عیسائی اور یہودی
ہیں جو قانون شکنی پر رضاکارانہ خود کو قانون کے حوالے کرتے ہیں۔ ہم نے تو
حلف اٹھا رکھا ہے .... کس ہستی کے سامنے! جو قادر مطلق ہے.... عوام تو بے
بس ہیں، قادر مطلق کی گرفت کو آواز دینے والے.... اس کاانتظار کریں۔ |