صدر امریکہ کی تقریب حلف
برداری روایتی یا تاریخی؟
امریکہ کے نو منتخب صدر بارک حسین اوباما کے منصب صدارت سنبھالنے میں صرف دوروز
کا فاصلہ باقی ہے ‘ 20جنوری کوواشنگٹن میں منعقد ہونے والی اس شاندار تقریب حلف
برداری کی تیاریاں بڑے زور و شور سے جاری ہیں اور اس تقریب کو ”تاریخی“ بنانے
کا اہتمام کیا جارہا ہے مگر یہ تقریب اس وقت ”تاریخی“ ثابت ہوگی جب نئے صدرِ
امریکہ حلف اُٹھانے کے بعد اپنے پیشرو ‘سابق صدر بش کے نقش قدم پر چلتے
ہوئے’‘دہشتگردی کے خلاف جنگ “ کے نام پر کمزور و اسلامی ممالک کا استحصال کرنے
اور معصوم و نہتے شہریوں کے خون سے امریکہ کے ماتھے پر تلک شاہی لگانے کی بجائے
اپنے وعدہ ”تبدیلی “ کے بموجب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خاتمے ‘ افغانستان سے
امریکی فوج کی واپسی ‘ عراق میں آزاد حکومت کے قیام ‘ کشمیری عوام کی اُمنگوں
کے مطابق مسئلہ کشمیر کا پر امن حل اور غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے
کے لئے اپنا کردار منصفانہ طور پر ادا کرتے ہوئے دنیا کو ظلم و جبر اور استبداد
سے نجات دلاکر امریکہ کے خلاف دنیا بھر اور بالخصوص اسلامی ممالک کے عوام میں
پائے جانے والے غم و غصہ کا خاتمہ کرتے ہوئے امریکی عوام کی عزت و وقار میں
اضافہ کریں گے تاکہ امریکہ جس معاشی بحران سے دوچار ہے عالمی برادری کے اتحاد و
تعاون سے اس بحران سے باہر آسکے اور امریکی عوام اپنی وہ شا ن و شوکت برقرار
رکھنے میں کامیاب ہوسکیں جو انہیں جارج ڈبلیو بش کے دورِ حکمرانی سے قبل حاصل
تھی اگر بارک اوباما نے اپنے پیشرو بش کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا میں لہو کی
ہولی کھیلنے کے لئے مسلم اُمہ کا گلا کاٹنے اور دنیا بھر میں امریکہ کو تنہا
کرنے کی پالیسی جاری رکھی تو پھر یہ تقریب تاریخی نہیں بلکہ ”روایتی“ کہلائے گی
۔ اوباما کمپنی کے لئے اولین ترجیح غزہ پر اسرائیلی حملے بند کرا کر اس مسئلے
کا پر امن تصفیہ ہونا چاہئے کیونکہ اسرائیل کا تشدد نہ صرف دہشت گردی اور دنیا
بھر کے پر امن عوام پر ”خود کش حملوں “ کے اسباب کو فروغ دے رہا ہے بلکہ اس سے
خود امریکہ کی سالمیت کے متاثر ہونے کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں اسلئے امریکہ کو
فوری طور پراسرائیل کو غزہ کے نہتے شہریوں کے قتل عام سے روکنا ہوگا ۔دوسری
جانب نو منتخب صدر کو عراق کے حوالے سے امریکی پالیسی پر ازسرِنو غوروفکر کی
بھی ضرورت ہوگی جہاں چند سرمایہ دار یہودی کمپنیوں کی خدمات کے حصول پر ملنے
والے کمیشن کی خاطر بے مقصد جنگ کو جاری رکھ کر نہ صرف عراق کے عوام کا قتل عام
کیا جارہا ہے بلکہ امریکی فوجیوں کی زندگیوں کو بھی بے وجہ ضائع کرنے کے ساتھ
ساتھ بلا ضرورت مصرف پر اصراف کے ذریعے امریکی عوام کو معاشی بدحالی کی دلدل
میں بھی جھونکا جارہا ہے۔ افغانستان میں امریکی جارحیت سے متعلق بھی غور کرنا
ہوگا کہ اس جارحیت سے نہ تو دنیا کے امن کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ ہی امریکہ
کو کوئی مفادات حاصل ہوسکے ہیں اُلٹا ”افغان وار“ روس کی طرح امریکہ کی سلامتی
اور یونٹی کیلئے بھی خطرہ بن چکی ہے اسلئے اس عذاب سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل
کرنا بھی نئے صدرِ امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہونا ضروری ہے ۔جنوبی ایشیا کے
امن کو لاحق خطرات کے پیش نظر ”مسئلہ کشمیر “ کا پرامن حل بھی صدرِ امریکہ
کےلئے ضروری ہے کیونکہ ”کشمیر“پاکستان و بھارت کی درمیان کسی بھی ممکنہ جنگ کی
بنیاد بن سکتا ہے اور اگر بھارت و پاکستان آپس میں دست و گریباں ہوئے تو پھر
چائنا اور افغانستان بھی اپنا دامن نہیں بچاسکیں گے اور ایران وسعودی عرب اپنے
اپنے مفاد کےلئے اس جنگ میں کودنے پر مجبور ہوں گے تو یقینا یہ صورتحال دنیا کے
امن کےلئے ہی نہیں بلکہ خود امریکہ کی ”سپرپاور“ کی حیثیت کے لئے بھی خطرات
پیدا کرسکتی ہے ‘ ساتھ ہی صدرِ امریکہ کو حلف برداری کے وقت اس بات کا بھی عہد
کرنا ہوگا کہ وہ سابق پیشرو کے نقش قدم پر چل کر ”یہودی مفادات “ کی بجاآوری کی
بجائے ”امریکی عوام کے مفادات “ کو ترجیح دیتے ہوئے دنیا میں امن ‘ احترام ‘
دوستی اور تجارت کی پالیسیوں کو لےکر چلنا ہوگا تاکہ جارحیت ‘ رعونت ‘ ظلم ‘
ناانصافی اور تشدد کی پالیسی کی وجہ سے ”امریکہ “ اقوام عالم میں تنہا ہوکر جس
معاشی بربادی سے دوچار ہوچکا ہے اس کا خاتمہ ممکن ہواور اقوام عالم میں امریکہ
ایک بار پھر سب کے درمیان ممتاز و مستحکم حیثیت میں کھڑا ہوسکے۔ |