اے مسلم خوابیدہ جاگ ذرا

اے مسلم خوابیدہ تیرے دل و دماغ سے احساس زیاں تو کبھی کا جاچکا۔ صدیاں بیت گئیں تو غلامی یہود ونصاریٰ سے آزاد نہ ہوا۔ تیرا متاع کارواں لٹتا رہا آواز جرس تو سنتا رہا مگر تو رنگینی زن و زر کے حصار میں گرفتارہوکر کائنات میں اپنے کردار کو کھو بیٹھا۔تیرے میر کارواں ہی تو رہزن نکلے۔ بے خبر دنیا کو نمود حیات بخشنے والوں کی مسندوں پر زاغ و زغن کے گھونسلے بن گئے۔ نبوت بھی کیا عظیم مقام علم و عرفان ہے کہ جس نے دنیا کے طول و عرض کو عملی عجائبات و غرائب سے مزین کیا اور بقعہ نور بناکر خالق کائنات سے قربت کی راہیں روشن کردیں اور اسکی نعمتوں کے حصول اور انہیں اپنے تصرف میں لانے کی ترکیبیں آشکارا کردیں۔ نبوت کے کمالا ت نے انسانیت کا تصور دیا۔ نفرتوں کی جگہ محبتوں کو وسعت دی، ظلم کی جگہ عدل گستری کا سکہ جمایا، جہالتوں کو علم و آگہی سے شکست فاش دی۔ اللہ سراپا محبت ہے جبھی تو اس نے محبتوں سے سرشار اپنے نبی اور رسول بھیجے۔ اور سید الانبیاء ﷺ کو بھیج کر تو رحم و کرم کی انتہا کردی کہ فرمایا لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا۔ بے شک اللہ تعالٰی نے مومنوں میں اپنا رسول بھیج کر ان پر احسان عظیم فرمایا۔ یہ وہ ذات اقدس ہے جسے بلا تفریق رنگ و نسل و علاقہ انسانوں سے محبت ہے۔ جبھی تو اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ میرا محبوب حریص علیکم با لمﺅمنین رﺅف الرحیم۔ تمہارے مومن ہونے کی انتہا درجہ خواہش رکھتا ہے۔ اس ذات منبع برکات الہی ﷺ نے جہاں عبادات اور ذکر و فکر سے روحانی کائینا ت بخشی وہیں اس دنیائے آب و گل کے مادی وسائل سے متمتع ہونے کی راہیں کھول دیں۔ انسان کو انسان کے قریب کردیا۔ کل تک جو ایک دوسرے سے خائف زدہ رہتے تھے آج وہ ایکدوسرے کے الفت زدہ ہوگئے۔

نگاہ نبوت و رسالت کے اعجاز عقل انسانی کی جولان گاہ سے ماورا ہیں۔ ایک شخص نہائت شریف ہے، کریمانہ عادات کا امین ضرور ہے کاروباری لحاظ سے بڑا ذہین و فطین ہے، مروجہ برائیوں مثلا شراب و کباب و زنا کی محفلوں سے دور ،انتہائی متنفر ضرور ہے مگر ہے وہ بزاز اور اس کام میں حجاز میں اس کا ثانی کوئی نہیں۔ نگاہ نبوت و رسالت کا انتخاب وہی ہے انواروتجلیات نبوت رسالت اس پر پڑتے ہیں تو اسے فرقان کی دولت غیر مترقبہ نصیب ہوجاتی ہے۔ وہ ہمہ وقت تاجدار نبوت و رسالت ﷺ کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ بن جاتا ہے۔ لاکھوں میل میں پھیل اسلامی سلطنت کا نظام اسی عظیم انسان پر ڈالا جاتا ہے۔ ذرا غور ہو کہ وہ بال بچے دار ہیں ۔ گھریلوذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا بھی انکے فرائض میں شامل ہے۔ انکی ضروریا ت پورا کرنے کے لیئے کمیٹی بیٹھتی ہے جو ایک آدمی کے گھریلو اخراجات کی منظور ی دیتی ہے۔ انکے کے لیئے بیت المال سے دو جوڑے کپڑوں کی منظوری دی جاتی ہے اور انکی جگہ نئے جوڑوں کے اجراءکے لیئے پہلے سے جاری شدہ کپڑے کمیٹی معائنہ کرے گی اور اگر واقعی وہ ناقابل استعمال ہیں تو نئے جوڑے جاری کرنے کی منظور ی دے گی۔ دوسری طرف اس ذات والاصفات کا عمل کیا ہے؟ لشکر اسلام تاجدار نبوت ورسالت ﷺ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی سالاری میں صلیبیوں کے مقابلے کے لیئے روانہ ہوچکا ہے، مصلحت کوشی میں مشورہ دیا جاتا ہے کہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر لشکر اسامہ کو واپس بلالیا جائے۔کیا ہی ایمان افروز ناقابل فراموش جواب ہے جو اس بات کی سند ہے کہ اول و آخر اللہ کے رسول تاجدار نبوت و رسالت ﷺ آخری حتمی اتھارٹی ہیں جنہیں کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ جواب دیا جس لشکر کو اللہ کے رسول نے روانہ کیا ابو بکر صدیق کی ہمت نہیں کہ اسے واپس کرے۔ لشکر روانہ ہوا۔ کذاب مدعیان نبوت اس قدر طاقت کے ساتھ اٹھتے ہیں کہ رزم حق وبال کا بازار لگ جاتا ہے، اسقدر تلواریں چلتی ہیں کہ الامان و الحفیظ جاءالحق وزھق الباطل کے مصداق تاجدار نبوت و رسالت ﷺ کے غلام ہی فتح یاب ہوتے ہیں۔ منکرین زکوة کے بارے ٹھوس پالیسی دی جاتی ہے کہ رسول پاک ﷺ کے قائم کیئے ہوئے نظام صلاة و زکوة میں جو فرق کرے گا میں اسکے ساتھ جنگ کروں گا ۔ نظام زکوة اپنی شان کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔ ایران کی سرحد پر بھی لشکر اسلام جہاد میں مصروف ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ یہ عظیم حکمران جو خلیفہ رسول اللہ ہونے کا حق ادا کررہا ہے کس یونیورسٹی کا سند یافتہ ہے؟ ایک کاروباری تاجر کو امورسلطنت سے کیا واسطہ؟ مگر جب نگاہ مصطفے کریم تاجدار نبوت و رسالت ﷺ پڑی تو علمک ما لم تکن تعلم والے نے اسے نہال ہی کردیا۔ اب ان جیسی فراست ودانش کس میں ہے؟ نبوت و رسالت کے نظام کو قائم رکھنے اور اسکی آبیاری کے لیئے بے پناہ صلاحیتوں کا ہونا ضروری تھا اور وہ ثانی اثنین والے نے بدرجہ اتم عطا فرمائیں۔ دوسری طرف دیکھا ایک عظیم شخص قائد اعظم کہتا ہے کہ میں نے لنکن ان میں داخلہ کیوں لیا؟ وہاں میں نے دنیا کے دس عظیم قانون دانوں کے نام لکھے دیکھے جن میں سر فہرست تاجدار نبوت و رسالت جان جہاں محمد مصطفے ﷺ کا اسم پاک لکھا ہے۔ اسی بنا پر میں نے لنکن ان میں داخلہ لیا۔ اسے کہتے ہیں سچا عشق ۔ رہا یہ کہ جو بورڈ وہاں لکھا گیا وہ اللہ نے لکھوایا کہ میرے محبوب کا نام سب سے اوپر رہے۔ اسی لیئے اعلٰی حضرت شاہ احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا سب سے اولی و اعلٰی ہمارا نبی ۔سب سے بالا و والا ہمارا نبی ﷺ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ اپنے اس دین کو تمام ادیان پر غالب فرمائے گا۔ اب یہ کہ اہل برطانیہ تو صلیبی ہیں۔مگر کیا کریں لکیر کے فقیر بے چارے دین عیسائیت کو دل سے قبول نہیں کرتے مگر کیا کریں پادریوں کے ڈرسے قبول اسلام کا اعلان بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ اس سے قبل ہرقل کا واقعہ بیت چکا تھا کہ جب اس نے دین حق کی صداقت اور رسول پاک ﷺ کی رسالت کی شہادت دی تو دربار میں شورش پیدا ہوگئی اور ہرقل کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو ہرقل نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیئے کہا کہ میں تو تم لوگو ں کا امتحان لے رہاتھا ورنہ میں نے کب عیسائی مذہب ترک کیا۔ برطانیہ کے نظام سلطنت کابیشتر حصہ اسلامی نظام ہے۔ یہ غلبہ اسلام ہی تو ہے۔

ایک نوجوان مکہ معظمہ میں ایسا بھی ہے کہ جس کے خاندان والے پورے عرب کے انساب کے بارے جانتے ہیں اورمختلف قبائل کے شجرہ ہائے نسب بیان کرتے ہیں۔ پھر یہ نوجوان بڑا غصیلہ بھی ہے، اسے اپنے فن پہلوانی پر بھی ناز ہے، کسی کو جرات نہیں کہ اسکے سامنے دم مارے مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ والد انہیں اونٹوں کے چرانے اور دیکھ بھال کو بھیجتے ہیں اونٹو ں کا انتظام کرنے سے قاصر ہیں اور والد محترم کی ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بھی اکثرو بیشتر بنتے ہیں۔ مکہ معظمہ کا چہرے سے خوبصورت دل سے انتہائی بدصورت عمروبن ہشام اس کا ماموں لگتا ہے جو ابو جہل کے لقب سے ملقب ہے۔ ۔ تاجدار نبوت و رسالت کے ساتھ تو اسکا بیر ہے ۔ اسی نوجوان پہلوان بھانجے سے کہتا ہے کہ کیا فائدہ تمہاری جوانی پہلوانی کا ۔ مکہ معظمہ کاطاقتور اکھڑ پہلوان سوئے تاجدار نبوت و رسالت ﷺچلتا ہے خامہ قدرت بھی چلتا ہے، یہ نوجوان اب جو قدم اٹھاتا ہے تو رجال الغیب اھلا و سہلا کہتے ہیں ۔ جنت آمد کی صدائیں دے رہی ہے۔ یہ وہی ہے جس کو تاجدار نبوت ورسالت ﷺ اپنے رب کریم سے مانگ چکے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دنیا سے پردہ فرمانے سے پہلے انہیں مسلمانوں کا امیر مقرر کرتے ہیں۔ وہ بھی کتنے صاحب نظر تھے یا غیب کی تختی پر نگا ہ ڈال کر فیصلہ کررہے تھے کہ اب دنیا میں عظیم منتظم امور سلطنت کی آمد کا وقت ہوچکا ہے۔ دنیا نے پہلی مرتبہ مکمل فلاحی نظام حکومت دیکھا۔ ایسا امن و سکوں تو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے مہذب معاشرے میں نہ تھا اور نہ ہی پہلے کبھی وقوع پذیر ہوا۔ کہ سربراہ مملکت رات کو اپنا آرام ترک کرکے اللہ کی مخلوق کی خبرگیری کرتا ہے۔ کہیں سے کسی خاتون انہ کے اشعار ہجر سنائی دیتے ہیں تو regular armed forces کے مجاہدین کی رخصت کا ضابطہ تیار کرتا ہے،ایک گلی میں سے گذرتے ہوئے بچوں کے رونے کی آواز اور خاتون خانہ کے الفاظ کہ ابھی کھانا پکتا ہے تو دیتی ہوں، آپ رضی اللہ عنہ دستک دیتے ہیں اور بچوں کے رونے کی وجہ معلوم فرماتے ہیں۔ وہ عورت کہتی ہے برا ہوامیرالمومنین کا حاکم بنا بیٹھا ہے اسے معلوم نہیں کہ میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں بچے بلک بلک کر سوجائیں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہ برا میں ہی ہوں مجھے معاف کردو واپس جاکر اس خاتون کو کھانے پینے کا سامان لاکر دیتے ہیں۔ کہیں مفلوک الحالی کے شکار لوگوں کے لیئے غلہ اپنی پیٹھ پر اٹھا کر پہنچاتا ہے، اور کہیں مسافر کو ایک خیمہ کے باہر پریشان دیکھتا ہے جہاں خیمہ کے اندر اسکی بیوہ درد زہ سے دوچار ہے تو یہ سربراہ مملکت خلیفہ خلیفة الرسول گھر جاکر اپنی بیوی مسلم ریاست کی خاتون اول کو ساتھ لاکر خیمہ کے اندر بھیجتا ہے جو اندر جاکر درد زہ میں مبتلا خاتون کی تیمارداری کرتی ہے اور پھر یوں مخاطب ہوکر فرماتی ہیں کہ اے امیرالمومنین اپنے دوست کو مبارک دیجیئے کہ اللہ نے انہیں فرزند عطا فرمایا۔ اس آواز کے ساتھ ہی وہ آدمی کھڑا ہوجاتا ہے اور اسکے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے کہ یہ اتنی بے لوث خدمت میں مصروف امیرالمومنین کی زوجہ مطھرہ ہیں ۔ اور جنکے ساتھ بے تکلفی سے مصروف گفتگو تھا وہ وہ عظیم حکمران ہے کہ جس کا نام سن کر دنیائے کفر کے ہوش اڑجاتے ہیں۔ اسکی اس کیفیت کو دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دوست بیٹھ جاﺅ یہ ہمارا فرض ہے جو ہم نے ادا کیا۔ پورا جزیرة العرب،ایران بلوچستان،وسطی ایشیا، مصر اور دیگر علاقوں پر پھیلی ہوئی عظیم سلطنت میں ایسا نظام نافذ ہے کہ ہر جگہ عوام مطمئن ، خوشحال اور محفوظ ہیں۔ امیرالمومنین کا حکم ہے کہ کوئی گورنر باریک لباس نہیں پہن سکتا، چھنا ہوا باریک آٹا روٹی کے لیئے استعمال نہیں کرسکتا، دربان یعنی گارڈ وغیر نہیں رکھ سکتا، ہمہ وقت مظلوموں کی دادرسی کے لیئے اسکے دروازے کھلے رہیں۔ اور اگر اس میں عوام کسی قسم کی کوتاہی پائیں تو حج کے موقع پر امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ دربار عام کا انعقاد فرماتے ہیں باری باری ہر صوبے کے گورنر کو بلاتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے کہ اپنے گورنر کے بارے کسی کو کوئی شکائت ہوتو بتائے اور لوگ بتاتے ہیں اور متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے موقع پر ہی گورنر تبدیل فرمائے اور بعض کا سختی سے محاسبہ بھی ہوا۔ سرعام سرزنش بھی ہوئی۔ یہ ہیں وہ جو دعائے رسول ومراد رسول ﷺ ہیں۔ خود فرماتے ہیں کہ مجھے تو اونٹ سنبھالنے بھی نہ آتے تھے۔ کروڑوں انسانوں پر حکومت کرنا بڑا سہل ہوا ۔ نگاہ مصطفے ﷺ پڑی تو دنیا کا عظیم منتظم بن گیا۔

حکومت کے محکمے تشکیل دیئے ، بیت المال ، نظام زکوة، نظام عدل، نظام تعلیم، مفاد و رفاہ عامہ، دفاع، باقاعدہ فوج کی تشکیل اور فوجی چھاﺅنیوں کا قیام، خفیہ خبررسانی کہ جس سے یہودو نصاری پر کڑی نگاہ رکھی گئی۔ نظام صلاة، عبادات کا اہتمام کے ساتھ ادا کرنا۔ نوزائیدہ بچوں کے وظائف، بیوگان ، یتامی اور بے روزگار لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے۔ اسلامی سزاﺅں پر مسلسل سختی سے عمل کرایا۔سلسلہ درسو تدریس جاری کرایا۔ قحط کے دنوں خوراک کی چوری پر قطع ید کی سزا معطل رکھی۔ اللہ نے دنیا ئے انسانیت کونبوت و رسالت کے فیض سے ایسا عظیم منتظم دیا کہ آج کئی غیر مسلم ممالک اسی فخر اسلام کی پیروی کررہے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی جس حکمران نے پیروی کی اسکا دورخلافت راشدہ کا دورکہلایا۔ جیسے کہ حضر ت امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ہیں۔ اسلام مکمل ضابطہ کائنات ہے۔ بدقسمت ہیں ہم لوگ کہ ہماری بد اعمالیوں نے کچھ اجسام کی صورت اختیار کرلی ہے اور ان اجسام خاکی نے مسلمانوں کو ذلیل خوار کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیائے اسلام افتراق و انشقاق کا شکار ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد صلیبیوں اور یہودیوں نے مل کر مسلمانوں کو متفرق رکھنے کی منصوبہ بند کی۔ خلافت اسلامیہ کے مقبوضہ جات کی آزاد ی بھی مکروفریب سے عمل میں آئی۔ مسلمان متحد نہ ہوسکے۔ جنہوں نے بقائے امت کے لیئے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی ان میں سے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سے شہید کرایا اور ملک الفیصل کو گولی سے شہید کرایا۔ افغانستا ن میں خلافت کا رنگ نظر آیا تو صلیبیوں اور یہودیوں نے آہن و آتش کی بارش کردی اور اتحاد کی روح نہ ہونے کی وجہ سے باقی سب مسلمان تماشہ دیکھتے رہے کہ عراق کو تباہ کردیا گیا۔ فلسطین اور کشمیر کے مسلمان تو مسلسل یہودیوں، صلیبیوں اور بتوں کے پجاریوں کے ظلم و ستم اور بربریت کا شکار ہورہے ہیں۔ اس ٹوٹے ہوئے ستارے کے مہ کام بننے کا انتظار ہے۔

تمام مسلمان ریاستیں یہودیوں اور صلیبیوں کی سازشوں کا شکار ہیں اور بدامنی ، قتل و غارتگری، غربت اور ان گنت مسائل کا شکار ہیں۔ پاکستان بھی اس مصیبت سے دوچارہے، لیبیا، مصر، شام ، یمن سعودی عرب اور ایران میں بھی صلیبی امریکہ کی کوششیں جاری ہیں ۔ جب تک مسلمان اپنے ممالک میں اللہ اور اسکے رسول کا نظام نافذ نہیں کرتے انکی حکومتیں ناکام اور افراتفری و معاشی بدحالی کا شکار رہیں گی۔

چونکہ ہمارے حکمران حکمرانی کا درس یہودیوں اور صلیبیوں سے لیتے ہیں اور قیام پاکستان کے بعد سے آج تک لارڈمیکالے کا بنایا ہوا پینل کوڈ آزاد پاکستان کا عدالتی سرمایہ ہے۔حکمران عوام کے مسائل حل کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے ۔ ہمارے حکمران ملک میں امن و امان کے دل سے مخالف ہیں۔ ملک میں بدامنی سے حکمرانوں کو لوٹ مار کرنے کے مواقع میسر ہوتے ہیں۔ نااہل حکمران جنہیں ہر نماز میں کم ازکم پڑھی جانے والی سورة اخلاص بھی نہیں آتی تو اسلامی نظام حکومت کو سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ وزیر داخلہ اگر اپنے موروثی کام پر توجہ دے تو عالمی آرائش گیسومقابلہ میں اپنے خاندان اور ہم پیشہ کمیونٹی کا سر فخر سے بلند کرسکتا ہے۔ حیر ت کی بات ہے کہ فرنگی کراچی میں امن و امان قائم کرنے کی پیش کش کرتے ہیں۔ گویا کہ وہ حکمرانی کے اصولوں کو ہم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ اب مسلمانوں کے لیئے ڈوبنے مرنے کا مقام ہے کہ ہماری بلی ہمیں ہی میاﺅں کرنے لگی۔ فرنگی کی طرف سے کراچی میں امن قائم کرنے کی پیشکش کسی حکمت سے خالی نہیں۔ میرے پیارے مسلمان بھائی خوب جانتے ہیں فرنگی صلیبی برصغیر میں ہمارے ساتھ جو حسن سلوک کرچکے ہیں وہ تاریخ کے صفحات سے کیسے محو ہوسکتا ہے۔ ہمارا قاتل، ہمیں لوٹنے والا، ہمارے عزتیں اتارنے والا، ہمارے نظام زندگی کو تہ بالا کرنے والا، ہمارے ساتھ مکروفریب کرکے ہمیں غلام بنانے والا، ہماری دولت لوٹ کر برطانیہ لے جانے والا، ہمیں غیر مسلح کرکے ہندﺅںاور سکھوں کے ہاتھوں ہمارا قتل عام کرانے والا، تقسیم ہند میں ہمارے ساتھ غداری کرکے پنجاب، کشمیر، جوناگڑھ، حیدر آباد، میسور،سندھ اور بنگال کے علاقے کاٹ کر ہندﺅوں کے حوالے کرنے والاکہتا ہے کہ میں کراچی میں امن کرادیتا ہوں۔ انکی اس پیشکش سے ثابت ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کو لڑانے والے وہ خود ہیں۔ جیسا کہ ایک عامل کے پاس ایک عورت گئی اور اس نے اپنی کسی رشتہ دار کے خلاف جادوٹونہ کرایا۔ عامل نے اسے بتایا کہ دروازے کی چوکھٹ کے نیچے اور چولھے میں تعویذات کو رکھ دو۔ اب دوسری عورت بھی اسی عامل کے پاس گئی جسکے پاس پہلی اسکے خلاف جادو کراکے لائی تھی۔ عامل نے بتایا کہ بڑا سخت جادو کیا گیا ہے۔ اپنا نذرانہ وصول کرکے بتایا کہ میرے مؤکل نے مجھے بتایا ہے کہ تیرے خلاف جادودروازے کی چوکھٹ کے نیچے اور چولھے میں دفن ہیں ۔ انہیں جاکر نکال کر لے آﺅ۔ عامل کے بتانے پر اسے یقین تھا وہ گئی تو اسے چوکھٹ کے نیچے اور چولھے سے تعویذات مل گئے جنہیں وہ لے کر حضرت عامل کے پاس لے گئی انہوں نے فرمایا کہ اب انہیں دریا میں بہادو۔ اول و آخر عامل صاحب کا عمل تھا۔ فرنگیوں کو معلوم ہے انہوں نے کن کن کو اپناایجنٹ برائے فسادات مقرر کیا ہے۔ وہ درست فرماتے ہیں کہ ہم امن کرادیں گے یعنی اپنے زرخرید ایمان و غیر ت باختہ برائے نام مسلمان ایجنٹو ں کو کچھ عرصہ کے لیئے اپنی سرگرمیاں معطل کرنے کا کہدیں گے۔ یوں امن کرانے کا سہرا انکے سر سج جائے گا اور کچھ عرصہ بعد پھر خون ریزی کا بازار گرم ہوگا۔ یہ تو ثابت ہوگیا کہ قاتل اور لٹیرے ریاست کا نظم و نسق سنبھالنے اور امن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے اقتدار چھوڑ دیں۔ اب عوام اپنے حکمران ایسے چنیں کہ جن میں کچھ تو اللہ و رسول کا خوف ہو۔ اب ملک کا نظام قرآن وسنت کے نظام کے نفاذ کے بغیر ہرگز درست نہیں ہوگا۔ جب حکمران خوف خدا رکھیں گے تو اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو گا۔ فسادات خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ اگر کوئی بغاوت کرے گا تو قرآنی احکامات کے تحت عبرتناک سزا ملے گی۔ ننانوے ہجری میں بصرہ کے علاقے میں عجیب واقعہ پیش آیا۔ چرواہے اپنے مال مویشی اور ریوڑ لے کر جنگل میں چرانے کو گئے کیا دیکھتے ہیں کہ جنگلی درندے مثل بھیڑیئے، شیر، گیدڑ وغیر ہ بھیڑوں اور بکریوں و دیگر مویشیوں میں شامل ہوکر چل پھر رہے ہیں ۔ چرواہوں نے جو یہ منظر دیکھا تو خوفزدہ ہوکر شہر کی طرف بھاگ گئے اور سارا ماجرا لوگوں کو بتایا۔ لوگ بڑی تعداد میں اس منظر کو دیکھنے جمع ہوگئے کہ بھیڑبکریوں کو چیرپھاڑ کر کھانے والوں کی انکے ساتھ یہ کیسی دوستی ہوگئی۔ جب لوگ اس کا نظارہ کرچکے تو اس واقعہ کے محرکات کی جستجو میں ایک بزرگ کے پاس گئے انہیں اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ لگتا ہے مسلمانوں کا حکمران کوئی عادل شخص بنا ہے۔ اب جب لوگو ں نے معلوم کرایا تو پتہ چلا کہ سلیمان بن عبدالملک فوت ہوگیا ہے اور اسکی جگہ حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفة المسلمین مقرر ہوئے ہیں۔ انہوں نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہی اپنا تمام مال و اسباب ،اثاثے اور جائیدادیں بیت المال میں جمع کرادیں۔ اسکے ساتھ ہی حکم دیا کہ بنو امیہ کے تمام لوگ مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال بیت المال میں جمع کرادیں۔ یہ تھے چھٹے خلیفہ راشد۔ جب بادشاہ یا حکمران عادل ہوتا ہے تو جنگلی درندے بھی عدل کرتے ہیں اور کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچاتے ۔ اب پاکستان کے مسلمان اپنی اور اپنے ملک کی خیر چاہتے ہیں تو موجودہ حکمرانوں کو بزور طاقت اقتدار سے علیحدہ کریں اور دیانتدار لوگوں کو اپنے اوپر مسلط کریں۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140671 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More