حافظ سعید کے سر کی قیمت.... فوج کا اصل امتحان

امریکی حکومت نے ایک اور مضحکہ خیز حرکت کردی کہ جماعت الدعوہ کے امیر اور دفاع پاکستان کونسل کے اصل ”ہیرو“ حافظ محمد سعید کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کردی ہے۔ سروں کی قیمت عمومی طور پر ان لوگوں کی مقرر کی جاتی ہے جو منظر عام پر نہ ہوں، اپنے آپ کو پوشیدہ رکھتے ہوں جبکہ اپنے حافظ صاحب تو برسرعام گھومتے پھرتے اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے نظر آتے ہیں۔ حافظ سعید صاحب کو ایک زمانہ جانتا ہے۔ وہ جہاد کے داعی ہیں، پاکستان میں امریکہ کے بہت بڑے مخالف ہیں، ان کے طریقہ جہاد اور جہادیوں کی ”بھرتیوں“ سے ہزار اختلاف رکھا جاسکتا ہے ، لیکن ایک بات یقینا ماننا پڑے گی کہ انہوں نے پاکستان میں کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس پر انہیں مورد الزام ٹھہرایا جاسکے۔ حافظ صاحب اور ان کی جماعت و ساتھی کبھی کسی قسم کی فرقہ واریت میں ملوث نہیں رہے، کبھی پاکستان کے قوانین اور عدالتوں سے نہیں لڑے، اپنے سارے کیسز انہوں نے عدالتوں میں پیش ہوکر، قانونی جنگ لڑ کر جیتے ہیں۔ وہ اور ان کی جماعت کالعدم بھی نہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ وہ فوج کے ساتھ فطری محبت و الفت رکھتے ہیں اور شائد اکثر جرنیلوں سے زیادہ محب وطن بھی ہیں۔ انہوں نے فوج کو ہمیشہ افرادی قوت سے مدد فراہم کی ہے، افغانستان ہو یا کشمیر، ان کے ”جہادی“ ہمیشہ فوج کی اگلی صفوں میں لڑے اوران میں سے بہت سے لوگوں نے جام شہادت نوش کیا۔ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ بے شک اس وقت مولانا سمیع الحق ہیں لیکن دفاع پاکستان کونسل کی قوت بلا شبہ جماعت الدعوہ ہی ہے۔ دفاع پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہونے والے حالیہ جلسے اور مظاہرے بھی زیادہ تر حافظ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ارینج کئے۔ میں اس سے پہلے ایک کالم ”یہ کیسا جہاد ہے؟“ میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ ان جلسوں اور مظاہروں کے پیچھے اصل ”ہاتھ“ پاکستان کی سپاہ اور ان ایجنسیوں کا ہے جو اس طرح کی جہادی تنظیموں کی سپورٹ اس لئے کرتی رہیں کہ ان سے سپورٹ حاصل کی جاسکے۔

حافظ سعید صاحب کے ساتھ کچھ امور میں اختلاف رکھنے کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ زندگی اور موت کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھتے ہیں ، امریکہ کی جانب سے ان کے سر کی قیمت مقرر کرنے کے احمقانہ فیصلہ سے ان کی زندگی میں شائد کوئی فرق نہ پڑے لیکن اب اصل امتحان پاک فوج کا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ دفاع پاکستان کے جلسوں سے خطاب کرنے والے اکثر لوگ وہ ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح فوج اور ایجنسیوں سے ہوتا ہے۔ جنرل حمید گل، شیخ رشید، اعجاز الحق سمیت علماءکرام کی اکثریت ایجنسیوں سے قریبی تعلق رکھتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پہلے ایجنسیوں کے لئے جو کام جماعت اسلامی کیا کرتی تھی اب وہی کام کافی حد تک جماعت الدعوہ نے سنبھالا ہوا ہے اور اس کے پیچھے دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی وجہ پاکستان کی محبت سمجھی جاتی ہے کہ صرف فوج ہی پاکستان کی حفاظت کے لئے نہ ہو بلکہ عام شہری اور نوجوان بھی اس کام میں اپنا ”حصہ“ ڈالیں۔ پاک فوج کے لئے بڑا کڑا وقت ہے کہ کیا وہ اسامہ بن لادن آپریشن کی طرح امریکہ کو اس بات کی بھی اجازت دیدے گی کہ وہ حافظ صاحب کے بارے میں بھی اسی طرح کا آپریشن کرے؟ وہ شخص اور وہ جماعت جو پاکستان میں، اس کے قوانین کے مطابق سر گرم عمل ہو، جس شخص اور جس جماعت کو سپریم کورٹ نے بھی بمبئی حملوں جیسے الزامات سے با عزت بری کردیا ہو ، جو پاک فوج کے ہراول دستے کا کردار ادا کررہا ہو اور جو فوج اور اس کی ایجنسیوں کے کہنے پر دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف رائے عامہ ہموار کررہا ہو، کیا پاک فوج اس سے امریکہ کی وجہ سے کنارہ کشی اختیار کرلے گی یا اس کا مقدمہ لڑنے کو تیار ہوگی۔ رہی بات حکومت وقت کی تو ایسا لگتا ہے کہ حافظ صاحب کے معاملے میں بھی حکومت نے کوئی ”میمو“ امریکہ کو بھیجا ہوگاکہ مائی باپ! یہ وہ بندہ ہے اور یہ وہ جماعت ہے جو ہمارے کنٹرول میں نہیں، اگر آپ اس کا کچھ کرسکتے ہیں تو مہربانی فرما کر کر لیں تاکہ عوام الناس، جو اس وقت ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے اس لئے خلاف ہوگئی ہے کہ حافظ صاحب اور اس ”قماش“ کے لوگ اسے ”ورغلانے“ میں مصروف اور کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ حکومت کے جس وزیر کو دیکھیں اس کی اس امریکی اعلان کے بعد باچھیں کھلی ہوئی ہیں۔ حافظ صاحب اور ان کے رفقاءنے بڑے دھیمے انداز میں حکومت کو ”تنگ“ بھی تو بہت کیا ہے، ہم عوام تو خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے، ڈرون حملے ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، کونسے وہ لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد یا باقی ملک میں ہورہے ہیں، ڈرون تو قبائلی علاقوں میں ہی گرتے ہیں، وہاں کے لوگ ہی مرتے ہیں، نہ ہمارا ان سے کوئی رشتہ، نہ دوستی....! اگر نیٹو سپلائی بحال ہورہی ہے تو ہوتی رہے، اگر نیٹو افواج اور امریکی فوج افغانیوں کا قتل عام کرتی ہے تو کرتی رہے، ہم نے کیا پوری دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے....؟ ایک بات پر حافظ صاحب کو بھی غور کرنا چاہئے کہ جہاد اگر فرض ہے تو کسی کے کہنے پر نہیں، نہ تویہ کسی کے کہنے پر شروع ہونا چاہئے اور نہ ہی ختم۔ یہ تو اسلام کا حکم ہے جسے ہر وقت اور ہر حال میں جاری و ساری رہنا چاہئے۔ ویسے امریکی حکومت اور امریکی عوام کے کیا تاثرات ہوں گے جب سابق امریکی صدر بش کے سر کی قیمت بھی اسی طرح مقرر کردی جائے گی اس لئے کہ اس نے اس موجودہ دور میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ شروع کی یا اگر امریکی افواج کے کمانڈر کے سر کی قیمت مقرر کی جائے اس لئے کہ عراق و افغانستان میں سر عام مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا....! ایسا وقت زیادہ دور تو نہیں رہ گیا۔ ایک بات جومیں آخر میں کہنا چاہتا ہوں کہ امریکہ کی غلامی بہت ہوگئی، اب اس سے نکلنا ہوگا، اپنے آپ کو اللہ کی غلامی میں دینا ہوگا، یہ ملک اسی لئے حاصل کیا گیا تھا کہ باقی سب غلامیوں کو چھوڑ کر، اغیار کی بادشاہتوں کو چھوڑ کر صرف اور صرف ایک اللہ کی غلامی قبول کی جائے اور اسے ہی اصل شہنشاہ سمجھا جائے، مانا جائے اور اسی کی بات پر عمل کیا جائے، چاہے ساری دنیا ناراض ہوجائے....! فوج کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ عزت اللہ کی غلامی میں ہے، غیر اللہ کی غلامی میں صرف اور صرف ذلت ہے، رسوائی ہے اور آخرت میں دردناک عذاب بھی.... وما توفیقی اِلاباللہ۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206704 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.