unoتو ہر دور میں امریکہ اور
ویٹو کے غیر منصفانہ ہتھیاروں سے مسلح بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرتی
آرہی ہے تاہم دنیا بھر میں امریکن کورٹس کو انصاف پروری کے حوالے سے رول
ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس امر میں بھی کسی شک و شبے کی
گنجائش نہیں کہ امریکی عدالتوں کی تاریخ میں درجنوں ایسے تاریخ ساز فیصلے
رقم ہیں جنہوں نے انسانیت کا سر فخر سے بلند کردیا مگر اب لگتا ہے کہ
امریکی آئین بصیرت و بصارت سے محروم ہو چکا ہے کیا امریکی سپریم کورٹ میں
دراز ججز اندھے پن کا شکار ہیں؟ کیا ہماری طرح وہاں بھی پس چلمن پینٹاگون
کے جرنیل بید گھماتے ہیں؟ ریگن دور میں ہونے والے ایک سروے میں پوچھا گیا
تھا کہ امریکہ کس طرح سپرپاور بنا؟ اسی فیصد امریکیوں نے جسٹس کے حق میں
رائے دی ۔ امریکیوں کا ماننا تھا کہ انکی عدالتوں نے نہ صرف اندرون ملک
انصاف کا ڈنکا بجایا بلکہ بیرونی مقدمات میں بھی انصاف کو اولیت اور فوقیت
عطا کی مگر دور حالیہ میں امریکی قوم کی رائے دم توڑ چکی ہے ۔ امریکہ میں
نو دو گیارہ کے بعد سے آج تک مسلسل آئین و قانون شکنی کے لاتعداد واقعات
منظر عام پر آچکے ہیں مگر امریکی قوم عدلیہ قانون اور آئین نے چپ کا روزہ
رکھا ہوا ہے۔ بش جونیر نے نو دوگیارہ کے بعد صہیونیوں کی دلجوئی مڈل ایسٹ
میں اسرائیل کی چوہدراہٹ اور خلیج اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے معدنی
سمندروں تک رسائی کی خاطر افغانستان اور عراق پر سفاکانہ جنگ مسلط کردی۔بش
اور مغربی زرائع ابلاغ نےpre emptive نظرئیے کو خوب اچھالا یعنی پیشگی حملہ۔
یہ نظریہ نہ صرف عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی بلکہ اسکا فلسفہ
امریکی آئین کے متصادم تھا۔ امریکہ اور اسرائیل آجکل ایران پر حملے کے لئے
پر تول رہے ہیں۔یہ دھمکیاں بھی امریکی ائین کی توہین کے مترادف ہیں مگر
کوئی اسکی طرف اشارہ کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ امریکی تجزیہ نگار بروس ایکر
مین نے لاس اینجلس ٹائمز میں شائع ہونے والے آرٹیکل> ایران پر حملے کے
قانونی پہلو< میں قانونی شقوں پر خامہ فرسائی کی اگر امریکہ یا اسرائیل نے
تہران پر شب خون مارا تو ایک طرف یہ حملہ عالمی قوانین کے برعکس ہوگا تو
دوسری جانب ایسی جارحیت امریکی آئین کی تکذیب کا سبب بنے گی۔ امریکی آئین
کے آرٹیکلii کی رو سے صدر کی آئینی زمہ داری ہے کہ وہ ائین کی تمام شقوں کا
تحفظ کرے ۔ امریکی ائین کی شق نمبرvi عالمی برادری کے معاہدوں کا احاطہ
کرتی ہے۔اسی شق نے صدر اور امریکی حکومت کوعالمی معاہدوں کی پاسداری کرنے
کا پابند بنایا ہے ۔امریکی سینٹ نے1948 میں عمیق نظری سےuno کا چارٹر برائے
دفاعی اور جنگی امور مرتب کیا تھا جس میں پیشگی حملے کا کوئی تصور تک موجود
نہیں۔چارٹر کے مطابق امریکہ اس وقت فوجی ایکشن کرے گا جب کوئی بیرونی فوج
یا طاقت امریکہ پر حملہ اور ہوگی۔ اسرائیل نے اسی کی دہائی میں عراق کے
ایٹمی پروگرام پر حملہ کرے اسے راکھ بنادیا تھا۔uno عراق کے جوہری پلانٹ پر
اسرائیلی استبدادیت ڈھانے پر سیخ پا تھی۔ سلامتی کونسل نے اسرائیلی حملے کی
شدید مذمت کی تھی۔ امریکہ مذمت کرنے والوں میں پیش پیش تھا۔ انگلش پرائم
منسٹر تھیچر نے کھلے بندوں مذمت کرتے ہوئے کہا تھا ایسی جارحیت کسی صورت
میں قابل قبول نہیں کیونکہ عالمی قوانین ایسے ہتھکنڈوں کی اجازت نہیں دیتے۔
امریکی وزیرخارجہ ڈینیل نے1837 میں بش جونیر کے پیشگی حملے کی گردان کی
مخالفت کی تھی۔ کالونیل دور میں کنیڈا میں برطانیہ کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی۔
امریکہ باغیوں کا پشت بان بنا ہوا تھا۔ برطانیہ نے کنیڈا کے باغیوں کی
معاونت کرنے کے جرم میں نیویارک پر حملہ کردیا جس میں امریکی جہاز ایس ایس
کیرولینا آگ کے سپرد ہوا۔1882 میں برطانیہ اور امریکہ کے مابین پیشگی حملے
نہ کرنے کا معاہدہ ہوگیا جو آجکل بین الاقوامی قوانین کا حصہ ہیں۔20 ویں
صدی میں عالمی عدالت انصاف میں امریکہ کی کوششوں سے نازی فوجیوں کے جنگی
جرائم کے خلاف مقدمہ دائر ہوا جسے تاریخ نیور مبرگ کے نام سے یاد کرتی
ہے۔نازیوں پر لاکھوں انسانوں کے قتل عام کا الزام تھا۔ کیوبا کی جنگ پر
نظریں گھمائی جائیں تو امریکہ تب بھی پیشگی حملے کا مخالف تھا۔ سوویت یونین
نے کیوبا میں میزائل نصب کئے تو امریکہ میں لال بتی روشن ہوگئی۔کیوبا کسی
وقت حملہ کرکے امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجاسکتا تھا تاہم امریکی صدر جان ایف
کینڈی نے صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑا اور پیشگی حملے کے امکانات کو مسترد
کرڈالا۔ بش نے دروغ گوئی بنیاد پر قائم کئے جانیوالے خدشات کی آڑ میں عراق
پر حملہ کردیا۔ صدام حسین پر کیمیائی ہتھیاروں کاالزام تھوپا گیا مگرسچ تو
یہ ہے کہ اج تک امریکہ اور ایٹمی توانائی کمیشن کے معائنہ کار کیمیائی
ہتھیاروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہے۔ بش کے انتہاپسند مشیروں اور
صہیونیوں نے ویبیسٹر ڈاکٹرائن کا سہارا لیکر عراق پر قبضے اور حملے کو درست
قرار دیا۔ ویبیسٹر ڈاکٹرائن کے مطابق اگر کسی بیرونی حملے کا زرہ بھر شائبہ
ہو تو پیشگی حملہ کرنے میں زرہ بھر دیر نہ کی جائے مگر جنگ کے حامیوں نے
کبھی یہ نہیں بتایا کہ اگر عراق کی طرح رپورٹس کی بنیاد جھوٹے مروضوں پر
استوار ہو تو پھر ویبیسٹر نظرئیے کا جواز کس طرح درست ہوگا۔اگر صدر اوبامہ
اسرائیل کو ایران کے خلاف فضائی بمباری کی اجازت دے دیتے ہیں تو عالمی
قوانین میں تبدیلی لانا ہوگی۔ کیا صدر اوبامہ صدر ریگن کی طرح1981 کی یاد
تازہ نہیں کرسکتے جب ریگن نے شانت رہتے ہوئے عالمی قوانین کی بالا دستی کی
روز روشن مثال قائم کی تھی؟ ایران کے خلاف جنگی کاوائیوں کے بھیانک نتائج
برآمد ہونگے۔ساری دنیا جانتی ہے کہ یک قطبی عالمی طاقت کا قلعہ روز بروز
زمین دوز ہورہا ہے۔قوت کے مراکز چین کی جانب منتقل ہورہے ہیں۔ اگر امریکہ
مستقبل میں ممتاز مقام کا طلبگار ہے تو اسے فوری طور پر جنگوں کے محاز بند
کرنے ہونگے۔ امریکہ اور ناٹو نے کابل میں ظلم و جبر کی ایسی داستانیں رقم
کی ہیں جنہیں دیکھتے ہی روح کانپنے لگتی ہے۔ ایران کے خلاف کاروائی کا
فیصلہ ترک کرنا ہوگا۔ امریکہ خود دوراہے پر کھڑا ہے۔کیا امریکی سپریم کورٹ
ائین و قانون کی بالہ دستی کو یقینی بنانے کا ملکہ نہیں رکھتی؟ کیا امریکی
قوم اپاہج ہوچکی ہے کہ وہ آئین شکنی کے خلاف نعرہ قلندر لگانے سے محروم ہے؟
کیا انسانیت کے نام نہاد بہی خواہ ججز کو افغانستان میں حال ہی میں ایک
امریکی فوجی کی سفاکیت نظر نہیں آئی جس نے ایک گھر میں گھس کر 9 بچوں سمیت
18 افغانیوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔اس پر طرہ یہ کہ جنونی فوجی نے لاشوں
کو آگ لگادی ۔ اس واقعے پر خود امریکی دانشور اور صدارتی امیدوار رون پال
چیخ اٹھا ۔ رون نے مضمون میں لکھا کہ ہمیں ان نہ ختم ہونیوالی جنگوں سے
باہر نکلنا چاہیے ہم دنیا کے پولیس مین نہیں۔ رون پال نے دہائی دی کہ کیا
ہم اندھے بہرے اور لنگڑے ہوچکے ہیں کہ ہمیں انسانیت پر جبر و استبداد
دکھائی نہیں دیتا۔ کیا امریکی عدلیہ اور عالمی عدالت انصاف کو رون پال کا
المیہ نظر نہیں آتا؟ کیا رول ماڈل کہلوانے والی عدلیہ جنگوں کو ختم کرنے کا
اڈر نہیں دے سکتیں؟ اگر امریکی عدالتیں حکومتی ٹولے کو عالمی اور ملکی آئین
و قانون پر کاربند رہنے کا پابند بنانے سے قاصر ہیں تو پھر انہیں انصاف
انصاف کی رٹ چھوڑ دینی چاہیے اور سپریم کورٹ کے ماتھے پر جسٹس کی بجائے خون
انسانیت سے استعماریت بربریت زندہ باز کے الفاظ کندن کروانے چاہیں؟ |