بیچارے حکمران

عجیب بلکہ عجیب و غریب ہے یہ قوم بھی۔ یہ خوب جانتی ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور اس کی کل آمدنی سے قومی درد میں ڈوبے راہبرانِ قوم کا پیٹ بھی مشکل ہی سے بھرتا ہے ، پھر بھی کفایت شعاری نام کو نہیں ۔ ادھر اپنے چیف صاحب ہیں جو لٹھ لے کر ہمارے معصوم لیڈروں کے پیچھے پڑے پائی پائی کا حساب مانگ رہے ہیں ۔ کوئی پوچھے کہ ”بھلے آدمی “ ان کا تو پہلے ہی طالبان اور دہشت گردوں نے ”ٹینشن “ دے دے کر بُرا حال کر دیا ، رہی سہی کسر امریکی دھمکیاں پوری کر دیتی ہیں اور گاہے گاہے عسکری قیادت بھی جھٹکے دیتی رہتی ہے ۔ یہ کیا کم تھے جو آپ بھی درمیان میں کود پڑے ہیں ؟۔ ایسے میں بندہ بیمار نہ ہو تو کیا ہو ؟۔ وہ تو شکر ہے کہ سات رُکنی بنچ نے دو ہفتوں کی مہلت دے دی وگرنہ ہو سکتا ہے کہ ”بنچ“ کو یقین دلانے کے لئے ڈاکٹر سے تین ماہ کے ”کمپلیٹ بیڈ ریسٹ “ کا میڈیکل سرٹیفیکیٹ بنوانا پڑتا اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ PPP کے پاس ڈاکٹررں کی کمی نہیں ۔ اپنے ڈاکٹر بابر اعوان تو آجکل ”ناراض شراض“ ہیں لیکن اللہ سلامت رکھے ڈاکٹر رحمٰن ملک کو ، وہ سرٹیفیکیٹ دینے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کرتے ۔ دروغ بر گردنِ راوی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان تو چھ ماہ کا میڈیکل سرٹیفیکیٹ دینے کے لئے پر تول رہی تھیں لیکن اعتزاز احسن نے تپ کر کہا کہ کیوں میری روزی پر لات مارتی ہو ، میں نے اور کیسز بھی لڑنے ہیں اور تم ہو کہ مجھے چھ ماہ کے لئے گھر میں نظر بند کرنے پہ تُلی ہوئی ہو ۔ مجھے تو میرے ازلی دشمن آمر مشرف نے بھی محض ایک ماہ ہی ہاؤس ریسٹ کیا جس سے میرا کروڑوں کا نقصان ہو گیا ۔ مشرف کا نام آتے ہی فردوس عاشق اعوان نے بھی تیوریوں پر بل ڈال کر کہا کہ خبر دار جو محترم المقام مشرف کی شان میں میرے سامنے کوئی نا زیبا بات کہی ۔ وہ میرے ”سابقہ باس“ ہیں اور میں احسان نا سپاس “ نہیں ۔ وہ تو ڈاکٹر عاصم حسین نے بیچ بچاؤ کر ا دیا ورنہ بات اگر ایوانِ صدر تک جا پہنچتی تو پتہ نہیں کیا ہوتا ۔ وہاں تو جو ہوا سو ہوا لیکن ہمارا بنچ بھی بڑا کائیاں نکلا ۔ اس نے خطرہ بھانپتے ہوئے ٹھک سے دو ہفتے کی تاریخ دے کر سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ۔

بات کفایت شعاری سے شروع ہوئی لیکن ”اینویں ای“ کسی دوسری طرف نکل گئی تو آمدم بر سرِ مطلب ذکر ہو رہا تھا اس فضول خرچ قوم کا جس میں ذرا بھی حوصلہ نہیں ۔ حکومت بجلی بچا کر کفایت شعاری کا درس دیتی ہے اور یہ ڈنڈے لے کر سڑکوں پہ نکل آتی ہے ۔ اِدھر میاں شہباز شریف ہیں جو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ۔ان کی خوشی کا سبب یہ نہیں کہ PPP مصیبت میں ہے بلکہ یہ ہے کہ قوم قوم خوب خوب ٹائر جلا رہی ہے اور ”ڈینگی“ چونکہ زیادہ تر ٹائروں میں پرورش پاتا ہے اس لئے اس موذی سے چھٹکارے کی سبیل خود بخود پیدا ہو گئی ۔شاید اسی لئے انہوں نے اسلا م آباد تک پیدل لانگ مارچ کا اعلان بھی کیا ہے ۔ اُدھر بڑے میاں صاحب ٹھہرے قومی لیڈر اس لئے انہوں نے پورے ملک میں ”ٹائر جلاؤ ، ڈینگی مکاؤ“ کا اہتمام کرتے ہوئے احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے ۔ ویسے انہیں کراچی جانے کی ضرورت نہیں کہ وہ تو پہلے ہی جل چکا ہے ۔ یہ بھی شنید ہے کہ جناب آصف زرداری نے فوراََ فون پر میاں صاحب کو گلہ کرتے ہوئے کہا ”بڑے بھائی یہ کیا؟ “ تو میاں صاحب نے فرمایا کہ ”چھڈ یار اب مجھے بالکل ایم۔کیو۔ایم ہی نہ بنا دے جو روز اعلان کرتی اور واپس لیتی ہے پھر بھی دو ، چار احتجاج ہولینے دے پھر چھوٹے میاں صاحب سے بات کروں گااور ہاں مولانا فضل الرحمٰن کو کچھ لے دے کے تم خودسنبھال لینا “۔

محترم کپتان صاحب کے پاس چونکہ ”سونامی“ ہے جو نہ ڈینگی کا کچھ بگاڑ سکتا ہے نہ بجلی لا سکتا ہے ۔ اس لئے وہ فی الحال خاموش ہیں ۔ ویسے خبر ہے کہ وہ محترم ہارون الرشید صاحب کے ساتھ طویل صلاح مشورے کے بعد جلد کوئی اعلان کرنے والے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک بال سے سارے ڈینگی اُڑانے کا ”دل خوش کُن“ اعلان فرما دیں اور ساتھ یہ بھی کہ ”سونامی“ کے فالتو پانی سے ”ہزاروں من“ بجلی پیدا کی جائے گی ۔

پتہ نہیں آج قلم کیوں بار بار اصل موضوع سے پھسل کر کسی اور طرف نکل جاتا ہے ، حالانکہ میں نے آج صرف عوام کی درگت بنانے اور عوام کے ہاتھوں پسی ہوئی حکومت کے گُن گانے کے لئے ذہن بنایا تھا لیکن لگتا ہے کہ قلم بھی آج عوام سے ایسے ہی ”ملی بھگت“ کئے بیٹھا ہے جیسے ایم۔کیو ۔ایم اور اے۔این۔پی بھتہ خوروں اور قبضہ گروپوں سے ۔ ۔۔۔ ۔اور ہاں لیاری والے بھی کسی سے کم نہیں ۔

بہر حال عوام کو شرم آنی چاہیے کہ ان کی فضول خرچیوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے زرداری صاحب ناراض ہو کر لندن یاترا کو نکل گئے ہیں اور ”گدی نشین“ سیﺅل سدھار گئے ۔ لیکن وہاں جا کر بھی ”مُرشد“ کا دل اپنے ”مریدین“ کی یاد میں مچلتا رہا ۔انہوں نے وہیں سے اس اعلان کے ساتھ اٹھارھویں مرتبہ لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لے لیا کہ اگر اٹھارہ سو مرتبہ بھی نوٹس لینا پڑا تو ضرور لوں گا کہ آخروہ اٹھارہ کروڑ کا منتخب کردہ وزیرِ اعظم ہیں کوئی چپڑاسی نہیں ۔ وزیرِ اعظم کے اعلان کے ساتھ ہی مجوّزہ وزیرِ اعظم نے اعلان فرما دیا کہ”لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو گی “۔ اب تو محترم چیف جسٹس صاحب کو یقین کر لینا چاہیے کہ ہمارے بیچارے وزیرِ اعظم کتنے بے بس ہیں ۔ وہ تو ”خط لکھنے“ سمیت بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ”کوئی“ کرنے دے تب ناں ۔ یہی بات بیچارے اعتزاز احسن سات رکنی بنچ کو سمجھا سمجھا کے بیمار پڑ گئے ۔ شاہ جی تو اس شاہ خرچ قوم کے ہاتھوں بجلی کی مدّ میں اڑائے گئے پی۔ایس۔او کے 215 ارب روپئے بھی دینے کو تیار ہو گئے تھے لیکن PPP کے ایک معتبر جناب تسنیم نورانی نے ایک نیوز چینل پر یہ کہہ کر ”کھوتا ہی کھوہ“ میں ڈال دیا کہ حکومت خود پائی پائی کی محتاج ہے، پیسے کہاں سے لائے ؟۔۔۔۔ اینکر کے سوال کرنے پر انہوں نے کہا کہ آمر مشرف کے دور میں محض اس لئے بجلی موجود تھی کہ جب بھی حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی مقروض ہوتی تھی تو مشرف کوئی نہ کوئی بندہ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرکے پیسے بٹورتا اور کمپنیوں کے حوالے کر دیتا ۔ ہماری حکومت چونکہ عوامی ہے اس لئے ہم عوام کے ساتھ ایسا ”ہتھ“ نہیں کر سکتے ۔ ان کی بات میں دم تو ہے۔پھر یہ بھی کہ ” دشمنانِ ملک و ملّت“ کنٹینرز سپلائی بحال کرنے دیتے ہیں نہ امریکہ سے تعلقات اور جب ”ان داتا“ ہی ناراض ہو تو بھیک کہاں سے آئے ؟۔وزیرِ اعظم تو قوم کی خاطر کنٹینر سپلائی بحال کرنے کا ”رسک“ بھی لے لیتے لیکن الیکشن سر پر ہیں او ر ” شر پسند “ قوم کو بھڑکانے اور بھٹکانے کے ماہر ، اگر قوم بھٹک گئی تو پھر قوم کی ”ایسی خدمت“ کون کرے گا؟۔۔۔۔۔ سب کچھ بجا لیکن قوم پوچھتی ہے کہ کیا امریکہ سے ”حسین حقانی“ کا کچھ نہیں مل سکتا ؟۔ اور کیا حسین حقانی ملک و قوم کی خاطر اتنی سی قُربانی بھی نہیں دے سکتے؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643049 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More