سکندر اعظم کو بھی شوق چرایاکہ
بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں سے فاتح گزرے۔یہ شوق اسے کتنا مہنگا پڑا اس
کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ وہ جب لسبیلہ میں داخل ہوا تو اس
اس کے لشکر کا جاہ وجلال دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور جب وہ اس علاقے کی
حدود پار کر چکا تو اس کے اردگرد لشکر نہیں بلکہ ایک لٹا پٹا چھوٹا ساقافلہ
تھا جسے کسی ڈاکو یا راہزن نے نہیں بلکہ اس سرزمین کے موسمی حالات نے گہرے
زخم لگائے تھے۔اور قریبا چوتھائی حصہ کے قریب سپاہی اپنے ہوش وحواس میں اور
زندہ حالت میں موجود تھے۔ان کے حوصلے بھی پست ہوچکے ہوتے اگر وہ سکند ر
جیسے باحوصلہ اور نفسیاتی جرنیل کے ساتھ نہ ہوتے۔جب لسبیلہ کے قریبا وسط
میں بادشاہ کے دستے سمیت تمام لشکر کے پاس پینے کے لیئے ایک بوند بھی نہ
تھی اور بادشاہ کے ہونٹ بھی خشک تھے ‘چند سپاہیوں کو پانی کی تلاش کیلئے
روانہ کیا گیا‘واپسی پر انکے پاس ہیلمٹ میں تھوڑا ساپانی موجود تھا جو
انہوں نے شدید پیاس کے باوجود اپنے بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا۔سکند ر نے
ان کا شکریہ ادا کیا اور خشک حلق سے یہ تاریخ ساز آواز برآمد ہوئی ” جب
سکندر کا لشکر پیاسا ہے تو سکندر کیونکراپنی پیاس بجھائے اور پھر پانی کو
زمین کے حوالے کردیا“جو صدیوں کی پیاسی تھی۔
لیکن اگر اس واقعے کے تناظر میں آج کے عہدیداروں کو دیکھا جائے ‘تو ہر جگہ
ماتحت کا خون پیاجارہاہے اسکی پیاس یا ضروریات کا خیال تو ویسے ہی خام
خیالی کی سی صورت اختیار کر چکاہے۔
بلوچستان کے مسائل تو گھائل کر دینے والے ہیں لیکن قدرتی وسائل سے مالا مال
یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس کے کم وبیش نصف رقبے پر بلند وبالا پہاڑ اور باقی
زمین خشک وبنجرہے۔جنوب میں نوسوکلومیٹرسمندری ساحل اس صوبے کو ایک جداگانہ
حیثیت سے نوازتاہے۔لیکن سمندر کی موجودگی کے باوجود اس زمین کے باسی پانی
کی شدید قلت کا شکارہیں۔آج سے چار دہائیاں قبل پانی حاصل کرنے کے ذرائع
بالکل مختلف تھے ۔اسوقت چشمے‘کنویں اس مقصد کے لیئے استعمال کیئے جاتے
تھے۔اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ذرائع مسدود ہوتے چلے گئے اور ان کی جگہ
ٹیوب ویلز نے لے لی۔
اسوقت صوبے کے ستر فیصد افرادپینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔نوکنڈی اور
جعفرآباد کے علاقوں میں ٹرین کے ذریعے عوام الناس تک پانی
پہنچایاجاتاہے۔جبکہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کو بھی شدت سے اس مصیبت
کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔28لاکھ نفوس پر مشتمل کوئٹہ کی آبادی کو 3کروڑ نوے
لاکھ گیلن پانی درکار ہوتاہے جبکہ واساکی جانب سے 2کروڑ نوے لاکھ گیلن پانی
مہیاکیاجاتاہے۔واسا کی یہ سہولت بھی محدود وسائل اور مختلف مسائل کی وجہ سے
ایک دن تعطل کے بعد فراہم کی جاتی ہے جس کا دورانیہ بھی ضرورت کے پیش نظر
بہت کم ہوتاہے۔باقی دنوں میں مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عام شہری
اشیاءخوردونوش کے ساتھ ساتھ پانی بھی خرید کر استعمال کرتے ہیں اور یوں ان
کے ماہانہ بجٹ پر برا اثر پڑتاہے۔اگرچہ نجی شعبہ میں پانی فراہم کرنے والوں
کی اب موجیں ہی موجیں ہیں لیکن حالات کی چکی میں پستے شہریوں کوچاروناچار
دو سے تین ہزار فی ٹینکر کی قیمت ادا کرناپڑتی ہے۔
شروع میں کوئٹہ شہر میں پانی کے حصول کیلئے بیس سے پچیس فٹ تک کھدائی کرنا
پڑتی تھی۔لیکن پانی کی گرتی ہوئی سطح نے صورتحال یکسر بدل کر رکھ دی
ہے۔بلوچستان کے متعلق ماہرین کی رپورٹس میں کہا گیاہے کہ کوئٹہ سے اگرایک
ہزار گیلن پانی زمین سے نکالا جائے تو بمشکل ایک سو گیلن پانی ری چارج
ہوتاہے۔منصوبہ بندی کے فقدان‘سنجیدگی کی کمی اور لاپرواہی کا یہ نتیجہ
برآمد ہوا کہ اب اس وادی کے ری چارجنگ مقامات پر رہائشی کالونیاں تعمیر
ہوچکی ہیں ۔کوئٹہ شہر کے طول واطراف میں زیر زمین پانی کی سطح 800 سے1200فٹ
کے قریب گر چکی ہے۔جب کہ بلوچستان کے دوسرے اضلاع میں پانی کی سطح 1800سے
2000فٹ تک گر چکی ہے اور یہ صورتحال مزیدابتری کی جانب تیزی سے بڑھ رہی
ہے۔نجی چینل پر پانی کی صورتحال پرتبصرہ کرتے ہوئے زبردست خان بنگش(پروگرام
مینیجر بی پی ایس ڈی آئی یوسی این) نے کہاکہ”کوئٹہ میں جتنی گنجائش تھی اس
سے زیادہ ہم نے ٹیوب ویل لگادیئے ہیں کوئٹہ ویلی میں ایک اندازے کے
مطابق120سے 140ٹیوب ویلز کی گنجائش ہے لیکن اسوقت تین ہزار سے زیادہ ٹیوب
ویلز کام کررہے ہیں۔جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے“۔
پچھلے دس سالوں کی قحط سالی اور پانی کی گرتی ہوئی صورتحال کے سبب ماہرین
نے کہا تھا کہ بہتر ہے کہ کوئٹہ کی آبادی کو کسی موزوں جگہ پر منتقل
کردیاجائے۔لیکن یہ سب کرنے کیلئے سکندر اعظم کی طرح اپنے سپاہیوں کا درد
محسوس کرنے والا دل ہوناچاہیئے ‘حالات کی نزاکت جانچنے والا دماغ ہونا بھی
ازحد ضروری ہے۔اور اپر کلاس میں ایسے افراد بہت کم ہیں ۔2003کے بعد سے لے
کر اب تک کوئٹہ میں پانی کے ذخائر دریافت نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی کوئی
سروے رپورٹ سامنے آئی ہے۔
جب کچھ اور نہ بن پڑا تو کوہ مردار کی جانب رخ کیا گیا۔کوہ مردار کے متعلق
2002میںماہرین نے کہا تھا کہ اگر 25ٹیوب ویلز کے ذریعے ادھر سے پانی نکالا
جائے تو پچیس سال آبادی اسی پر انحصار کر سکتی ہے لیکن رپورٹ کے برعکس کام
کیا گیا اور اب کوہ مردار پر 356ٹیوب ویلز کام کررہے ہیں۔
کوئٹہ وادی کے باسی تو جیسے تیسے پانی خرید لیتے ہیں ۔لیکن بلوچستان کے
دیگر علاقوں میں صاف پانی کی کمی کے باعث مختلف مسائل اور بیماریاں پھیل
رہی ہیں۔لوگ ہنستے بستے گھر چھوڑ کر دوسری جگہوں پر منتقل ہونے پر
مجبورہیں۔جب کہ سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے اور منشور ہی میں یہ بات شامل
نہیں۔جلسے جلسوں کی گیم گرم ہے‘ہر کوئی پاکستان کے اس علاقے کے باسیوں کے
زخموں پر بیانات اور زبانی جمع خرچ کے ذریعے مرہم رکھ کر اپنی پارٹی پوزیشن
مضبوط کرنا چاہ رہاہے۔چاہے اس پارٹی کا تعلق کسی بھی سطح سے ہو۔ضرورت اس
بات کی ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر بلوچستان میں پانی کے مسلئے کو حل
کیاجائے۔اور اس کیلئے مضبوط حکمت عملی ‘پر سوز قلب‘دیدہ بینا اور تعصب سے
پاک دما غ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔26مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا
گیا۔لیکن حقائق پر مبنی عملی اقدامات کب اُٹھائے جائیں گے اس کے لیئے کوئی
حتمی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔پیاسابلوچستان محرومیوں کی اتھاہ گہرایوں میں
ڈوب چکاہے اور ہر پارٹی یہی کہتی پھرتی ہے کہ ہم نے یہ کیا‘ وہ کیا(اقتدار
کی مضبوطی کی ترامیم بس) اور یہ ہمیں نہیں(عوامی مسائل کا حل) کرنے دیا گیا
اور اس قبیل کی باتوں کے سوا کوشش کے باوجود آپ بڑی جماعتوں کے قائدین سے
کوئی بات نہیں سن پائیں گے۔آخر میں دعاہے اللہ تعالٰی پاکستان کو کوئی صالح
حکمران عطاءفرمائے اور ہمیں بھی عمل کرنے کی توفیق دے(امین)۔ |