سپریم کورٹ کی جیورسڈکشن ( دائرہ اختیار سماعت ) کا تعین واضح طور پر آئین
کے آرٹیکلز 184 تا 186 میں کردیا گیا ہے اور ان اختیارات سے ماوریٰ جن کا
تعین آئین نے کردیا ہے ، وہ کسی دیگر اختیار یا جیورسڈکشن کا استعمال نہیں
کر سکتی ۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ زرداری صاحب اینڈ کمپنی نے اب سپریم کورٹ کو ایک
نئی جیورسڈکشن تفویض کی ہے ، اور وہ ہے ، تاریخ کی درستگی !
سپریم کورٹ اگر اس نئی تفویض کردہ جیورسڈکشن کا استعمال شروع کرتی ہے تو ہم
معزز عدالت کو assist کرتے ہوئے یہ استدعا کریں گے کہ تاریخ کی درستگی کا
یہ عمل ذرا پیچھے سے شروع کیا جائے ۔۔۔۔ یعنی ۔۔۔۔ 1958 سے ! ۔۔۔ تاکہ
پروپیگنڈے کی سوغات کھا کر جوان ہونے والی دو تین نسلیں ، اس ٹولے کا حقیقی
چہرہ دیکھ سکیں !
ھاں تو جناب ! یہ 1958 ہے !اور ۷ اکتوبر کا ، پاکستان کے لئے منحوس دن !
ایک چوکیدار جسے قائد اعظم نے دھتکار دیا تھا ، وہ اپنے ھاتھ میں تھمائی
ہوئی بندوق کے زور سے ، اپنے گھر کے مالکوں پر چڑھ دوڑا اور انہیں اپنا
غلام بنا ڈالا !
لاڑکانہ سے شاہ نواز کا بیٹا دوڑا دوڑا آیا اور اپنی بیوی کی بہن ( ناہید
اسکندر مرزا ) کے توسط سے ، اس چوکیدار کو ڈیڈی کہہ کر اس سے لپٹ گیا اور
وزارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور جب تک اس چوکیدار کے ستارے اس کا
ساتھ دیتے رہے وہ اس کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملاتا رہا اور ان چرب
زبانیوں اور قصیدہ خوانیوں کی بدولت وزارت خارجہ جیسا اہم منصب حاصل کرنے
میں کامیاب رہا اور اس دوران اپنے اس منہ بولے ڈیڈی کو ایسی ایسی پٹیاں
پڑھائیں اور ایسے اقدامات کرائے کہ ستمبر 65 ءمیں بھارت پاکستان پر چڑھ
دوڑا ! راقم الحروف کی آج بھی یہ رائے ہے کہ ۔۔۔۔ جنگ ستمبر بھارت نے نہیں
، بھٹو نے مسلط کی تھی !( روزنامہ ندائے ملت لاہور ، اشاعت 6 ستمبر 1970ئ)
وقت نے اس چوکیدار سے آنکھیں بدلیں تو اس برخوردار نے بھی آنکھیں بدل لیں
اور ھاتھ میں تاشقند کا تھیلا پکڑ کر ، ڈیڈی سے 16 جون 1966ءکو ۸ سال کی
رفاقت کے بعد ، قطع تعلق کر لیا ۔
30 نومبر ، یکم دسمبر کو تاشقند کے رازوں کی پٹاری ھاتھ میں لئے ، زندہ
دلون کے شہر ، لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور خود اس کے
پہلے چئیرمین بنے ، جو ملغوبہ ، پیپلز پارٹی کے پروگرام کی صورت میں پیش
کیا، وہ یہ تھا :
اسلام ہمارا دین ہے ،
۔جمہوریت ہماری سیاست ہے ،
سوشلزم ہماری معیشت ہے ،
۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
اس ملغوبے سے جو نعرہ کشید کیا گیا ، وہ تھا ، روٹی ، کپڑا اور مکان ! مانگ
رہا ہے ہر انسان !
ایوب خان کے خلاف تحریک کو ہوا دینے کے لئے پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ راولپنڈی
میں زیر تعلیم پنڈی گھیب کا ایک طالب علم گولی کا نشانہ بنا ، حالات اتنے
خراب ہوئے کہ ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا اور بھٹو ٹولے کے ایک اہم رکن ،
ننگ پاکستان ، یحیٰ خان نے بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اقتدار سنبھالا ،
بھٹو ٹولے ( جنرل پیر زادہ وغیرہ) نے اسے شراب و شباب میں اس قدر مصروف
رکھا کہ اسے گرد و پیش کی خبر ہی نہ رہی اور ان حالات میں ایک آدمی ، ایک
ووٹ کی بنیاد پر عام انتخابات ہوئے ۔ عوامی لیگ نے 300 نشتستوں پر قومی
اسمبلی میں مشرقی پاکستان کے لئے مختص تمام نشستیں جیت لیں جبکہ مغربی
پاکستان کے لئے مختص 138 نشستوں میں سے 81 نشستیں پیپلز پارٹی نے جیت لیں ۔
اقتدار بلا شرکت غیرے ،عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمان کا حق تھا لیکن 300
کے ایوان میں 81 نشستیں رکھنے والی پارٹی نے ادھر تم ، ادھر ہم ! کا نعرہ
لگا کر پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش قائم کرنے کی بنیاد رکھ دی اور یہاں
تک کہا کہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے ، مغربی پاکستان
سے جو رکن اسمبلی جائے گا ، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی !
بھٹو کے بیانات اور طرز عمل نے مشرقی پاکستان میں جلتی پر تیل کا کام کیا ،
بھارت اور امریکہ بھی وہی کچھ چاہتے تھے جو بھٹو کر رہا تھا ۔بھٹو کو
اقتدار میں شرکت مطلوب نہیں تھی ، مطلق اقتدار چاہئے تھا ، مشرقی پاکستان
کے ساتھ رہنے کی صورت میں یہ ناممکنات میں سے تھا ، اس لئے بھٹو نے یحیٰ
خان کے ذریعے ، اپنے یار فوجی جرنیلوں سے مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن
کرادیا ۔ یہ فوجی ایکشن قطعی بلا جواز تھا اور اس کا صرف ایک مقصد تھا کہ
متحدہ پاکستان کے لئے کلمہ خیر کہنے والا کوئی ایک بھی باقی نہ رہے ، ٹکا
خان اور ٹائیگر نیازی نے جو کچھ کیا ، اس پر تاریخ ہمیشہ شرماتی رہے گی
حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے ۔۔۔۔۔THE COMMANDER IN CHIEF
REMAINED INDIFFERENT! وہ کون تھا یا تھے جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے ڈراپ سین
تک جام یحیٰ کے ھاتھ سے نہیں گرنے دیا ؟یہ سب کچھ کس کے اشارے پر ، کس کے
ایما پر اور کس کے مفاد کے لئے ہوا ؟ صرف اور صرف مسٹر بھٹو کے لئے !
بھٹو کو اقتدار صرف سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں ہی مل سکتا تھا اور اس
نے یہ کر دکھایا ! امریکہ بلا شبہ یہی کچھ چاہتا تھا اس لئے اس کا ساتواں
بحری بیڑا آرام ہی کرتا رہا !
اندرا گاندھی ، مجیب الرحمان اور زیڈ اے بھٹو نے بلا خوف و خطر پاکستان توڑ
دیا !مشرقی پاکستان میں تین ملین انسانوں کے قتل عام کو اگر مبالغہ بھی
سمجھ لیا جائے تب بھی لاکھوں انسان صرف بھٹو کی خواہش اقتدار کی بھینٹ
چڑھے، وہ اقتدار جو اسے پاکستان ٹوٹنے کی صورت میں ہی مل سکتا تھا ۔ وہ
قائد عوام نہیں ، قاتل عوام تھا ۔ وہ تو صرف احمد رضا قصوری کے والد کے قتل
کے الزام میں سولی پر لٹکا ، اپنی صدارت اور وزارت عظمیٰ کے دور میں ایف
ایس ایف کے ذریعے کراچی اور سارے پاکستان میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی ،
اسے سقوط مشرقی پاکستان کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو اس قاتل اعظم کو شہید
کہنے والوں کی عقل پہ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ۔یہاں تک تاریخ درست کرتے
ہوئے یہ بھی پیش نظر رہے کہ ان تمام قاتلین پاکستان ( اندرا ، مجیب اور
بھٹو ) کا خود قدرت نے کیا حشر کیا ؟اور کیا قدرت کا ان سب سے ایک جیسا
انتقام ، مقام عبرت نہیں ؟پاکستان کو دولخت کرنے والوں کا قدرت نے نام و
نشان تک مٹا دیا !فاعتبرو یا او لی ا لابصار!
سقوط ڈھاکہ کے بعد ، مسٹر بھٹو کا بطور صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر
اقتدار سنبھالنا ، کسی استحقاق کی بنیاد پہ تھا یا سازش کی بنیاد پہ ؟کیا
یحیٰ خان کے جانشین فوجی جرنیل ، امریکہ کے حکم پہ اس کے ذمہ دار نہیں تھے
؟ کیا پاکستان کا کوئی فوجی یا سیاسی حکمران امریکہ کی حکم عدولی کی پوزیشن
میں تھا ؟کیا وہ انتخابات جن کے نتائج پاکستان ٹوٹنے کا سبب بنے ، ان کی
کوئی آئینی ، قانونی اور اخلاقی حیثیت رہ گئی تھی ؟ کیا ان نتائج کی بنیاد
پر اقتدار طشتری میں رکھ کر بھٹو کو پیش کرنا جائز تھا ؟ اور کیا اس سے بڑا
مذاق بھی کوئی ہو سکتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک سویلین ، چیف
مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا ؟ اور کیا یہ اس سے بھی بڑا مذاق نہیں ہے کہ
پاکستان کی مسلح افواج نے ایک سویلین کو بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر
قبول کیا ؟اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ کیا بھٹو اور کیا فوجی جرنیل ، ان سب
کی ڈور امریکہ کے ھاتھ میں تھی اور وہ کٹھ پتلیوں کی طرح اس کے اشاروں پہ
ناچ رہے تھے ؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ مارشل لا کے سائے میں ایک عبوری آئین
نافذ کیا گیا ؟ جس اسمبلی نے دباﺅ کے تحت یہ آئین بنایا ( جس میں تمام
اختیارات وزیر اعظم کی ذات میں مرکوز تھے )یا بعد میں مستقل آئین ( موجودہ
آئین ) بنایا ، اس اسمبلی کی اپنی آئینی اور قانونی حیثیت کیا تھی ؟ کیا وہ
آئین ساز اسمبلی کے طور پر منتخب ہوئی تھی ؟کیا وہ قوم کی نمائندہ اسمبلی
تھی ؟
مسٹر بھٹو عام جلسوں میں چھپن کے آئین کا یہ کہ کر مذاق اڑایا کرتے تھے کہ
ان لوگوں نے چھپن کا آئین ، چھپن کا آئین ، کی رٹ لگا رکھی ہے ۔۔۔ اب 73 کے
آئین کی رٹ لگائی جا رہی ہے ! تاریخ درست کرتے ہوئے یہ بتایا جائے کہ یہ
آئین بنانے والوں کے پاس کوئی اختیار بھی تھا ؟اگر 1962 ءکے آئین میں( جو
زلفی صاحب کے منہ بولے ڈیڈی نے قوم کو دیا تھا ) وہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر
کی طرح خود ہی نظر آتے تھے تو 73 ءکے آئین میں کون نظر آتا تھا ؟
تاریخ درست کرتے ہوئے مذکورہ بالا سوالات پہ بھی غور کیا جانا چاہئے !
تاریخ درست کرتے ہوئے اس سوال کا جواب بھی نا مناسب نہ ہوگا کہ مسلح افواج
، رینجرز اور پولیس کی موجودگی میں جو تمام کی تمام حکومت کے ماتحت ہوتی
ہیں ، فیڈرل سیکیورٹی فورس کے نام سے ایک خصوصی فورس بنانے کی کیا ضرورت
تھی ؟یہ صرف اور صرف وزیر اعظم کی ذات کو جواب دہ کیوں تھی ؟اس پر کوئی چیک
نہیں تھا ! یہ مادر پدر آزاد تھی ! قانون اور عدالتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ
سکتی تھیں ! اگر اس کے عہدیداروں کے کرتوتوں کی سزا بھٹو کو بھگتنا پڑی تو
یہ عدالتی قتل کیسے ہوگیا ؟آخر ماورائے عدالت قتل کی سزا ، عدالتی قتل ہی
تو ہے !اگر قاتل عوام اور قاتل پاکستان کو اس کے علاوہ کوئی اور سزا ملتی
تو یہ اس مملکت خداد اد اور اس کے عوام سے زیادتی ہوتی !
اور آخر میں تاریخ درست کرتے ہوئے ایک نظر اس پر بھی ڈال لینی چاہئے کہ ضیا
ءالحق کے قتل میں صرف امریکہ ہی نہیں ، یہاں والے بھی شریک تھے ، وہ کون
تھے ؟ضیا ءالحق جیسا بھی انسان تھا اور جیسا بھی حکمران تھا ۔۔۔۔۔ اسے داد
ملنی چاہئے کہ اس نے مملکت خداداد کے قاتل کو ساری دنیا کا دباﺅ برداشت کر
کے بھی سولی چڑھوا دیا ! |