امریکہ ہماری خود مختاری کا
احترام کرے‘ ہم امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں‘ ہم یہ
چاہتے ہیں‘ ہم وہ چاہتے ہیں‘ وفاقی حکومت کی جانب سے اکثر اس قسم کے بیانات
”داغے“ جاتے رہتے ہیں‘ وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومتوں کو بھی اپنے
مخالفین کے خلاف بیانات ”داغنے“ کے علاوہ کوئی اور کام نظر نہیں آتا‘ ان
حکومتوں میں شامل تمام سیاستدانوں کے نزدیک صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے اور
وہ ہے ”بیان داغنا“ پاکستانی حکومت امریکی ناخداﺅں کی خوشنودی و رضا مندی
کیلئے ”میٹھے میٹھے“ بیانات اور پیار کی (ڈالروں کی) پینگوں کو بڑھانے
کیلئے دوستی کا ہاتھ آگے بڑھاتی رہتی ہے‘ لیکن اس کے عوض ہمیشہ پاکستانی
حکومت کہ منہ پر ”امریکی چپل“ پڑ جاتی ہے اور امریکی حکمران ”کری کرائی“ پر
پانی پھیر دیتے ہیں‘ اس طرح پاکستانی حکمرانوں کی محنت رائیگاں چلی جاتی ہے‘
امریکہ پاکستان سے وابستہ اپنے تمام مفادات پورے کرنے کے باوجود بھی الزام
تراشیوں کا سلسلہ جاری رکھتااور ڈرونز کی آگ برساتا رہتا ہے‘ جس کے جواب
میں ”جمہوری حکومت“ ایک یا دو بیانات ”داغ“ دیتی ہے اور پھر بری الذمہ ہو
جاتی ہے‘ پہلے دن سے لیکر آج تک وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین
کے ساتھ ”کُشتی“ میں مصروف ہیں‘ در اصل ان سیاسی جماعتوں کا ایک ہی مقصد
ہوتا ہے کہ اقتدار میں آکر ملک وقوم کا پیسہ لوٹا جائے اور اپنے سیاسی
مخالفین کو ”ٹف ٹائم“ دیا جائے‘ عوامی مسائل تو ان کے نزدیک بالکل اہمیت
نہیں رکھتے‘ اسی طرح آجکل وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف ایک ”بہت
بڑے“ عوامی مسئلے کے حل کیلئے کوشاں ہیںاور وہ عوامی مسئلہ یہ ہے کہ ملک
میں لیپ ٹاپ کی قلت پڑ گئی ہے اور لیپ ٹاپ کی وجہ سے ملکی ترقی کو بریک لگ
گئی ہے‘ وزیر اعلیٰ پنجاب اس مسئلے کے حل کیلئے کیا خوب اقدامات کر رہے ہیں
کہ 2000/- 2 مالیت کے لیپ ٹاپ 40 سے 45000 روپے میں خرید کر ”عوامی خدمت“
کرنے میں مصروف ہیں‘ آشیانہ ہاﺅسنگ سکیم‘ سستی روٹی سکیم اور ٹیکسی سکیم کی
کامیابی کے بعد لیپ ٹاپ سکیم کی ”کامیابی“ صوبائی حکومت کی ”عوامی خدمتی
مہم“ کا ”بہت بڑا“ ثبوت ہے‘ قوم خادم اعلیٰ کی اس ”عوامی خدمتی مہم“ پر
خوشی سے پاگل ہو گئی ہے‘ خادم اعلیٰ پنجاب کے نزدیک چند نوجوانوں میں لیپ
ٹاپ تقسیم کرکے ملک و قوم کی تقدیر کو بدلا جا سکتا ہے‘ بات تو بالکل ٹھیک
ہے کہ نوجوان نسل لیپ ٹاپ پر ”معاشی ترقی“والی ”وڈیو گیم“با آسانی کھیل سکے
گی اور معاشی ترقی کے اسرار و رموز سے با آسانی واقف ہو سکے گی‘ لیپ ٹاپ کے
ذریعے طلباءو طالبات غربت کو آسانی سے سمجھ سکیں گے اور غربت کو ختم کرنے
کیلئے ” موثر“ اور ”جامع منصوبہ بندی“ کر سکیں گے‘ خادم اعلیٰ پنجاب کے لیپ
ٹاپ پروگرام کو دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس اقدام سے کوئی
”بہت بڑا“ انقلاب آنے والا ہے‘ مثلاََ طلباء لیپ ٹاپ کا بٹن دبائیں گے تو
غربت ختم ہو جائے گی‘ لیپ ٹاپ کا بٹن دبانے سے بھوکے کو روٹی مل جائیگی‘
لیپ ٹاپ کا بٹن دبانے سے بے روز گار کو روزگار مل جائے گا‘ لیپ ٹاپ کا بٹن
دبایا جائیگا تو پروٹوکول میں پھنسی ایمبولینس میں دم توڑتا مریض ایکدم
صحتیاب ہو جائے گا‘ بٹن دبانے سے قانون کی بالا دستی قائم ہو جائے گی‘ گویا
بٹن دبانے سے قوم کی تقدیر بدل جائے گی‘ خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز
شریف صاحب! لیپ ٹاپ اور اسی طرح کی دوسری سکیموں پر خرچ کی جانے والی رقم
اگر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے خرچ کی جاتی تو اس وقت ملکی حالات یہ
نہ ہوتے‘ سستی روٹی بھکاریوں کی طرح عوام کو کھلانے کی بجائے وہی سرمایہ
اگر معاشی حالات کی بہتری کے لئے استعمال کیا جاتا تو حالات آج یہ نہ ہوتے‘
میاں برادران پی پی حکومت کے خلاف اور پی پی حکومت میاں برادران کے خلاف جس
تسلسل اور دل جمعی سے بیانات داغ رہی اگر اسی طرح توجہ عوامی مسائل پر دی
ہوتی تو صورتحال کچھ اور ہوتی ‘ قوم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ڈرامے
بازیوں کے گھن چکر میں نفسیاتی مریض بن چکی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان میں
جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے‘ پاکستان کے حکمرانو! اس
طرح حکومت کرنے سے تو بہتر ہے کہ پاکستان کو کسی دوسرے ملک کو ٹھیکے پر دے
دو‘ صرف چھ ماہ میں ملک کی حالت بدل جائے گی‘ خُدارا اب بھی وقت ہے ہوش کے
ناخن لو‘ ملک و قوم کے وسائل کو کوڑیوں کے بھاﺅ مت بیچو‘ پاکستان کی غیرت
کے ”رکھوالے“ یہ حکمران پاکستان سے کتنی محبت کرتے ہیں یہ سب کو معلوم ہے‘
ان حکمرانوں نے تو مصیبت کے وقت پاکستان سے فرار ہو جانا ہے اس لئے ان
کےاکاﺅنٹس بھی بیرونی ممالک کے بنکوں میں ہیں‘ قانون ک بالا دستی اور حب
الوطنی کے معاملے میں اگر وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کو داد نہ
دی جائے تو یہ سراسر زیادتی ہوگی‘ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے
بیانات سے ثابت کر دیا کہ وہ قانون سے بالا تر ہیں اور ملک کی سب سے بڑی
عدالت سپریم کورٹ بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ
وہ ”پی ایم“ ہیں ”پیون“ نہیں‘ یعنی وزیر اعظم کے مطابق قانون صرف ”پیون“
پرلاگو ہوتا ہے”پی ایم“ پر نہیں‘ تو ایسی صورتحال میں قوم 2 باتوں کا
انتظار کرے پہلی تو یہ کہ کب قانون کی بالا دستی ہوگی اور قانون ”پی ایم“
پر بھی لاگو ہوگا‘ اور اگر قانون کی بالا دستی ”پی ایم“ تک نہیں ہوتی تو
قوم ”پی ایم“ کے ”پیون“ بننے کا انتظار کرے۔ |