احتجاج بجا....! لیکن طریقہ کیا ہو؟

بجلی و گیس کی طویل لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے طوفان نے لوگوں کی زندگیاں دوبھر کررکھی ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں بیس بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور تین دن تک سی این جی کی بندش نے عوام کا رہا سہا صبربھی ختم کردیا ہے، سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام لوڈ شیڈنگ کے خلاف اسلام آباد کی طرف مارچ کریں تو وہ اس کی قیادت کریں گے۔ پہلے بات کرلیں لوڈ شیڈنگ کے خلاف بے ہنگم اور مادر پدر آزاد احتجاج کی۔ کسی زیادتی پر احتجاج کسی بھی معاشرے کے زندہ ہونے کی نشانی ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں مظاہرے، جلسے اور ریلیوں کے ذریعہ احتجاج ریکارڈ کرائے جاتے ہیں لیکن زندہ اور باشعور معاشروں میں نہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور نہ ذاتی املاک کو۔ پاکستان کی صورتحال کافی حد تک مختلف ہے، یہاں شعور کی بھی کمی ہے اور ادراک کی بھی، بے حسی اتنی زیادہ ہے کہ ضروریات زندگی کی اشیاءکی قیمتیں بھلے آسمان سے باتیں کریں لیکن ہم لوگ وہی مہنگی چیز ہی خریدتے ہیں، کبھی یہ نہیں ہوا کہ اس کا نعم البدل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہو یا اس مہنگی چیز کے بغیر رہنے کی کوشش کی جائے، سرکاری افسران و ملازمین ان مہنگی اشیاءکے حصول کے لئے رشوت لینا شروع کردیتے ہیں، جو پہلے ہی لے رہے ہوتے ہیں وہ اس کا ریٹ بڑھا دیتے ہیں، نوکری پیشہ لوگ دو دو، تین تین نوکریاں کرتے ہیں، کولہو کے بیل بن جاتے ہیں تاکہ آمدن زیادہ ہوجائے اور مہنگی ترین اشیاءبآسانی دستیاب ہوسکیں، مل مالکان، صنعت کار اور تاجر حضرات اپنا مارجن بڑھا لیتے ہیں لیکن آج تک شائد ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ ان چیزوں کا استعمال ترک کیا گیا ہو جن کے حصول نے زندگی کو اجیرن کرکے رکھ دیا ہوتا ہے۔ میانہ روی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں۔ بحیثیت قوم ہمیں وہ چیزیں پسند بھی زیادہ ہیں جو امپورٹڈ اور مہنگی ہوں، پاکستان میڈ اشیاءسے ہم ویسے ہی الرجک ہیں اور دور بھاگتے ہیں۔ یہ تو ہے عوام کا عمومی رویہ، جہاں تک تعلق ہے حکومتی روئے کا تو وہ اس سے بھی چند قدم آگے ہے۔ ہمارے بڑوں نے سمجھ بوجھ ہونے کے باوجود آج تک صرف سیاست سیاست اور سازش سازش کھیلا ہے، سیاستدان تو اس کھیل کے کھلاڑی ہوتے ہیں ہیں لیکن جتنے فوجی آمر حکومت میں آئے انہوں نے بھی اسی کھیل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ کس کو نہیں معلوم کہ پانی زندگی ہے، کس کو احساس نہیں کہ مستقبل میں جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ معاشی معاملات کے ذریعہ لڑی جائیں گی۔ اگر ایک ملک کا معاشی انحصاراس کی زراعت پر ہو اور ٹیوب ویل اور دیگر زرعی آلات کے لئے بجلی درکار ہو، فصلوں کے لئے پانی ناگذیر ہو، اگر اس کی صنعتوں کا دار و مدار بھی بجلی اور گیس پر ہو، گاڑیاں دھڑا دھڑ سی این جی پر کنورٹ کی جارہی ہوں یہاں تک کہ بسوں، ویگنوں اور ٹرکوں تک میں سی این جی استعمال ہو رہی ہو اور اس کے باوجود نہ تو کوئی ڈیم بنایا جائے اور نہ انرجی کے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں تو اس کو آپ ایک منظم سازش کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں؟یہ سیاست نہیں بلکہ ایک سازش ہے جس میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پورے ملک کے عوام کو دھکیلا گیا اور آج بھی دھکیلا جارہا ہے۔

کیا اس سازش میں صرف حکومت وقت شامل ہے یا کچھ اور لوگ بھی ہیں، پنجاب کی صنعتوں اور پنجاب کے پہیہ کو زیادہ جام کرنے میں کیا ”حکمت“ کار فرما ہے؟ اس سے ملتے جلتے اور بھی بہت سے سوال ہیں جن کا جواب کوئی دینا پسند نہیں کرتا۔ لوڈ شیڈنگ کے خلاف زیادہ احتجاجی مظاہرے بھی پنجاب میں کئے جارہے ہیں جن میں اب کراچی کی طرز پر واضح تشدد کے اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ ابھی گذشتہ روز ان مظاہروں میں جب مظاہرین ایک پٹرول پمپ کو جلانے کے لئے آگے بڑھے تو اس پمپ کے گارڈ نے مجبوراً گولی چلادی کیونکہ اس کی ڈیوٹی ہی یہی تھی کہ وہ اس پمپ کی حفاظت کرے، جس کے نتیجے میں ایک نوجوان ہلاک ہوگیا اور پٹرول پمپ بھی جل کر خاکستر ہوگیا۔گاڑیوں کو جلائے جانے، قومی و ذاتی املاک کو نقصان پہنچانے والے مظاہروں کی خبریں ایک تواتر کے ساتھ آرہی ہیں۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ مسلم لیگ (ن) نے اس وقت حکومت سے لوڈ شیڈنگ کے بارے میں بات کیوں نہ کی جب اٹھارویں ترمیم پاس کی جارہی تھی کہ جس کے تحت مسلم لیگ نے صرف ایک مطالبہ منوایا کہ تیسری بار وزیر اعظم بننے پرسے پابندی ہٹا لی جائے، اسی ترمیم کے نتیجہ میں صوبوں کے وسائل پر ان کا حق فائق سمجھا گیا، بے شک ایسا ہونا چاہئے تھا لیکن اس کو اس وقت تک موخر کرلیا جاتا جب تک صوبے کم از کم بجلی اور گیس کے متبادل ذخائر اور انتظامات نہ کرلیتے، چند سال مزید بھی اگر پچھلا سیٹ اپ رہ جاتا تو کوئی حرج نہ ہوتا، کم از کم پنجاب کے لوگوں کا احساس محرومی تو اتنا نہ بڑھتا کہ صرف ان کی صنعتوں اور ان کے پہیوں کو ”ٹارگٹ“ کیا جاتا۔ انیسویں اور بیسویں ترمیم کے وقت بھی ”اپوزیشن“ نے صرف ذاتی مفادات پر توجہ دی، عوام کی حالت زار بارے کسی نے سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی البتہ جب ووٹ بنک کو ”نقصان“ پہنچنے کا احتمال و اندیشہ سامنے آتا ہے تو عوام کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے بلکہ قیادت کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوا اور آئندہ بھی ایسا ہی ہونے کا قوی امکان ہے جب تک کہ یہ حکومت اپنی میعاد پوری نہیں کرلیتی۔ ”گو زرداری گو“، ”کم کم“ کی باتیں اور حکومت مخالف بیانات سب ٹوپی ڈرامہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عوام کی نظر میں مو جودہ حکومت ہو یا سابقہ حکومتیں، موجودہ اپوزیشن ہو یا ماضی کی اسمبلیوں کی حزب مخالف جماعتیں سب کی سب موجودہ لوڈ شیڈنگ کی برابر کی ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے ابھی تک صرف ”بندر بانٹ“ کے اصولوں پر عمل کیا ہے ، ”اصولوں پر سمجھوتہ“ نہ کرنے کا نعرہ لگاکر۔اس سے پہلے وزیر ”رینٹل“ اس قوم کے ساتھ جو کچھ کرچکے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، کرپشن جو تمام مسائل کی اصل جڑ ہے، عوام اس کو کچھ سمجھتے ہی نہیں، نہ ہی اس کے خلاف احتجاج کرنے کو تیار و آمادہ نظر آتے ہیں۔

عوام کو بلاشبہ اپنے حقوق اور اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں پر آواز بلند کرنی چاہئے، احتجاج کرنا چاہئے لیکن اس کا جو طریقہ اس وقت رائج ہوچکا ہے وہ قطعاً مناسب نہیں۔ حکومت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا کہ کس جگہ احتجاج میں کتنی سرکاری و پرائیویٹ املاک کو نقصان پہنچا اور کتنی جانیں ضائع ہوگئیں، محکمہ بجلی اور دیگر سرکاری دفاتر ریکارڈ سمیت جلانے اور لوٹ کھسوٹ کرنے سے بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور نہ ہی ایسا مستقبل میں نظر آتا ہے۔اگر موثر احتجاج کرنا ہے تو عوام کو ہم آواز ہوکر، ان لوگوں کے خلاف احتجاج کرنا چاہئے جو پالیسیاں بناتے ہیں، جن کو عوام چن کر، اپنے نمائندوں کے طور پر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر اگر کوئی کرنا چاہے تو جب بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو تو اس وقت ایوان صدر، وزیر اعظم ہاﺅس، گورنر ہاﺅس اور وزیر اعلیٰ ہاﺅس کی بجلی بھی بند ہونی چاہئے، اگر نہ ہو اور یقینا نہیں ہوگی تو عوام کو اس کے خلاف نکلنا چاہئے، اگر گرڈ سٹیشن اور واپڈا کے دفاتر جلائے جاسکتے ہیں تو بزور مذکورہ بالا ”گھروں“ کی بجلی بھی بند کی جاسکتی ہے، اگر احتجاجی مظاہرین ایسا کرسکیں تو مجھے یقین ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو بھی سمجھ آجائے گی کہ اب ہمارے عوام بھیڑ بکریاں نہیں بلکہ انسان ہیں، ہمارے جیسے انسان، باشعور انسان، فہم و ادراک رکھنے والے انسان! اور یقین جانئے کہ جب ان حکومتی امراءو زعماءکو یہ علم ہوگیا کہ اب ہمارا واسطہ ہمارے جیسے انسانوں سے ہے، اس دن ان کی پالیسیاں ٹھیک ہونا شروع ہوجائیں گی۔احتجاج نظم و ضبط اور اچھے طریقہ سے کیا جائے تو اپنا اثر بھی رکھتا ہے اور اخلاقی برتری بھی لیکن اگر اس سے کام نہیں چلتا تو عام لوگوں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کی بجائے اپنے غصے کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا جانا از حد ضروری ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس طرح تریسٹھ سال صبر کیا ہے اور جس طرح موجودہ حکومت کو چار سال برداشت کیا ہے، ایک سال اور صبرو برداشت سے کام لے لیا جائے اور اپنے ووٹ کے ذریعہ سے ایک ہی بار ان ظالموں سے انتقام لے لیا جائے کہ یہی لوگ کہتے ہیں ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“، حکومت اور ”دوستانہ“اپوزیشن اس وقت باہم اشتراک سے عوام کو ”بہترین جمہوری انتقام“ کا نشانہ بنا رہے ہیں، عوام اس انتقام کو اس حکومت اور اس کے اتحادیوں و ”فرینڈلی“ مخالفوں کے لئے ”بدترین“ انتقام میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے۔بس حوصلے، ہمت، سوچ اور لگن کی ضرورت ہے، منزل دور نہیں، ہرگز دور نہیں....!

آخرمیں ایک چھوٹا سا واقعہ ”شیئر“ کرنا چاہتا ہوں۔ گذشتہ روز میں لاہور کی ملتان روڈ پر محو سفر تھا کہ اچانک کچھ نوجوانوں نے ٹریفک روکنا شروع کردی، میری گاڑی شائد آخری گاڑی تھی جو ان کی جانب سے ٹریفک روکنے سے پہلے نکل گئی، میں نے ایک محفوظ جگہ گاڑی پارک کی اور وہاں واپس پہنچ گیا۔ وہ نوجوان ٹریفک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر اسے روک چکے تھے اور ٹائر جلانے کا انتظام کررہے تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے کس بات پر اتنے غصے میں ہو، کہنے لگا پچھلے سات گھنٹوں سے بجلی بند ہے، میں نے کہا کہ یہ تو سب لوگ بھی آپکی طرح لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے ہیں، انہوں نے تو بجلی بند کروانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، پہلے تو بات ان کی سمجھ میں نہ آئی پھران میں سے ایک کہنے لگا آپ پرے ہوجائیں ورنہ آپکی گاڑی بھی جلا دیں گے، یہ سننا تھا کہ جس آدمی کی گاڑی کے آگے کھڑا ہوکر میں بات کررہا تھا، وہ تڑپ کر گاڑی سے باہر نکلا اور اس کے آگے کھڑا ہوگیا، میں بھی تھوڑا سا گھبرایا ضرور لیکن پھر ہمت کی اور اسے کہا کہ بھائی یہ جو پیچھے ٹریفک کی اتنی بڑی لائن لگ گئی ہے اس میں کوئی مریض بھی ہوسکتا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے بچے کو، بیٹی کو اکیڈمی سے لینے جارہا ہو، کوئی ہسپتال بلڈ کا انتظام کرنے جارہا ہو، اگر کسی کو بھی کچھ ہوگیا تو قیامت والے دن تم بھی ذمہ داروں میں شامل ہوجاﺅ گے، وہ میری نصیحتوں سے بے نیاز ٹائروں کو ترتیب دینے اور ٹریفک کو روکے رکھنے میں جتا رہا، جب میں نے کچھ زیادہ ہی شور و غوغا کیا تو اس نے اپنے لیڈر کو بلا لیا، اسے دیکھتے ہی یوں لگا کہ ابھی مجھ سے میرا موبائل اور پرس نکلوا لے گا، وہ مجھ سے بولا باﺅ جی! کیوں پریشان کررہے ہو بچے کو، اب یہ ٹریفک تب تک نہیں کھلے گی جب تک لائٹ نہیں آجاتی، اگر زیادہ بولے تو آپکی گاڑی کی خیر نہیں، وہ بھی اسے میری گاڑی سمجھ رہا تھا، یہ سن کر گاڑی والے صاحب نے میرے آگے ہاتھ جوڑ دئے اور کہنے لگا یار آپ کہاں سے خدائی فوجدار بن کر آگئے ہیں، آپ جائیں، مجھے کوئی جلدی نہیں، جب یہ لوگ احتجاج کرلیں گے تو میں چلا جاﺅں گا، ویسے بھی گھر پر کونسی بجلی آرہی ہوگی جو مجھے جانے کی جلدی ہے، میں دیکھ رہا تھا کہ اس کی گاڑی میں چھوٹے چھوٹے بچے شور بھی کررہے تھے اور بے چین بھی ہورہے تھے لیکن ظاہر ہے گاڑی تو ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے۔ میں وہاں سے ہٹ کر تھوڑا پرے، ان احتجاجیوں کے ایک اور لیڈر کے پاس چلا گیا جو سگریٹ کے ساتھ ٹائروں کو بھی آگ دکھا چکا تھا، اس سے بھی ویسی ہی باتیں ہوئیں لیکن لاحاصل، وہاں سے میں ہجوم میں سے راستہ بناکر اپنی گاڑی تک پہنچنے کی تگ و دو میں تھا کہ اچانک ایک آواز نے میرے قدم روک لئے، اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر میں تھوڑا نزدیک ہوگیا، سوچوں کو چھوڑ کر سننے کی طرف توجہ دی کیونکہ بات ہی بہت ڈرادینے والی تھی، پہلی آواز یہ کہہ رہی تھی کہ یار کل ایک جگہ میں ایسے ہی جلوس میں شامل ہو گیا تھا جہاں گاڑیاں کھڑی تھیں، ہم نے انہیں بھی آگ لگا دی، میں نے ایک گاڑی کا شیشہ بھی توڑ دیا تھا جس میں سے مجھے ایک لیپ ٹاپ بھی ملا، ایک اور گاڑی کو ایک لڑکی چلارہی تھی، وہ پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھی اور جب میں نے اچانک اس کا دروازہ کھول کر اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کی تو وہ سمجھو بیہوش ہی ہوگئی، میں نے اس کا پرس بھی لے لیا اور موبائل بھی، دوسری آواز کہنے لگی کہ پھر ایسا کرتے ہیں کسی اور علاقے میں چلتے ہیں یہ تو غریبوں کا علاقہ ہے، کسی امیر جگہ چلتے ہیں، یہاں کی عورتیں گاڑیاں بھی نہیں چلاتیں....! میں نے تھوڑا اور نزدیک ہونے کی کوشش کی تو لوگوں کے رش کی وجہ سے ناکام رہا، وہ شائد بعد میں کچھ اور بھی بول رہے تھے لیکن میرے کانوں میں ”گھوں گھوں“ کی زوردار آوازیں آرہی تھیں، مجھے نہیں پتہ میں کیسے اپنی گاڑی تک پہنچا اور کیسے گھر تک!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207485 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.