ملتان سے خوش لباس گدی نشین پیر
یوسف رضاگیلانی کی وزارت عظمیٰ کاچوتھا برس شروع ہے اور ہمارے ہاں رائج
سیاست کے تناظر میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔اب تک ان کے بارے میں بہت سے
اندازے باطل ثابت ہوئے ہیں۔پاکستان کے سیاسی پنڈت اورمیڈیا کے دانشور بھی
ان کی اس کامیابی پرحیرت زدہ ہیں ۔پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی
صدرجاویدہاشمی نے پچھلے دنوں صدرآصف زرداری کیلئے کہا تھا کہ ان کی سیاست
سمجھنے کیلئے پی ایچ ڈی کرناہوگی جبکہ ایک گیانی کاکہنا ہے کہ وزیراعظم
یوسف رضاگیلانی بھی سیاسی بساط کے ایک شاطرکھلاڑی ہیں ،ان کی سیاست سمجھنا
بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔شروع دنوں میں کئی بار وزیراعظم کی تبدیلی
کاٹائم فریم دیا گیا مگریوسف رضاگیلانی کامنصب محفوظ رہا۔صدرآصف زرداری کے
ساتھ یوسف رضاگیلانی کابحیثیت وزیراعظم چاربرس پورے کرنابلاشبہ ایک تاریخی
واقعہ ہے کیونکہ ماضی میں ایک دوکے سوا صدوراوروزرائے اعظم کے درمیان
دوردورتک مفاہمت کانام ونشان نہیں ملتا تھا۔جنرل ضیاءالحق نے58(2B)کاصدارتی
اختیار استعمال کرتے ہوئے منتخب وزیراعظم محمدخان جونیجوکوان کے عہدے سے
معزول کردیاتھا۔غلام اسحق خان نے بحیثیت صدراٹھاون ٹوبی کی تلوار سے میاں
نوازشریف اوربینظیربھٹو کے مینڈیٹ کاسرقلم کیا ۔پیپلزپارٹی کے ووٹوں سے
منتخب ہونیوالے صدرسردارفاروق خان لغاری کے ہاتھوں ان کی لیڈربینظیربھٹو کی
منتخب جمہوری حکومت ختم ہوئی ۔صدرمملکت محمدرفیق تارڑ اوروزیراعظم میاں
نوازشریف کے درمیان کسی قسم کی محاذآرائی نہیں تھی اور اٹھاون ٹوبی کی صورت
میں اسمبلیاں توڑنے کاصدارتی اختیارختم کردیا گیا مگر12اکتوبر1999ءکی شام
جنرل پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کی حکومت پرشب خون ماردیااورخودچیف
ایگزیکٹوبن بیٹھے پھرانہوں نے صدرمملکت کی حیثیت سے چارمختلف وزرائے اعظم
میرظفراللہ جمالی ،چودھری شجاعت حسین ،شوکت عزیزاوریوسف رضاگیلانی کے ساتھ
کام کیا مگرکسی کنگزپارٹی کے تینوں وزرائے اعظم کے ساتھ بھی ان کی مثالی
انڈرسٹینڈنگ نہیں تھی ۔اس بات پر بحث ضرور کی جانی چاہئے کہ کیا
ہرباروزیراعظم ہی قصوروارہوتا تھا۔صدرآصف علی زرداری نے وزارت عظمیٰ کیلئے
مخدوم امین فہیم کے مقابلے میں مخدوم یوسف رضاگیلانی کانام فائنل کیا تھا
کیونکہ وہ ان کے جیل کے ساتھی تھے اورآصف علی زرداری کوان کی وفاداری
پراعتماد تھا۔تاہم شروع دنوں میں صدراوروزیراعظم کے درمیان کسی حدتک تناﺅکاماحول
رہا ،ملتان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمودقریشی نے
اپنے طورپر اس تناﺅسے فائدہ اٹھانے کی کافی کوشش کی مگر یہ جعلی تناﺅ تو
ایک حکمت عملی کاحصہ تھا،حقیقت میں صدرزرداری اوروزیراعظم یوسف رضاگیلانی
کے درمیان کسی قسم کاکوئی اختلاف نہیں تھامگرہمارے بڑے بڑے سیاستدان اس
رازسے واقف نہیں تھے ۔ان دنوں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے اورصدرکے
درمیان تناﺅکاتاثردے کر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کوبھی خوب استعمال کیا۔سیاست
میں ہرکوئی ایک دوسرے کواستعمال کرنے کاخواہاں ہوتا ہے مگر دوسروں کواپنے
مفادکیلئے استعمال کرنے اوربیچنے کا فن ہرکسی کونہیں آتا۔میاں نوازشریف نے
خوداس بات کااقراراورشکوہ کیا تھاکہ صدرآصف زرداری نے انہیں استعمال کیا
ہے،ہوسکتا ہے آنیوالے دنوں میں وہ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے حوالے سے بھی
یہ شکوہ کرنے پرمجبورہوجائیں۔ان دنوں بھی وزیراعظم ہفتہ میں ایک
دوبارلاہورضرورآتے جہاں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف خودائیرپورٹ پران
کااستقبال اورپھرلاہورسے رخصت کیا کرتے ،وزیراعظم بھی کبھی کبھار جاتی
امراءرائیونڈ تشریف لے جاتے مگراب ایسانہیں ہوتا ۔وزیراعظم اب بھی تسلسل کے
ساتھ لاہورآتے ہیں مگروزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف ان کے استقبال کیلئے
نہیں جاتے ۔ان کے درمیان کافی دوریاں اورتلخیاںپیداہوچکی ہیں۔اب مسلم لیگ
(ن) کی قیادت کے نزدیک صدراوروزیراعظم کی سوچ میں کوئی فرق نہیں رہا۔
صدرمملکت آصف زرداری کی سیاسی وانتظامی کامیابیوں کے پیچھے وزیراعظم یوسف
رضاگیلانی کااہم کرداررہا ہے ۔وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے پاس آئینی
اختیارات ہوتے ہوئے صدرآصف زرداری کی مرضی ومنشاءکے بغیر کچھ نہیں کیا ۔
وزیراعظم کی طرف سے ججوں کی بحالی کے اقدام کوبھی یقینا صدرزرداری کی
تائیدحاصل تھی۔جس وقت ججوں کوبحال کرنے کی ضرورت تھی اس وقت وزیراعظم یوسف
رضاگیلانی نے اپناآئینی اختیاراستعمال کرتے ہوئے معزول ججوں کوبحال کردیا
اورجس وقت صدرآصف زرداری کے دفاع کیلئے عدلیہ کے مدمقابل کھڑے ہونے کی
ضرورت پیش آئی تووزیراعظم یوسف رضاگیلانی سودوزیاں سے بے نیازہوکرپورے
اعتماد کے ساتھ میدان میں اترے اوراپنے صدرکے دفاع کیلئے ایک مضبوط ڈھال بن
گئے ۔ صدرآصف علی زرداری میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ زندگی کے کسی
موڑپراپنے دوست اوردشمن کوفراموش نہیں کرتے ۔وزیراعظم یوسف رضاگیلانی
کاصدرزرداری کے دفاع کیلئے جوش وجذبہ جہاں اپوزیشن کیلئے پریشان کن ہے وہاں
ایوان صدرکیلئے قابل داد،قابل رشک اورمتاثرکن ہے۔صدرزرداری اپنے حسن انتخاب
یعنی اپنے وفاداراورجانثاروزیراعظم سے انتہائی خوش اورراضی ہیں۔مجھے لگتا
ہے کہ صدرزرداری نے یوسف رضاگیلانی کی کمٹمنٹ سے متاثراور خوش ہوکرکوانہیں
اگلی بار بھی وزیراعظم بنانے کااصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ وزیراعظم یوسف
رضاگیلانی کوایوان صدرکی ضمانت کے بعد اپنے سیاسی مستقبل کیلئے کسی قسم کی
پریشانی یابدگمانی نہیں بلکہ ان کے چہرے پر خوداعتمادی اور خوش گمانی کی
جھلک نمایاں ہے ۔اگرانہیں اپنے سیاسی مستقبل بارے ذرہ برابربھی شبہ یاابہام
ہوتا تووہ داس قدر کرجارحانہ اورفاتحانہ ا ندازمیں نہ کھیلتے ۔سینٹ الیکشن
میں پیپلزپارٹی کو ملنے والی اکثریت نے بھی وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کوشیر
بنادیا ہے۔وہ شیر کی طرح عدلیہ پردھاڑ رہے ہیں ،انہوں نے دوٹوک الفاظ میں
صدرزرداری کیخلاف سوئس حکام کولیٹرلکھنے سے انکار کردیا ہے ۔وزیراعظم کے
انکار سے عدلیہ کوایک کٹھن امتحان کاسامنا ہے ۔یہ صورتحال دیکھ کرسانپ کے
منہ میں چھپکلی والا محاورہ یادآ تاہے ۔وزیراعظم کو چھ آپشن ملے جبکہ عدلیہ
کے پاس بہت محدودآپشن ہیں ۔وزیراعظم کوسزاملے یا معافی وہ دونوں صورتوں میں
اپنے صدر،اتحادیوں اورجیالوں کے ہیروبن جائیں گے۔اگرمعلوم ہونیاسوٹ تیار ہے
توپرانے سوٹ کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔آئندہ وزیراعظم منتخب ہونے کیلئے چھ
ماہ کی جیل میں گھاٹا نہیں ،یوسف رضاگیلانی چار سے پانچ برس قید رہے
اورانہیں انعام کے طورپروزیراعظم بنایاگیا اب توصرف چھ ماہ کی بات ہے۔
اس وقت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے بعدپارٹی میں یوسف
رضاگیلانی دوسرے قدآورلیڈربن کرابھرے ہیں۔شاہ محمودقریشی کے پیپلزپارٹی
چھوڑجانے سے یوسف رضاگیلانی کو ایک بڑے دباﺅسے نجات ملی ہے ۔جاویدہاشمی
اورشاہ محمودقریشی کاپاکستان تحریک انصاف میں جانا یوسف رضاگیلانی کیلئے
یقینا ایک ٹھنڈی ہواکاجھونکا ہے۔اگراگلی حکومت پیپلزپارٹی اوراس کے اتحادی
بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تواس صورت میں آصف زرداری کے بعد دوسرااہم رول
یوسف رضاگیلانی کوملے گا۔صدرارتی منصب کیلئے استثنیٰ ہونے کیوجہ سے آصف علی
زرداری دوسری بار بھی صدرمنتخب ہوناپسندکریں گے ورنہ وہ وزیراعظم بنتے
اوریوسف رضاگیلانی کوصدرمملکت بناتے۔ ہمارے ہاں میرٹ سمجھداری نہیں بلکہ
وفاداری اورفداکاری یعنی جانثاری ہے اوریوسف رضا گیلانی اس میرٹ
پربجاطورپرپورااترتے ہیں۔ہمارے سیاستدانوں اورعوامی نمائندوں نے یہ بات
گھول کرپی لی ہے کہ کامیابی عوام نہیں بلکہ پارٹی قیادت کی خدمت اوراسے خوش
کرنے سے ملتی ہے لہٰذاوہ عوام کے پاس صرف الیکشن کے دنوں میں جاتے ہیں مگر
قیادت کا دن میں کئی بار طواف اوراس کی خوشامد کر ناان کاروزکامعمول ہے ۔
وزیراعظم توہین عدالت کی پاداش میں چھ ماہ قیدکی سزابھگتنے کیلئے تیار ہیں
مگرانہیں صدرزرداری کے ساتھ بیوفائی گوارہ نہیں ۔ان کی اس اداپرصدرزرداری
بھی فداہیںاورانہوں نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کی خدمات کو
اپنے مخصوص انداز میں خراج تحسین پیش کیا ۔پاکستان میں آج بھی آئین یاقانون
کی حکمرانی نہیں بلکہ چند بااثر خاندانوں کاراج ہے ۔احتساب کا ہنٹرصرف
کمزوروں کے نیم مردہ وجودپربرستا ہے ۔کوئی سیاستدان دلی طورپر احتساب
اورآزادعدلیہ کے حق میں نہیں ہے ۔عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں پیش پیش
سیاسی پارٹیاں اورسیاستدان اب عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کے درپے ہیں ۔ملک
میںفوری عام انتخابات کامطالبہ اب دم توڑگیا ہے کیونکہ کچھ مقتدر شخصیات اس
بات سے پریشان ہیں کہ ایسانہ ہو نگران حکومت ان کااحتساب شروع کردے
اورانہیں سرکاری مہمان بنالے۔اس بات پرغورکیا جارہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے
چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی کی
ریٹائرمنٹ تک عام انتخابات کے انعقادکا خطرہ مول نہ لیا جائے۔ہماری قومی
سیاست کااونٹ ایک دن میں کئی بارکروٹ بدلتا ہے۔انتخابات سے قبل سیاسی
اتحادوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوگی۔جوں جوں انتخابات کے دن نزدیک آئیں گے ، قومی
سیاست میں مزید گرماگرمی اوربلیم گیم میں مزید شدت آئے گی۔ |