اقوام متحدہ آر ایس ایس پر بھی پابندی لگائے

اقوام متحدہ بھارتی دہشتگرد تنظیم آر ایس ایس پر بھی پابندی لگائے

اقوام متحدہ ‘ بھارتی ہندو دہشتگرد تنظیم ”آر ایس ایس پر بھی پابندی لگائے ‘ بھاری اقلیتوں کا مطالبہ چند بھارتی لیڈروں کے کہنے پر پاکستان کی رفاعی تنظیم ”جماعة الدعوة “ پر پابندیاں عائد کرنے والی اقوام متحدہ کو 20کروڑ انسانوں کی آواز پر بھی توجہ دینی ہوگی ۔

(RSS) پربھارتی اقلیتوں پر مظالم ‘ مسلمانوں اور عیسائیوں کے قتل عام ‘ راہباؤں سے جنسی زیادتی ‘ فرقہ واریت پھیلانے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات بھارتی عدلیہ میں ثابت ہوتے رہے ہیں پاکستان کے سولہ کروڑ عوام اپنے حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ(RSS) کے ”سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس “ میں پاکستانیوں کے شہریوں کی ہلاکت میں ہونے کی وجہ سے حکومت اقوام متحدہ سے ”راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ “ (RSS) پر پابندی کا مطالبہ کرے

بھارت کی ایما پر پاکستان میں کام کرنے والی فلاحی تنظیموں پر پابندی لگادینے والی اقوام متحدہ کو بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والی ہندو دہشت گرد تنظیمیں دکھائی نہیں دیتیں جو روز اول سے ہی مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں ‘ 1947 ءمیں جب ان جنونی ہندوں کی جنونیت اور مسلم دشمنی کی وجہ سے برصغیر دو حصوں میں بٹ کر تقسیم ہوا تو جس طرح سے اس نئی قائم ہونے والی سیکولر مملکت میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اس کی نظیر تو دورِ چنگیزی میں بھی نہیں ملتی ۔ حتیٰ کہ اپنا گھر ‘ زمین ‘ جائیداد ‘ مال و اسباب اور تشخص تک بھارت میں چھوڑ کر پاکستان جانے کے خواہشمند بے سروسامان مسلمانوں کے لہو سے بھارت سے پاکستان آنے والی ٹرینوں کو جس طرح سے سرخ کیا گیا اس سے ”ہندو جنونیوں “ کی انسان دشمنی کا واضع ثبوت ہی نہیں ملتا بلکہ ان کے کردار میں موجود ”مجرمانہ پن“ اور جرائم پسندی کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔

میں مسلمانوں کا پہلا دشمن ہوں .... مسلمانوں کو مارنا ضروری تھا تمام مسلمانوں کو سبق سکھانا ہی تھا .... اگر مسلمان سبق نہیں سیکھیں گے تو ان کے لیے نقصاندہ ہوگا۔ (یہ بیان و شواہندوپریشد کے گجرات صوبہ کے نائب صدر‘ہریش بھٹ کا ہے جو گجرات کے 2002ءکے فسادات کے دوران 2,000ہزار مسلمانوں کے قتل عام کی وضاحت ہے۔)

مگر اقوام متحدہ نے اس تنظیم پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی اس کا صرف ایک رہنما نہ صرف ”ہندو جنونیت “ کے تحت انسانوں کے قتل کادرس عام کررہا ہے بلکہ اپنے اس مجرمانہ فعل کی انجام دہی واضح ثبوت بھی پیش کررہا ہے ۔

آزادی اور تقسیم ہند کے بعد بھارت میںفرقہ وارانہ فسادات کی تفتیش کے لیے حکومت کے ذریعے مقرر کیا گیا انکوائری کا ہر جوڈیشل کمیشن اس بات کی نشاندہی کرتا رہا ہے کہ ہندوستان کے اندر اقلیتوں کے خلاف پرُتشدد جرائم میں ہمیشہ متفقہ طور پر آر ایس ایس/وی ایچ پی /بجرنگ دل/بی جے پی یا اس سے ملحق تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔“

گجرات کی 2002ءکی نسل کشی پر کنسرنڈسٹیزنس ٹریبونل کا بیان‘جس کی قیادت ہندوستان کے سابق چیف جسٹس‘وی آر کرشنا ایئر کررہے تھے۔

مگر اقوام متحدہ اور تہذیب یافتہ اقوام کے لئے بھارت کو راشٹر اسٹیٹ بنانے کے لئے مصروف عمل جماعتوں کا انسانی دشمنی پر یہ مبنی یہ غیر انسانی فعل بھی نظر نہیں آیا ۔ 1980ءکے ابتدائی دنوں سے ہی ہندوستان کے اندر پر تشدد ہندو انتہا پسندانہ سیاسی تحریکیں اور تنظیمیں بڑی تیزی سے پھیلتی رہی ہیں یہ تنظیمیں افضلیت وبرتری کی اس آئیڈیالوجی کی پیروی کرتی ہیں جسے” ہندو توا“کہتے ہیں۔ ”ہندوتوا“ کا ہندو مذہب سے بہت کم تعلق ہے بلکہ ہندو تواکی آئیڈیالوجی کی تشکیل 1920 ءاور 1930 ءکے عشرے میں ہوئی جو ”فاشزم “اور” نازی ازم“ سے کافی متاثر ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان صرف ہندوﺅں کا ہے اور ہندو واحد‘نسل‘عوام‘کلچر اور قوم(نیشن) ہیں۔یہ لوگ ہندوستان کو پوری طرح ”ہندونیشن اسٹیٹ“ میں تبدیل کردیا جانا چاہتے ہیں ‘ جس میں اقلیتوں کو جمہوریت پسندانہ شہریت کے چند محدود حقوق ہی حاصل ہوں گے۔

ہندو توا تنظیموں کے ذریعے اقلیتوں کو دشمن‘غدار‘آلودگی پیدا کرنے والے اور” اجنبی غیر ملکیوں“ کی شکل میں دیکھا جاتا ہے ”ہندو توا“ تنظیمیں شروع سے ہی سیکولرازم‘عقیدے کی آزادی اور ہندوستانی آئین میں موجود اقلیتوں کے انسانی حقوق کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔ ہندوستان میں سرگرم” ہندو توا“ تنظیموں کی بنیادی آماجگاہ ”راشٹریہ سویم سیوک سنگھ “ ((RSS)) ہے ۔ جس کی بنیاد 1925-26 ءمیں ڈالی گئی تھی۔
”آرایس ایس“ کا ڈھانچہ اطالوی فاشسٹ یوتھ موومنٹس کی طرز پر تیارکیا گیا جو اس وقت بھارت میں کافی تیزی سے پھیل رہا تھا۔اس کے دونوں ہی بانی(کے بی ہیڈگیواڑاوربی ایس مونجے) اور اس کے دوسرے لیڈر(ایم ایس گولوالکر)نازی جرمنی اور فاشسٹ اٹلی کے زبردست حامی اور شیدائی تھے۔

آر ایس ایس کوئی جمہوری تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ اپنے سپریم لیڈر کی فرماںبرداری اور اطاعت گزاری پر مبنی ہے۔

آر ایس ایس ہندوستان کے اندر کوئی رجسٹرڈ سوسائٹی نہیں ہے اور نہ ہی اسے چیریٹی (خیراتی ادارہ)تصور کیا جاتا ہے بقول اس کے اس کا کوئی بینک اکاﺅنٹ نہیں ہے اسی لئے اسے انکم ٹیکس سے بھی چھوٹ حاصل ہے ۔بھارت کے فارن کنٹری بیوشن(ریگولیشن)ایکٹ (FCRA) 1976 کی دفعہ 5 کے نوٹیفکیشن کے تحت” آرایس ایس“ اس کی خواتین اور طلبہ کی شاخ اور وی ایچ پی کو سیاسی نوعیت کی تنظیم کہا گیا ہے ۔
آریس ایس فیملی کی تنظیموں کو” سنگھ پر یوار “ یا صرف سنگھ(جماعت یا تنظیم) کہا جاتا ہے۔

سنگھ پریوار کا بنیادی عقیدہ یہی ہے کہ ہندوستان صرف ہندوﺅں کا ہے تمام دوسرے مذہبی فرقوں اور وہ ”ہندو“ جو آرایس ایس لیڈر شپ کو ماننے سے انکار کرتے ہیں انہیں ملک کا دشمن تصورکیا جاتا ہے۔ سنگھ پریوار کی آئیڈیا لوجی ”ہندو توا“ہے ۔ یہ ہندوستانی قومیت اور شہریت کے سیکولر اور سماجیاتی نظریہ کا انکار اور ہندو نیشن اسٹیٹ یعنی ہندوراشٹر کے لیے انتہا پسندانہ اور جابرانہ نظریہ کی حمایت ہے۔
کیڈروں کا تقرر کرنے اور ان کا نظم و نسق کرنے کا ”آرایس ایس “کا بنیادی طریقہ” سنگھٹن “کہلاتا ہے یعنی نفرت آمیز آئیڈیالوجی کے تحت تمام ہندوﺅں کو متحد کرنا تاکہ بھارت کو ایک ”ہندو نیشن اسٹیٹ “بنایا جاسکے ‘ جبکہ اس کارکنوں کو ” کاریہ کرتا “کہا جاتا ہے۔

آرایس ایس کا نظم و نسق جس شاخ کے تحت کیا جاتا ہے اسے ”شاکھا“کہتے ہیں جس کے تحت یونیفارم میں ملبوس ممبران۔ ملٹری کی طرح جسمانی‘ نظریاتی اور اسلحوں کی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں اور اس کے ”بھگوا جھنڈے “ کو سلامی دیتے ہیں ۔ آرایس ایس کی شاکھاﺅں میں ہندودیوی ‘ دیوتاﺅں کی مورتیاں نہیں ہوتیں اس کے ممبروں کو آر ایس ایس کے پہلے دوسپریم لیڈروں کے بی ہیڈگیواڑ اور ایم ایس گولوالکر کا”احترام “کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔

بھارت میں سرکاری سرپرستی پر پلنے والی ان ”ہندو توا“تنظیموں نے بھارتی انٹیلی جنس ”را“ کی آشیرباد کے تحت بارہا بھارتی و عالمی انسانی حقوق قوانین کی توہین کی ہے اور بھارتی عدالتی کارروائیوں و کرمنل جسٹس سسٹم و بھارتی فیڈرل اسٹیٹ میں مداخلت کی ہے اور منظم طریقے سے ان ہندوستانی شہریوں کو نشانہ بنایا ہے یا ان کا قتل عام کیا ہے جو مسلمان ‘عیسائی یا دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1960 ءکے آخری ایام سے ہی ہندوستان میں مذہب پر مبنی فسادات کرانے کے لیے بھارتی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ”آر ایس ایس“ کا نام باربار لیا جاتا رہا ہے ‘ ا س میں آرایس ایس کے کارکن ”ناتھورام گوڈ سے“ کا نام بھی شامل ہے جس نے بابائے بھارتا”مہاتما گاندھی“ کو اس اقلیتوں سے ”حسن سلوک “ کی بنیاد پر قتل کر دیا تھا ۔ ہندوستان میں آرایس ایس پر تین بار پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں‘ اس تنظیم کا تعلق تشدد اور منافرت پھیلانے میں کاموںمیں ملوث ہونے کی وجہ سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران” ہندو توا“ تنظیموں کے ذریعے ”را“ نے مسلم اور عیسائی فرقوں کے خلاف سنگین پر تشددواقعات برپا کرائے ‘ جن میں وی ایچ پی ‘ آر ایس ایس ‘گجرات بی جے پی اور بجرنگ دل سبھی شامل ہیں ان میں 1989ءمیں بھاگل پور1992-93 ءمیں ممبئی اور 1997 اور 1998-99 میں گجرات کے ڈانکس ضلع کے قتل و غارت گری کے واقعات شامل ہیں جن میں 5 ہزار سے زیادہ افراد قتل کردیئے گئے تھے۔

گجرات میں 2002 ءمیں کیا گیا منظم قتل عام” ہندو توا“کے عروج کی دل دہلا دینے والی مثال ہے۔27 فروری 2002 ءکے ہنگاموں کے دوران 2 لاکھ سے زائد افراد کو گھر بار چھوڑ نے پر مجبور کردیا گیا ‘ اجتماعی قتل عام خاص طور سے گجرات کے شہروں اور دیہاتوں میں کیا گیا۔اس تشدد کا سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا جس میں ”آر ایس ایس“ کے ان لیڈر ان کی قیادت بھی شامل تھی جو گجرات کی صوبائی حکومت میں بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ تشدد اور قتل عام کا یہ سلسلہ گجرات کے گودھرا شہر کے باہر” سابرمتی ایکسپریس “میں لگنے والی آگ کے بعد شروع ہوا جس میں 58 سیوک ہلاک ہوگئے تھے اور جس میں آگ لگانے کا الزام پہلے مسلمانوں پر لگایا گیا مگر بعد میں جب اس کے ڈانڈے ”را “ سے ثابت ہوئے مگر اقوام متحدہ کو RAW اور (RSS) کی یہ ”دہشت گردی “ اور ”انسان دشمنی “ کے ساتھ ”انسانی حقوق پامالی“ دکھائی نہیں دی اور اس پر پابندی لگانا تو درکنار کبھی اقوام متحدہ کی جانب سے اس کی مذمت کی بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔

پاکستانی رفاعی و فلاحی تنظیم ”جماعة الدعوة“ پر بھارت کے کہنے پر پابندی لگانے والی اقوام متحدہ کو بھارت میں اقلیتوں پر حملے ‘ انسانی حقوق کی پامالی اور انسان دشمنی کے ساتھ ساتھ دہشتگردی میں ملوث ہونے کی بناءپر بھارتی دہشتگرد تنظیم ”آر ایس ایس “ پر بھی پابندی لگانی چاہئے ۔

آج (RSS) کا شکار بھارت کی چار کروڑ اقلیتی عوام اور انسانی حقوق کی خاطر قربانیاں دینے والی پاکستان کی سولہ کروڑ عوام اقوام متحدہ سے مطالبہ کررہی ہے کہ ” راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ “ (RSS) پر پابندی لگائی جائے ۔لہٰذا بھارت کے چند لیڈروں کے کہنے پر جماعة الدعوٰة “ پر پابندیاں عائد کرنے والی اقوام متحدہ کو ان ن 20کروڑ انسانوں کی آواز پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 67531 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.