صُلح نامہ

خبر ہے کہ سر براہ عوامی لیگ شیخ رشید نے مولانا عبد العزیز سے صلح کر لی ،شیخ رشید ،اعجاز الحق کا نام سنتے ہی سانحہ لال مسجد ذہن میں گھوم سا جاتاہے ،سانحہ لال مسجد ہماری تاریخ کا ایسا بھیا نک باب ہے جس کے زخم کبھی مندمل نہیں ہوں گے ،رستے ہی رہیں گے ۔ اس میں مثبت اور منفی کردار کے حاملین صفحات تاریخ پر ہمیشہ مثبت رہیں ، لال مسجد کو ”فتح “کر کے وکٹری کا نشان بنانے والے بھی تاریخ کی دسترس سے باہر نہیں ۔ پرویز مشرف اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے وزراءاور مشیران اس ”کا ر خیر “میں مشرف کر کندھا دینے والی تمام شخصیات شوکت عزیز ،چوہدری شجاعت ، مشاہد حسین سید ،آفتاب احمد شیر پاﺅ ، محمد علی درانی ،شیخ رشید ،شیر افگن نیازی ،اعجاز الحق ودیگر رفقائے کار ،کس کارونا رویا جائے ،کس کس کو قصور وار گردانا جائے ؟مذہبی جماعتیں ،سیاسی جماعتیں ،وکلاء،تاجر برادری اورنام نہاد صحافت کا علمبردار الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا غرضیکہ سب ہی اس عظیم سانحے کے قصور وار ہیں ۔معدودے چند جنہیں خدائے عز و جل نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق بخشی وہ ابرہہ کے لشکر کے سامنے ابابیلوں کی طرح اپنی بساط کے مطابق تحریر و تقریر کے ذریعے ظلم کی بھڑکتی آگ کو بجھانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے لیکن
تیری بربادیوں کے شہرے ہیں آسمانوں پر
کے مصداق کے مطابق پرویز ی لاﺅ لشکر نہتے معصوم طلباءو طالبات پر مسجد مدرسہ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے چڑھ دوڑا تھا، کسی کو کیا خبر تھی کہ ایک اور کربلا وقوع پذیر ہونے کو ہے۔ٰ پرویز مشرف نے ایک ”خاموش آپریشن “کا فیصلہ کر کے تمام مذاکرات اور افہام و تفہیم کے دروازے بند کرتے ہوئے سب کو خاموش کرانے کی ٹھان لی تھی پھر وہ ہو ا جس کا کسی کو تصور بھی نہ تھا ۔3جولائی سے 10جولائی تک آتش و آہن کی بارش میں میدان جنگ کا منظر پیش کرنے والی شہیدوں کے لہو سے سرخ ہونے والی ”لال مسجد “شکستہ دیواروں اور حق و صداقت کے علمبردار منبر و محراب کی زبوں حالی کا نوحہ روتی رہی ،مسجد کے حاطے میں موجود درختوں کے پیٹ میں موجود آج بھی گولیوں کے خول اور نشانات دیکھنے والوں کے لیے موجود ہیں ،قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے مقدس اوراق جو گولیوں سے چھلنی ہوئے بعد ازاں گندے نالوں میں پھینکے گئے آج بھی فریاد کناں ہیں ،شہداءکی مقدس روحیں تو اعلیٰ علیین میں راحت و سکون کے ساتھ چلتی پھرتی ہوں گی لیکن اس ظلم عظیم میں اپنے ہاتھ خون سے رنگنے والے حکمران اور ان کے حواریوں کو شاید خوابوں میں بھی بدر و حنین نظر آتی ہوں گی اور آتی رہیں گی ۔

دہشت گردی کی لپیٹ میں بغداد ،عراق اور افغانستان کا منظر پیش کرنے والا وطن عزیز پاکستان زخموں سے چور چور ہے ہر گلی محلہ ماتم کدہ اور گھرمیں صف ماتم بچھ چکی ہے ۔غازی شہید ؒ نے پیشن گوئی کی تھی کہ آپریشن کے بعد یہ ملک بغداد کا نقشہ پیش کرے گا آج پورا ملک اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے ۔اس سانحے کا ماسٹرمائینڈ پرویز مشرف تو فی الحال دنیا میں چلتا پھر تا ہے لیکن انصاف کا دن مقرر ہے یوم حسا ب نے بھی آتا ہے ،تمام ظلم تاریکیوں کی صورت میں اس پر سایہ فگن ہوں گے۔ کہیں لال مسجد کے شہداءاس کو گھیرے ہوں گے تو کہیں بلوچ سرداد اکبر بھگٹی دست بگریباں ہوگا، کہیں ابوغریب اور گوانتا نومو بے کے قیدی جنہیں کوڑیوں کے دام امریکہ کے حوالے کیا گیا ا س سے شکوہ کناں اور اللہ کی عدالت میں انصاف کے طلبگار ہوں گے تو کہیں قوم کی عزت” عافیہ صدیقی“ اپنے بچوں سمیت اس کے خلاف بارگاہ الٰہی میں اپنے حق کا مطالبہ کر رہی ہوگی ۔صرف مشرف نہیں اس کے حواری بھی مظلوموں کے آنسوﺅں اور سسکیوں سے بچ نہ سکیں گے ،ہزار جتن کے باوجود گلو خلاصی نہ کر پائیں گے ۔

اس سانحہ کے بعدبہت ساروں کو اللہ تعالیٰ نے صرف اقتدار نہیں بلکہ وطن سے بھی دربدر کر دیا آج و ہ وطن واپسی کے لیے پر تول رہے ہیں لیکن ان کی واپسی کے راستے مسدود ہو چکے ہیں شوکت عزیز ،محمد علی درانی اور شیرافگن نیازی یہ سب نام محض سننے کو ملتے ہیں یہ سب عنقاء ہیں ۔پھر بھی اگر وہ وطن واپس آنا چاہیں تو قوم کو ان کی آمد کا ”شدت “سے ”انتظار“ ہے۔ اب پھر انتخابات کی آمد آمد ہے گزشتہ انتخابات میں ”قاتل لیگ “بری طرح متاثر ہوئی، مخصوص حلقوں میں اجارہ داری کرنے والوں کو بھی شکست سے دوچا رہونا پڑا ،سر براہ عوامی لیگ شیخ رشید بھی انہی متاثرہ لوگوں میں سے ہیں ،لال مسجد آپریشن کے بعد جب حالات سازگار ہوئے تو اپنوں کو ”اپنائیت “یاد آئی اور کیوں نہ آتی غیر بھی اپنی غلطیوں پر احساس ندامت کے آنسو بہا رہے تھے ۔معافیوں تلافیوں ایک لمبا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ہر ایک اپنے دامن کو صاف کرنے کی کوشش کررہا تھا ،غازی عبد العزیز نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدآمدہونے کے باعث اپنا معاملہ سب سے بڑی سپریم کورٹ اللہ کی دربار میں منتقل کر دیا اور یوں معافی نامہ کی طویل فہرست میں بہت سے یار لوگ شامل ہوتے رہے ،اعجاز الحق نے بھی مگر مچھ کے آنسو بہائے۔ سربراہ عوامی لیگ شیخ رشید نے آج تک سکوت کو حرز جان سمجھا اور مہر بلب رہے ۔گزشتہ دنوں انصار الامة کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خلیل نے شیخ رشید سے مولانا عبد العزیز کی صلح کروا دی۔ انتخابات کی آمد سے قبل سیاسی حلقے اس صلح کو خوش آئندقرار ردے رہے ہیں بہر حال صورت حال کچھ بھی ہو معاملہ اللہ کی عدالت میں موجود ہے وہ احکم الحاکمین اس قضیے کا خود ہی فیصلہ فرمائے گا چاہے قاتلوں اور حواریوں کو دنیا میں نشان عبرت بنائے یا حشر میں سزا دے ۔

حضرت لقمان حکیم جن کی حکمت سے لبریز گفتگو جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کی قرآن کریم میں موجود ہے انہی کی ایک نصیحت اپنے بیٹے کو یہ تھی کہ بیٹا ”اتنے میٹھے نہ بنو کہ لوگ تمہیں نگل لیں اور اتنے کڑوے مت بنو کہ لوگ تھوک دیں “،مولانا عبد العزیز پہلے بھی سادگی کی بنیاد پر بعض لوگوں پراندھے اعتماد کے باعث اتنے بڑے سانحے سے دو چار ہوئے ،مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں دھنسا جاتا ،قاتلین لال مسجد کے بھیانک چہروں سے مظلوموں کا خون ٹپکتا رہے گا جو ان کی سفاکیت وبربریت کو آشکارا کرتا رہے گا۔ان قاتلوں سے مصالحت کے نتیجے میں شہداءاور ان کے ورثاءپر کیا بیتتی ہوگی ....ان کے حاشیہ خیال میں کس قسم کے سوال پیدا ہو رہے ہوں گے ۔ اس طرح کے واقعات سے مخلصین لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتا ہے ،مولانا عبد العزیز کو پہلے سے زیادہ احتیاط سے چلنے کی ضرورت ہے شاید کہ مظلوموں کی آہیں اور سسکیاں رنگ لائیں اور سپریم کورٹ لال مسجد کیس کو ری اوپن کر کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچائے ،ہماری عدالتیں فیصلہ سنائیں نہ سنائیں اللہ تعالیٰ کی سپریم کورٹ اس دنیا میں بھی فیصلہ سنار ہی ہے اور بروز محشر بھی اس کا حساب لے گی ۔۔۔وہ دن دور نہیں جب شہداءلال مسجد کا خون اس ملک میں اسلامی انقلاب کاپیش خیمہ بنے گا۔۔۔ انشاءاللہ۔۔
Touseef Ahmed
About the Author: Touseef Ahmed Read More Articles by Touseef Ahmed: 35 Articles with 35069 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.