موجودہ حالات و واقعات اس امر کی
عکاسی کر رہے ہیں کہ پاکستان ہمارا وطن عزیز صلیبیوں کی غلامی سے آزاد نہیں۔
پاکستان کے تمام امور پرصلیبیوں کا کنٹرول ہے۔انکی مرضی بغیر یہاں کا پتا
بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ پاکستان انکی کالونی ہے اور اسکے امورسلطنت
ہوں،دفاعی پالیسیاں ہوں ،معاشی اور قتصادی منصوبے ہوں، نظام تعلیم ہو،زبان
اور ثقافت کی ترویج و تطہیر ہو،غرضیکہ یہاں سبھی کچھ صلیبیوں نے شادیگروں
پر ہوتا ہے۔پاکستان کے قیام کی روح تو یہ تھی ہندوستان میں مسلمان اپنی
ایمانی چاہتیں پوری نہیں کرسکتے۔ صلیبیوں،ہندوﺅں اور سکھوں کے ساتھ مل کر
نہیں رہ سکتے۔ رہ بھی کیسے سکتے ؟جس قوم کے پاس مکمل آفاقی نظام حیات ہو،
جو کسی امر دنیوی میں صائب اصولوں کو اپنانے میں کسی کا محتاج نہ ہو۔اس کے
مدمقابل صلیبیوں یا دیگر کفار کے ہاںکیا رکھاہے؟ یہی کہ من گھڑت اور خود
ساختہ اصولوں کی تشکیل ۔ انسانی ذہن نے جو اصول اور ضابطے کل بنائے آج
انہیں غیر موئثر اور ناکارہ قرار دے کر کچھ نئے خیالات کو جنم دیتا ہے۔
جیسا کہ انسان حادث ہے اور ہر حادث نامکمل و ناقص ہے۔یعنی ذاتی اور کلی طور
پر اکمل ذات وہ ذات ہے جس کی طاقت و قوت کا اندازہ لگانا اس دور میں بڑا
آسان ہے ۔D.N.A. ٹیسٹ کیا ہے۔ ایک ذرے میں مکمل انسان اور اسکا پورا
کارخانہ بتاتا ہے کہ اس کا خالق بڑی قوت و علم کا مالک ہے۔ وہی جانتا ہے کہ
اسے کس انداز سے زندگی بسر کرنی ہے۔کن راستوں پر چل کر امتحان میں پورا
اترتا ہے اورکیونکریوم الحساب کو اس زبردست کے سامنے کامیاب وکامران پیش
ہوکر سرخرو ہوتا ہے۔ انسان کے خودساختہ ضابطے بھی ناقص ہیں۔ کیونکہ انکی
بنیاد کسی مستحکم دلیل پر نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے
ضابطوں سے دنیا میں فسادبرپا ہوتا ہے۔ مسلمان جن ضابطوں اور اصولوں کا امین
ہے اور انہیں اپنی عملی زندگی پر نافذکرتا ہے وہ کسی انسان کے عقل وشعور کی
تخلیق نہیں بلکہ اس ذات برتر و اعلٰی کی جانب سے ہیں جو ہر عیب سے پاک ہے،
قدیم ہے ا ور انسانی فطرت کا خالق ہے،وہ خوب جانتا ہے کہ آدم علیہ السلام
کی اولاد کے حق میں کیا مفید ہے اور کیامضر ہے۔ اس دور میں کئی ممالک نے
اسلام قبول کیئے بغیر اسلامی نظام حیات کی خوشہ چینی تو ضرور کی کہ جسکی
بدولت وہاں کے باشندوں کو معاشی اور انسانی حقوق کا تحفظ ضرور حاصل ہے،اگر
وہ مسلمان بھی ہوجائیں تو میں وثو ق سے کہتا ہوں کہ دنیا میں اسلامی انقلاب
آجائے۔ اور وہ لوگ ہم سے بھی بہتر مسلمان ہوں۔میں یہ کہہ رہا تھا کہ کیا
پاکستان آزاد اور مختار ریاست ہے؟ جس طرح ہر انسان پیدائشی آزاد و خود
مختار ہے اسی طرح پاکستان بھی پیدائشی طور پر آزاد ہے لیکن کچھ ظالموں اور
بردہ فروشوں نے اسے اغو ا کرلیا۔ اسکے ازلی دشمنوں(صلیبیوں اور یہودیوں) کے
ساتھ مسلسل سودا بازی کررکھی ہے۔ کچھ کو تو باپ سے بھی بڑا درجہ دے رکھا
ہے۔مثلا 1965 میں صلیبیوں کی توقعات کے بر عکس آلات حرب وضرب اور عددی لحاظ
سے کمزور اسلام کے علم برداروں نے مشرکوں کا بھرکس نکال دیا۔ اور دہلی پر
اسلام کا پرچم لہرانے کا عزم صمیم لے کر طوفان بن کر آگے بڑھے تو کفر کے
ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ امریکہ اس وقت بھی کفار کا سرخیل تھا جیسا کہ آج
بھی ہے۔ حیرت ہے کہ تاشقند معاہدہ میں پاکستان کا جرنیل فیلڈمارشل محمد
ایوب خان امریکہ کا آلہ کار بن گیا۔اس سازش میں کون کون شریک تھا ، تاشقند
کی بلی تھیلے سے باہر نہیں آئی۔ امریکہ کی فتح ہوئی۔اس سے قبل کشمیر کے
بارے بھی ایسا ہی ہوا کہ مجاہد اعظم جنرل اکبر جب مجاہدین اسلام کو لیکر
جموں کشمیر کی واحد شاہراہ کا کنٹرول حاصل کرنے والے تھے تو کفر کے دل انکے
گلوں پر آگئے کہ پاکستان نے جموں کشمیر شاہراہ پر قبضہ کرلیا تو پاکستان
مکمل ہوجائے گا اور کفر کا سارا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ جائےگا۔ جنرل گریسی
خبیث نے لیاقت علی خان وزیر اعظم پر ایسا زور ڈالا کہ انہوں نے جنرل کو ہی
ہٹادیا ۔ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ ،تربیت یافتہ ،فرنگی تہذیب و تمدن سے
آراستہ و پیراستہ امور سلطنت پاکستان پر قابض ہوگئے اور پاکستان میں دو
چیزوں کا راستہ بند کیا۔ اسلامی نظام اور قومی زبان اردو۔ فرنگی کا تسلط
قائم رکھنے کے لیئے اسکی زبان کو دفتری ملکہ معظمہ بنایا گیا۔ملک میں کئی
قبیل کا نظام تعلیم نافذ العمل کیا۔ جو لوگ فرنگی کی کرسی پر براجماں ہوئے
وہ فرنگی کی زباں سے متصف اور کالے لوگوں کو غلامی کے درجہ میں رکھنے کے
لیئے تعلیمی دلدل کا نظام دیدیا۔ آج تک اس ملک اور قوم کے ساتھ یہی کافرانہ
فرنگیانہ سلوک ہورہاہے۔اگر پاکستان آزاد ہوتا تواس میں وہ قانون ہوتا کہ جس
کے بارے قائد اعظم رحمة للہ علیہ نے بارہا مرتبہ برملا فرمایاکہ پاکستان
میں اللہ اور رسول کا دیا ہوا نظام نافذ ہوگا۔ ہم کون ہوتے ہیں قانون بنانے
والے، ہمارے پاس ہمارے اللہ اور رسول کا دیا ہوا قانون موجود ہے۔ یہی
establishment یا بیوروکریسی کے نام سے بدنام، لعنت کا طوق پہنے ہوئے لوگ
ہیں۔ کسقدر شرمناک مذاق ہے کہ پاکستان کے آئین میں اسلامی نظام کے نفاذ اور
اردو کے بحیثیت قومی زبان ترویج کی شقیں موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ
کرنا کیاآئین پاکستان کی خلاف ورزی اور توہین نہیں؟اگر کہیں انجانے میں
صلیبیوں کے مہروں کی زبان سے کوئی لفظ آزادی و مختاری کا نکل جائے تو
امریکہ صلیبی خبیث کا وفد فورا بلا دستک دیئے اسلام آباد آجاتا ہے۔اپنے
مہروں سے ملاقات کرکے تمام کام ٹھیک کرکے واپس جاتا ہے اور منافقین و
ماکرین کی جانب سے پریس نوٹ جاری ہوتا ہے کہ باہمی دلچسپی کے امور پر بات
چیت ہوئی؟کیا بات ہوئی؟ یہ گروجی اور انکے چیلوں کے سوا کسی کو کچھ پتہ
نہیں ہوتا۔ جس طرح صلیبی خبیثوں کی جانب سے نہتے مسلمان مردوں، عورتوں اور
بچوں پر ڈرون حملے کرکے انہیں شہید کرنے کا لائسنس گرواور سکے چیلوں نے
امریکہ کو دے رکھا ہے۔ ایسے بہت سارے خطرناک اور تباہ کن امور ہیں جن سے
قوم بے خبر ہے۔ لیکن جو کچھ اندر پکتا ہے اسکی بدبوسے پورا ملک متعفن ضرور
ہوتا ہے۔ ایوانہائے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے کرتوتوں کے اثرات ملک میں
بدامنی،چوری ڈاکے،مہنگائی، فحاشی، بے حیائی، معاشی عدم توازن، غریب کش
پالیسیاں، اداروں کی تباہی، ملکی معاشی اور اقتصاقی تباہی ۔اس پر طرہ یہ کہ
گروجی اور انکے سربردوں کی جانب سے قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ میں ایک دوسرے
پر سبقت لیجانے کی دوڑ میں مسلسل اضافہ۔
موجودہ حکمرانوں کی قوم کے ساتھ نئی فریبکاری دیکھیئے،اپنے امریکی آقاﺅوں
کی خواہشات کی تکمیل کے لیئے کس قدر بے چین ہیں۔انکے وزیر مختار نے امریکی
good book میں اپنا نام سرفہرست لانے کے لیئے شرمناک خود مختاری کو عملی
جامہ پہناتے ہوئے خبیث یہودیوں اور عیسائیوں کو ہر طرح کا سامان پارلیمنٹ
اور ملک کے عوام سے چوری بھجواکر ملک اور قوم کے ساتھ غداری کاارتکاب
کیا۔اس سے قبل بھی میں مطالبہ کرچکا ہوں کہ اس وڈیرے کو گرفتار کرکے ملک
اور قوم کے مفادات کے خلاف دشمنوں کا ساتھ دینے کے جرم میں سزائے موت دی
جائے۔موجودہ حکومت تو ایسا کوئی اقدام اسکے خلاف نہیں اٹھائے گی۔موجودہ
حکمران جرائم کی سرپرستی کرنے والے ہیں۔ البتہ ملکی دفاع کی ذمہ داری جنرل
کیانی پر عائد ہوتی ہے کہ اس ملک و قوم کے دشمن کے خلاف اپنی کوئی پھرتی
دکھائے ۔عوام اور فوج کی فکر کے دھاروں کا منبہ ایک ہے جبکہ حکمران طبقہ کی
اپنی کوئی سوچ نہیں ۔غلاموں اور ضمیر فروشوں کی اپنی سوچ بھلا ہو بھی کیسے
سکتی ہے انہیں امریکی لابی کو خوش رکھنے کے لیئے وہ کچھ کرنا ہے جو اس ملک
کے عوام ہر گز نہیں چاہتے۔ آج ملک کے عوام پاکستان کی آزادی چاہتے ہیں۔وزیر
اعظم نے نیٹو سپلائی بحالی کے لیئے ایک ناٹک تیار کرکے پارلیمنٹ کے ہاں
چھوڑدیا ہے۔ اس میں ایک بات بھی عوام کو قبول نہیں۔ ان کا اصل مدعا نیٹو
سپلائی کی بحالی ہے۔ جو انکی خواب خیالی ہے۔ یوسف رضا اپنے سر بردوں سے
امریکی خواہشات کی تکمیل میں انگوٹھے لگواسکتے ہیں لیکن عوام کا ردعمل ایک
طوفان ہوگا جو ایوانہائے اقتدار کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جائےگا۔ عوام
وطن عزیز میں امریکی یا کسی بھی غیر ملکی کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں
دیں گے۔
مختلف ناموں کی تنظیمیں اب اس ملک میں سازشوں کے جال نہیں بچھاسکیں گی۔ ایف
سولہ طیاروں کے انجینیر ہونے کے بہانے ہوں یا فلاحی اداروں کے کارکن بن کر
ملکی سلامتی کونقصان نہیں پہنچانے دیں گے۔یہ کہنا کہ امریکہ معافی مانگے ۔
اس سے کیا ہوگا معافی تو وہ کئی دفعہ مانگ چکا، کیا معافی سے ہمارے 26 شہید
واپس آجائیں گے؟ ڈرون حملوں سے شہید ہونے والی ہمارے بہنیں بیٹیاں بچے اور
جوان زندہ ہوجائیں گے؟ کمیٹی کی پیش کردہ سفارشات ملک میں امریکی دراندازی
اور مسلم ملک افغانستان میں صلیبیوں کے ہاتھ مضبوط کرنا تاکہ وہ وہاں تسلی
سے مزید مسلم کش کاروائیاں کرسکیں۔ حیر ت ہے کہ اس کمیٹی میں مسلم لیگ نون
کے دو ارکان شامل تھے۔ بقول انکے کہ انہیں اختلاف ہے ۔ اگر اختلاف تھا تو
سفارشات کے مسودے پر اپنا اختلافی نوٹ ثبت کرتے تو مسلم لیگ نون کے بارے
نورا کشتی کے الزام کی تردید ہوجاتی۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ لوگ کہتے ہی
کہ ملکی ادارے تباہ ہوگئے، بجلی اور گیس کی عدم فراہمی پر صنعتیں بند
ہوگئیں، مہنگائی نے عوام کو خود کشی پر مجبور کردیا،تیل اور بجلی کے نرخوں
میں ہوشربا اضافہ معمول بن چکا ہے لیکن پارلیمنٹ میں دوسری بڑی سیاسی جماعت
نے آج تک ظالم حکمرانوں کے خلاف احتجاجی سونامی کال کیوں نہ دی؟ بلند بانگ
دعوے کرنے والے عمران خان اپنا سونامی کب لائیں گے۔ پاکستان کو صلیبیوں اور
استحصالی طاقتوں سے آزاد کرانے کے یہی دن ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ جس طرح
ججوں کی بحالی کے لیئے انسانوں کا سیلاب امڈا تھا اور زرداری کے ہوش اڑگئے
تھے اب پاکستان کی آزادی اور عوامی حقوق کی بحالی کے لیئے ظالم درندوں سے
چھٹکارہ پانے کے میاں نواز شریف کال دیں۔اب انتہا ہوچکی۔ملک کے طول و عرض
سے نئی قیادتیں اور عوامی اجتماعات کی جانب سے پاکستان کی آزادی کے نعرے
بلند ہورہے ہیں، 25 مارچ کو کراچی میں وحدت مسلمین کا جلسہ، لاہور میں سنی
تحریک کا جلسہ اور پشاور میں جمعیت علماءاسلام کا جلسہ اپنی نوعیت کے
اعتبار سے بنیادی سوچ میں اشتراک رکھتے ہیں کہ پاکستان مکمل طور پرا ٓزاد
ہو جائے،ہر طرح کی امریکی مداخلت بند ہوجائے، نیٹو سپلائی کی بحالی کے سبھی
خلاف ہیں کیونکہ یہ صرف سامان کی ترسیل تک محدود معاملہ نہیں بلکہ اس بہانے
پاکستان کے داخلی معاملات میں براہ راست صلیبیوں اور یہودیوں کی عملداری
ہوگی۔ملکی خزانے کی لوٹ مار بند کرنے، لوٹی ہوئی دولت کی پاکستان میں واپسی،
عدلیہ کے فیصلو ں پر بلا تمیز عمل درآمد، بھارت کو پسندیدہ تجارتی ملک قرار
دینے کے خلاف پورا ملک یک آواز ہے۔ موجودہ حکمران نا اہل نہیں بد دیانت اور
دیدہ دانستہ ملکمتحد ہوکر اور عوام کو تباہ کررہے ہیں۔ان حالات میں پاکستان
کے تمام محب وطن رہنما اب سڑکوں پر آئیں ۔ اب عوام کا انقلابی سونامی اسلام
آباد کی طرف مارچ کرے اور امریکی پٹھوﺅں کو اقتدار سے علیحدہ کرکے پاکستان
کو آزاد کرائیں۔ |