پنجاب کے وسیع و عریض گورنر ہاؤس
میں جنابِ آصف زرداری کی صدارت میں پنجاب کو فتح کرنے کے منصوبے تیار کیے
جا رہے تھے۔ صفیں درست کی جا رہی تھیں اور دام ہم رنگِ زمیں بچھانے کی
تیاریاں ہو رہی تھیں ۔ اسی دوران ”سلطنتِ زرداریہ“ کے حاکم نے اپنے مخالفین
کے خلاف دِل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے کئی ”آف دی ریکارڈ“ باتیں بھی کیں ۔
بھولے بھالے پہلوان راجہ ریاض یہ سمجھے کہ ”آف دی ریکارڈ“ کا مطلب ریکارڈ
پر لانا اور ریکارڈ کی طرح بجانا ہوتا ہے ۔ وہ شاہ کی وفا داری میں سرشار
وہاں سے کھسکے اور گورنر ہاؤس کے باہر مجمع لگا کر مُنہ کے گراموفون سے
اندر کی ساری باتوں کا ریکارڈ بجا دیا ۔ اب پتہ نہیں کہ چوہدری نثار کی
”وِگ“ کی جوؤں کا ذکر بھی زرداری صاحب نے ہی کیا تھایا پھر شاہ پرستی میں
”پہلوان جی“ نے مرچ مصالحہ لگانا فرضِ عین سمجھا ۔اُدھرگورنر ہاؤس میں
بیٹھے زرداری صاحب کو جب راجہ صاحب کی اس ”واردات“ کا علم ہوا تو وہ سر پکڑ
کر بیٹھ گئے ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے سمجھا کہ سر درد ہے ، وہ ”پیناڈول
“ کی تلاش میں دوڑیں اور گورنر پنجاب ننھے مُنے لطیف کھوسہ جب دِل جوئی کی
خاطر جنابِ صدر کے قریب پہنچے تو انہیں یہ بڑبڑاتے ہوئے پایا :۔
کیا غم خوار نے رسوا ، لگے آگ اس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو
بعد ازاں ایوانِ صدر کے ترجمان اور وزارتِ اطلاعات سے بار بار یہ بیان جاری
ہوتا رہا کہ جنابِ صدر کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر
پیش کیا گیا ہے ۔ زرداری صاحب نے بھی بڑی معصومیت سے یہ کہہ دیا ”میں تو
شریف برادران کے والد صاحب کی قبر پر فاتحہ کے لئے بھی گیا تھا “ جی ہاں !
سب کو یاد ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے بلاول اور حسن نواز کو
بھائی بھائی قرار دینے کا عہد کیا تھا لیکن ”وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے“
۔ایوانِ صدر اور وزارتِ اطلاعات کی وضاحتوں کے باو جود ضدی نواز لیگیے نہیں
مانے اور اب وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی ”ذوالفقار مرزا ٹائپ“
کوئی ڈرامہ ہی ہو کہ ”رند کے رند رہے ، ہاتھ سے جنت نہ گئی“ کے مصداق ”کچھ
بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے“۔ بوجھ سارا بیچارے راجہ ریاض کے ”پہلوانی “
کندھوں پر ۔
اگلے دن جنابِ صدر نے نسبتاََ ”ہتھ ہولا“ رکھتے ہوئے فرمایا ”شریف برادران
کی گردن میں سریا میں نے ہی دیا تھا اور اب میں ہی نکالوں گا“۔ ان کی اس
بات پر کوئی بھی ذی ہوش ہرگز یقین نہیں کر سکتا کیونکہ زرداری صاحب تو بلوچ
ہیں جب کہ میاں برادران ٹھہرے ”لوہاروں “ کی اولاد جو مُنہ میں ”لوہے کا
چمچہ“ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور پھر ساری زندگی سریا ہی موڑتے سیدھا کرتے
گزار دیتے ہیں ۔ بھئی ہم تو چار سالوں سے چیخ رہے ہیں کہ بھولے بھالے بڑے
میاں صاحب نے جنابِ آصف زرداری کی گردن میں ایسا موٹا سریا دے دیا ہے کہ اب
ان کی گردن غریبوں کی طرف مُڑنے سے یکسر عاری ہو چکی ہے ۔ اگر ہمارے بلوچ
سردار کسی ”اونٹ شونٹ “ کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہتے کہ ”میں نے ہی میاں
برادان کو اونٹ پر بٹھایا تھا اور اب میں ہی اتاروں گا “ تو کوئی بات بھی
تھی ۔ ویسے یہ لوہار بھی عجب شئے ہیں کہ ایک چھوٹی سی نکیل بنا کر اچھے
خاصے لمبے چوڑے اور با رعب اونٹ کو بلبلاتے ہوئے زمین چاٹنے پر مجبور کر
دیتے ہیں ۔
پتہ نہیں اپنے زرداری صاحب کو بیٹھے بٹھائے لوہار بننے کی کیا سوجھی ؟۔شاید
دوسرے قبیلے میں گھُسنا ان کی فطرتِ ثانیہ بن چُکی ہے کہ پہلے بھلے چنگے
زرداریوں کو ”بھُٹو“ بنا دیا اور اب بقلم خود لوہار بن بیٹھے ۔ بلاول بھٹو
تو شاید اب بھول ہی چکے ہونگے کہ کبھی وہ بھی زرداری ہوا کرتے تھے ۔ میں
اکثر سوچتی ہوں کہ اگر کبھی عاشقانِ بھٹو کے ذہن میں بھی یہ خیال پیدا ہو
گیا کہ وہ از راہِ محبت اپنی اپنی ذاتوں کے ساتھ بھٹو کا اضافہ بھی کر لیں
تو پھر کچھ ایسے نام سامنے آیا کریں گے جیسے شرمیلا بھٹو فاروقی ، سید
خورشید بھٹو ، راجہ ریاض بھٹو ، رانا نذیر بھٹو ، فردوس اعوان بھٹو ، سید
قائم علی بھٹو ، مرزا ذوالفقار علی بھٹو وغیرہ ۔پھر تو واقعی شریف برادران
سے کہا جا سکتا ہے کہ اب تو ”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے
“ ۔ پھر تو اتنے ”بھٹوز“ ہو جائیں گے کہ کپتان کا سونامی بھی بدنامی بن کے
رہ جائے گا ۔
ابھی کالم یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ نیوز چینلز نے جنابِ زرداری کے بھارتی
وزیرِ اعظم ہاؤس میں پہنچنے کی بریکنگ نیوز جاری کر دی ۔ میں نے جب جنابِ
زرداری کو گرم جوشی سے من موہن سنگھ صاحب سے ملتے دیکھا تو جل بھُن کے کباب
ہو گئی ۔میرا غصہ اس لئے نہیں تھا کہ میں پاکستانی ”بال ٹھاکرے“ ہوں بلکہ
اس لئے کہ بھارتیوں کو ہمارے پیارے صدر کا استقبال کرنا بھی نہ آیا ۔ جس
ملاقاتی کمرے میں ان کا استقبال کیا گیا اس سے کہیں بہتر تو ہمارے صدر کے
چپڑاسیوں کے کمرے ہوتے ہیں ۔ ایک ڈیڑھ فٹی پُرانی میز پر سادا پانی کے دو
گلاس ، دائیں بائیں دو کرسیاں اور بس ۔ یوں تو بھارت اپنے آپ کو بڑی توپ
شئے سمجھتا ہے لیکن اپنے وزیرِ اعظم کے کمرے کا پُرانا پھٹیچر فرنیچر تک
تبدیل کر نہیں سکتا ۔ سُنا تھا کہ ہندو بنیا یہ کہتا ہے ”چمڑی جائے پر دمڑی
نہ جائے“ آج اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا ۔وہ ذرا آ کے ہمارا ایوانِ صدر
دیکھیں ۔اگر آنکھیں پھٹی کی پھٹی نہ رہ جائیں تو نام نہیں ۔ شاید انڈین
پارلیمنٹ اسی لئے من موہن جی کو پاکستان نہیں آنے دیتی کہ کہیں ہمارا وزیرِ
اعظم ہاؤس دیکھ کر وہ بھی ایسے ہی وزیرِ اعظم ہاؤس کی ضد نہ کر بیٹھیں ۔
ہمیں غریب جاننے والوں کے مُنہ پر اس سے بڑا طمانچہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ
ہم نے کھڑے کھڑے ایک ملین ڈالر کا نذرانہ دے ڈالا ۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے
کہ یہ نذرانہ قومی خزانے سے گیا یا زرداری صاحب کی جیب سے کہ قومی خزانہ
بھی اپنا اور زرداری صاحب بھی اپنے ۔ شنید ہے کہ یہ ملاقات کامیاب رہی ۔ جی
ہاں ! اس لحاظ سے بہت کامیاب تھی کہ من موہن جی بولتے رہے اور زرداری جی
سنتے ۔ جب زرداری صاحب کے بولنے کی باری آئی تو من موہن جی ہنس کے بولے
”چھڈوبادشاہو ، روٹی شوٹی کھاؤ تے گھراں نوں جاؤ۔“ |