بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا ٹھیک ہے؟

پاکستان اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے جن میں سے ایک اہم مسئلہ توانائی کے بحران کا ہے ،لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے شارٹ فال روز بروز بڑھ رہا ہے جس سے عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے،ہنگامہ آرائیاں اور احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن احتجاج کرتے وقت ہمیں اپنی املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے بلکہ ایک پرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہئے اور حکومت کو بھی عوام کے پرامن احتجاج کا نوٹس لے کر ان کے مسائل کے حل کے لئے توجہ دینا چاہئے ،اس وقت صنعتی سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور پاکستان کی بہت ساری انڈسٹریز نے اپنا بزنس یہاں سے وائنڈاپ کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چا ہئے، اگردوسری طرف دیکھیں کہ حکومت بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہے ؟تو ہمیں اس حوالے سے کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا کیونکہ موجودہ گورنمنٹ بجلی کے بحران پر قابوپانے کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے، البتہ اپنے پسندیدہ ملک بھارت سے بجلی لینے پر غور کیا جارہا ہے حالانکہ بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لئے ہمیں ہمارے دوست ملک چین نے بھی آفر کی تھی اس کے بعد ترکی اور ایران کی طرف سے بھی ہمیں اس طرح کی پیشکشیں ہوئی تھیں لیکن ہماری حکومت نے اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی تھی ۔

اگر اپنے پڑوسی ملک بھارت کو دیکھیں تو اس نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم تک نہیں کیا بلکہ پاکستان کی ہر سطح پر مخالفت کی اور برصغیر کی تقسیم کے وقت بھی اس نے نہایت مکاری سے کام لیتے ہوئے کچھ اس طرح سے تقسیم کرنے کی سازش کی تھی تاکہ پاکستان پھرسے واپس بھارت کاحصہ بن جائے لیکن اس کا یہ مذموم مقصد انشاءاللہ کبھی پورا ہوا ہے نہ ہی ہوگا البتہ ہمارے حکمرانوں کی غلطیوں سے اس نے پاکستان کو دولخت کرنے کے لئے اہم کردار ادا کیا، یہ وہ بدنما دھبہ ہے جسے دیکھ کر اور یاد کرکے انسان کے آنسو نہیں تھمتے،لیکن ہمارے حکمران پھر بھی بھارت کو تجارت کے لئے پسندیدہ ملک کا درجہ دیتے ہیں ،جی ہاں اس ملک کو ہم اپنا فیورٹ قرار دیتے ہیں جس کے انتہاپسند ہندوﺅں کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان سے آنے والی ہوا بھی ہمارے لئے باد صموم جیسی ہے جس میں ہم سانس لینا بھی گوارا نہیں کرتے ،
حکومت کو بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کچھ ضروری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ میرے ملک کے چمن میں بہار آجائے لیکن بھارت کی بجائے کسی دوست ملک سے بجلی لے لی جائے تو کئی مضطرب اور پریشان لوگوں کو قرار آجائے گا کیونکہ وہ لوگ جو نظریہ پاکستان کو سمجھتے ہیں یا ہمارے وہ بزرگ جنہوں نے بھارت سے صرف اس لئے ہجرت کی تھی کہ اب ہمارا رہن سہن ،ہمارا مذہب اور ہماری ثقافت ہندوﺅں سے الگ ہوگی جو کہ اسلام کے اصولوں پرمبنی ہوگی، اگر آج ہم نے پھر سے بھارت کے سامنے جھولی پھیلائی تو ان کا مان ٹوٹ جائے گا انہیں کافی تکلیف ہوگی اس لئے ان محب وطن لوگوں کے لئے بھارت سے بجلی نہ لی جائے ،موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت پھر سے بلوچستان میں متحرک نظر آرہا ہے اور آزادی پسند تحریکوں کو ہوا دے کر پاکستان کو نقصان پہچانے کی سازش میں مصروف ہے لیکن ہمارے حکمران خواب غفلت کی نیند میں ڈوب کر بھارت کی تعریفوں کے پل باندھنے میں مصروف ہیں اور ہمارے صدر زرداری صاحب بھارت یاترا کے لئے جا رہے ہیں ۔

”بھارت سے بجلی نہ لی جائے موم بتی پر بھی گزارا کر لیا جائے گا “جی ہاں یہ بات ہمارے بزرگ جناب مجید نظامی صاحب نے کہی ہے جو کہ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ پاکستان کی عوام کے لئے بھی کافی توجہ طلب اور سوچنے کی ہے کہ جس ملک کی مٹی سے محبت کرنے والے اور نظریہ پاکستان کا پرچار کرنے والے جناب مجید نظامی جیسے بزرگ ہوں تو اس ملک کے ہر فردکو ملک دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنا چاہئے
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

بھارت نے پاکستان کو جو مطلوب افراد کی فہرست دی ہے اس میں سرفہرست جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید صاحب ہیں جو اس وقت دفاع کونسل کے اہم رہنما ہیں بھارت کے کہنے پر امریکہ نے بھی پاکستان کے ایک اہم رہنما کے سر کی قیمت مقرر کردی ہے جو ہمارے حکمرانوں کے لئے بھارت کا اک نیا تحفہ ہے کیونکہ بھارت ان کا پسندیدہ ملک جو ہے اور وہ اپنے فیورٹ ملک سے کبھی خود کش دھماکوں کے تحفے وصول کرتے ہیں تو کبھی کسی جماعت کو کالعدم کروانے کے لئے اپنے پسندیدہ ملک کے احکامات کی پیروی کرکے خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 201579 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.