آمریت ، سترھویں ترمیم اور جمہوریت

اٹھاون ٹو بی کے خاتمے کے بعد حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان اُٹھنے پر فوج جمہوریت کو رخصت کر کے اقتدار پر براجمان ہونے پر مجبور ہوگی! سترھویں ترمیم کا خاتمہ اس ”چیک اینڈ بیلنس “کو ختم کردے گا جو جمہوری طریقے سے حکومت کی رخصتی اور نئی جمہوری حکومت کے قیام کا ضامن ہے ۔اقتدار کی پےپلز پارٹی سے مسلم لےگ کو منتقلی کےلئے متحدہ مسلم لےگ کے قیام کی کوششیں !

اختیارات کو اپنے تابع کرنے کی کوششوں کی وجہ سے نواز شریف کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دینے کے لئے نواز حکومت کی رخصتی اور مشرف کو برسرِ اقتدار لاکر آٹھ سالہ آمریت کا سیاسی کھیل کھیلنے والے فرشتے ‘اس ڈرامے کا ڈراپ سین کرنا چاہتے ہیں ۔

”فرشتوں “ کی نئی کوششوں کے طفیل متحدہ مسلم لیگ کی بدولت ”ان ہاؤس “ تبدیلی کے بعد نواز شریف کو وزارت عظمیٰ ‘ چوہدری شجاعت کو سینیٹ کی چیئرمین شپ‘ چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت خزانہ اور فنکشنل مسلم لیگ کو وزارت دفاع مل سکتی ہے۔

مکمل صوبائی خود مختاری کے بغیر لائی جانے والی کوئی بھی تبدیلی پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کےلئے قابل قبول نہیں ہوگی اور ملک دشمن عناصر اسے ”گریٹر پنجاب “ کی تشکیل کا منصوبہ قرار دےکر بغاوت کو جنم دے سکتے ہیں ۔

صوبائی خود مختاری کے ذریعے تمام صوبوں کے تحفظات کو دور کر کے متحدہ مسلم لیگ کے ذریعے قومی حکومت تشکیل دی گئی تو پھر یقینا پاکستان ترقی و خوشحالی کی کہکشاؤں کی جانب محوِ سفر ہوجائے بصورت دیگر ....؟

”بغض یزید ہی دراصل حُب حسین “ہے کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے مشرف عناد میں اکھٹی ہوکر لندن کیAPC میں شریک ہونے والی سیاسی جماعتیں اور قیادتیں صدر مشرف کے اقتدار کی پہلی برسی تک بھی باہم متحد نہیں رہ سکیں اور”آمریت بھگاؤ ‘ جمہوریت لاؤ “ کے خوبصورت نعروں کی گونج میں وطن واپس آنے والی دونوں بڑی سیاسی قیادتیں انتخابی نکتے پر ایک نہ ہوسکیں جس کے باعث وطن عزیز میں ہونے والے انتخابات محض ایک ایسا سیاسی ڈرامہ بن کر رہ گئے جن میں کبھی ”ہاں “ اور کبھی ” نہ “ کی گونج نے عوام کو مسلسل شش و پنج میں مبتلا رکھا اور مسلم لیگ ( ن ) ہی کے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے کارکنان بھی گومگو کی کیفیت میں کبھی انتخابی تیاری جاری رکھتے اور کبھی ان تیاریوں کا بوریاں باندھ لیتے ایسے میں اچانک پاکستان کی تاریخ میں وہ اندوہناک سانحہ رونما ہوا جس نے دنیا کو ایک عظیم جمہوری رہنما سے محروم کردیا اور بےنظیر بھٹو کی شہادت نے پیپلز پارٹی کو ایک بڑے المیئے سے دوچار کردیا اس موقع پر جہاں ایک جانب مشرف حکومت نے انتخابات کو ملتوی کرانے اور مزید وقت حاصل کرنے کی کوشش کی وہیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی مشرف کی ان کوششوں کو اس طرح سے جلا بخشی کہ اُس وقت کی موجوہ ملکی فضاء میں انتخابات کا انعقاد ناممکن قرار دیا مگر اُس وقت پیپلز پارٹی نے اپنے اندرونی اختلافات پر قابو پاکر کٹھن حالات میں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کمر کسی کیونکہ آصف زرداری یہ بات جانتے تھے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے عوام جس صدمے اور غیض و غضب کا شکار ہیں ان کے اس جذبے کو” بیلٹ “میں بدل کر اقتدار کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے اور اگر یہ جذبہ ٹھنڈا ہوگیا تو پھر حصول اقتدار ممکن نہیں رہے گا۔

اسلئے انہوں نے انتخابات انتخابات کے فوری کرائے جانے کا مطالبہ اور انتخابا ت میں پیپلز پارٹی کی جانب سے بھرپور حصہ لینے کا اعلان کردیا اس وقت اگر انتخابات اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق8جنوری کو ہوجاتے تو شاید پاکستان کے عوام پیپلز پارٹی کو اتنی بھاری اکثریت سے نوازتے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کا مکمل صفایا ہوجاتا اور پیپلز پارٹی کی اتنی مضبوط حکومت برسرِ اقتدار آتی کہ پھر اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا ۔ اسی لئے ایک سازش کے تحت پیپلز پارٹی کے تحفظات کے باوجود انتخابات کی مُدت میں توسیع کرتے ہوئے انتخابات 8جنوری کی بجائے 18فروری کو کرائے گئے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی بیشتر ایسی کمزور سیٹوں پر فتح حاصل نہ کرسکی جن پر بے نظیر کی شہادت کے فوری بعد انتخابات کی صورت میں پیپلز پارٹی کو فتح حاصل ہوسکتی تھی یوں انتخابات میں 40روزہ تاخیر کا فائدہ مسلم لیگ (ق ) اور بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو پہنچا جو پیپلز پارٹی کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر منظر عام پر آئی ‘ یوں پاکستان کو ایک مضبوط و مستحکم جمہوری حکومت سے محروم رکھنے کی سازشیں کرنے والی قوتیں ایک بار پھر کامیاب ہوئیں اور مشرف آمریت کا خاتمے کے نتیجے میں ایک ایسی جمہوری حکومت قائم ہوئی جس کی زندگی زیادہ طویل دکھائی نہیں دیتی تھی جبکہ ایک حقیقیت یہ بھی ہے کہ بھٹو کوتختہ دار پر لٹکا کر شہید کر کے قومی سیاست سے سندھ کو کردار کو ہمیشہ ہمیشہ سے مٹادینے کی سازش کرنے والوں نے پیپلز پارٹی کو حکومت ایسے حالات میں دی جب وطن عزیز نہ صرف معاشی طور پر عالم نزع میں تھا بلکہ اس کی شمالی اور مغربی سرحدیں بھی شدید خطرات سے دوچار تھیں جنہیں ایک جانب جنگجو دہشتگرد پارکر کے خود کش بم دھماکوں اور سیکورٹی فورسز پر حملوں کے ذریعے پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کررہے تھے تو دوسری جانب ”اور کرو ....اور کرو“ کی گردان لگانے والا امریکہ ہماری تمام تر کوششوں کو ناقص و ناکارہ قرار دینے کے بعد ڈرون حملوں کے ذریعے وطن عزیز کی خود مختاری پر ضرب کاری بھی لگارہا تھا جبکہ تیسری جانب بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت کے مواقع کی تلاش میں تھا جس کے لئے اس نے اپنی سرکاری ایجنسی ”را “ کی مدد سے ”ممبئی دہشتگردی “ کا ڈرامہ رچایا اور پاکستان کو مشکل حالات سے دوچار کیا یہی نہیں بلکہ اندرونی طور پر بھی پاکستان ”عدالتی بحران “ کے ساتھ ساتھ پانی و توانائی کے بحران سے دوچار اور مہنگائی و بیروزگاری کا شکار تھا اسلئے نئی قائم ہونے والی جمہوری حکومت عوامی توقعات پر اس طرح سے پوری نہیں اُتر سکی جس طرح سے عمومی حالات میں اس سے توقعات وابستہ کی جاسکتی تھیں ۔ ان نا مساعد حالات میںحکومت پر گرفت مضبوط رکھنے کے لئے پیپلز پارٹی کی قیادت کچھ ایسے فیصلوں کی بھی مرتکب ہوئی جنہیں جمہوری حلقوں نے غیر جمہوری قرار دیا اور یوں پاکستان میں مشرف عناد کے باعث جس سیاسی افہام و تفہیم اور اشتراک و اتحاد کا جو آغاز ہوا تھا جمہوریت کے قیام کے بعد مختصر سے عرصہ میں رخصت ہوا اور ایک بار پھر انتشار و نفاق اور اور اقتدار کی رسہ کشی سے عبارت پاکستان کی روایتی سیاست نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے جس کے باعث جہاں ایک جانب مختلف سیاسی قوتیں اور قیادتیں حکومت مختلف حلقے تشکیل دے کر جمہوریت کی رُخصتی کے اسباب پیدا کررہی ہیں وہیں حکومت میں شامل بعض حلقے بھی آمرانہ قوتوں کا شکار ہوکر جمہوریت کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں ۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان کی تقریباً سب ہی سیاسی جماعتیں سترھویں ترمیم کا خاتمہ چاہتی ہیں اور اٹھاون ٹو بی کے تحت صدر کو حاصل اسمبلی توڑنے کے اختیار کے خاتمے کے ساتھ ساتھ صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا ایسا فارمولہ وضع کرنے کی خواہشمند بھی ہیں جس کے تحت منتخب وزیراعظم کی سربراہی میں پارلیمنٹ ایک بااختیار جمہوری ادارے کے طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی کےلئے مکمل طور پر آزاد و با اختیار ہو اور ملکی ترقی کےلئے ترجیحات کا تعین کرتے وقت انہیں صدر کی جانب سے اسمبلی توڑ دیئے جانے کا خوف لاحق نہ ہو جبکہ کچھ حلقے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کےلئے کچھ اس قسم کی ڈس انفارمیشن بھی پھیلا رہے ہیں کہ سترھویں ترمیم کے خاتمے اور اسمبلی توڑنے کے صدر کے اختیارات ختم کردیئے جانے کی صورت میں صدر آصف زرداری خود وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہونے اور اپنے پدرِ محترم حاکم زرداری کو صدرِ مملکت کے روپ میں دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ اس بات میں صداقت سے قطع نظر اس ڈِس انفارمیشن کا واحد مقصد ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کے درمیان غلط فہمیوں کو جنم دے کر حکومت کو اس قدر کمزور کرنا دکھائی دیتا ہے کہ اپوزیشن کے معمولی سے احتجاج کی ہوا سے ہی حکومت گرجائے ‘ جہاں تک سترھویں ترمیم کے خاتمے کا فیصلہ ہے تو جنرل ضیاﺀ الحق نے اس متنازعہ آئینی ترمیم کے ذریعے جہاں اختیارات کے ارتکاز کو جنم دیا تھا وہیں اگر تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اٹھاون ٹو بی کے صدارتی اختیارات حکومت کی کارکردگی پر ایک ایسا ”چیک اینڈ بیلنس “ کا نظام ہیں جس کی وجہ سے آمریت کا راستہ رُکا ہوا ہے کیونکہ حکومت کی کارکردگی قومی مفادات کے منافی ہونے کی صورت میں صدر کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ حکومت توڑ کر نگراں حکومت قائم کرکے 90دن میں انتخابات کے ذریعے نئی منتخب و جمہوری حکومت قائم کرنے کا اپنا فریضہ ادا کرسکتا ہے جبکہ اس چیک اینڈ بیلنس کے خاتمے سے کی صورت میں حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اُٹھنے پر صرف اور صرف فوج ہی اس کا علاج ہوگی اور پاکستان کی بقا و سلامتی کا ضامن یہ ادارہ ملکی سالمیت کے لئے جمہوریت کو رخصت کرکے اقتدار پر براجمان ہونے پر مجبور ہوگا ۔
بحر کیف یہ بات سیاستدانوں‘ قیادتوں اور جمہوریت پسندوں کے سوچنے کی ہیں اور اگر انہوں نے سوچ سمجھ کر قومی مفاد میں اس ترمیم کے خاتمہ کے لئے کوششوں کا آغاز کیا ہے تو یقیناً اس کے کچھ نہ کچھ مثبت اثرات تو ضرور برآمد ہوں گے ۔

کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کوآ پس میں متحد کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں اور تقریباً تمام مسلم لیگی دھڑے اپنی اپنی حیثیت و ساخت برقرار رکھتے ہوئے اس اتحاد کےلئے قریباً قریباً تیار دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اگر تینوں مسلم لیگ آپس میں اتحاد کرلیں تو ان کی قومی نشستوں کی تعداد 145بن جاتی ہے جبکہ ایوان میں تبدیلی کے لئے 195سیٹوں کی ضرورت ہے رہی بات بقیہ 50سیٹوں کے حصول کی تو ان کا حصول اسلئے آسان ہوگا کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ ایوان میں موجود دیگر سیاسی جماعتیں وقت اور تیل کی دھار کے مطابق بہاؤ کے تحت سفر کرنے کی عادی ہیں جبکہ خود پیپلز پارٹی میں بھی ”ڈس انفارمیشن “ کے ذریعے جس شکست و ریخت اور انتشار کا آغاز ہو گیا ہے اس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ سیٹیں وہاں سے بھی حاصل ہوجائیں گی اس طرح سے اقتدار و اختیار پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ کو منتقل کرنے کی کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے لیکن اس سارے قضیئے میں واحد رُکاوٹ مسلم لیگ کی” صدارت“ ہے کیونکہ مسلم لیگ کے تینوں دھڑے متحد ہونے پر تو شاید رضامند ہوجائیں مگر کسی ایک شخصیت کو متفقہ قائد کے طور پر متحدہ مسلم لیگ کا صدر نامزد کئے جانے کے لئے تینوں میں سے کسی بھی دھڑے کے پاس ایسی کوئی غیر متنازعہ شخصیت موجود نہیں ہے جس پر تینوں دھڑے اعتماد کرسکیں ۔اسلئے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ نواز دورِ حکومت میں نواز شریف کے کچھ متنازعہ فیصلوں اور اختیارات کو اپنے تابع کرنے کی ان کی کوششوں کی وجہ سے ان کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دینے کےلئے ”فرشتوں“ نے نواز حکومت کی رخصتی اور مشرف کو برسرِ اقتدار لاکر جس کھیل کا آغاز کیا تھا اس کا ڈراپ سین بھی یہی ” فرشتے “ ہی کریں گے اور متحدہ مسلم لیگ کی قیادت کےلئے ایک ایسا نام پیش کیا جائے گا جس پر تمام مسلم لیگی دھڑے بے چوں و چراں متفق ہوکر سر تسلیم خم کردیں گے جس کے بعد یقینا اِن ہاؤس تبدیلی کے بعد ”وزارت عظمیٰ“ کا قرعہ فال نوازشریف کے نام نکلے گا جبکہ سینیٹ کی چیئرمین شپ ”چوہدری شجاعت “ اور وزرات خزانہ ”چوہدری پرویز الٰہی “ کے پاس ہوگی اور وفاقی وزارت دفاع کا قرعہ فنکشنل لیگ کے نام کھلے گا دیگر وزارتوں کی بندر بانٹ اکثریتی سیٹوں اور ایوان میں نمائندگی کے تناسب سے ہوگی یوں مسلم لیگ کے اتحاد کے زریعے وطن عزیز کو مسائل و مصائب سے نکالنے کی خواہشمند قوتیں اپنی کوششوں میں یقینا کامیاب تو ہوہی جائیں گی ساتھ ہی ساتھ آمرانہ قوتوں کا بھٹو کی سیاسی جماعت کے کردار کو قومی سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم کرنے کا وہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوجائے گا جو ایوب خان نے دیکھا تھا یہاں تک تو بات کچھ سمجھ میں آتی ہے مگر اس کے بعد پنجاب کے علاوہ دیگر چھوٹے صوبوں میں جو احساس محرومی جاری ہے وہ سو گنا ہوجائے گا اور سندھ میں صوبائی خودمختاری کی طالب متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے بلوچوں کو پسماندہ رکھنے کی سازشوں کا پردہ فاش کرنے کے بعد اب سرحد کے قبائلی بھی اپنے اوپر ظلم و زیادتی کے خلاف معرکہ آرائی دکھائی دے رہے ہیں جو یقینا کسی بھی طور ملک و قوم کے مفاد میں نہیں اسلئے متحدہ مسلم لیگ کو برسرِ اقتدار لانے سے قبل تمام صوبوں کے عوام کی خواہشات کے بموجب مکمل صوبائی خودمختاری کا نظام وضع کرکے اس نظام کے تحت متحدہ مسلم لیگ کے ذریعے وفاق کو مضبوط کیا جائے تو وطن عزیز میں ایسی مضبوط و مستحکم جمہوریت قائم ہوگی جو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کو ترقی و استحکام کے کہکشاؤں تک پہنچانے کے قابل ہوگی بصورت دیگر اس ساری کوشش کو ”گریٹر پنجاب “کی تشکیل کا منصوبہ قرار دے کر پاکستان دشمن عناصر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کریں گے جو کسی بھی طور ملک و قوم کے مفاد میں نہیں
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 62571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.