محب وطن پاکستانی اور کروڑوں
مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن حافظ محمد سعید جماعت الدعوة پاکستان کے بانی
جبکہ حافظ عبدالرحمن مکی جماعت الدعوة شعبہ امور خارجہ کے سربراہ ہیں۔
امریکا نے دونوں پاکستانیوں کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کرکے
حافظ محمد سعید کی گرفتاری میں مدد دینے پر ایک کروڑ ڈالر جبکہ پروفیسر
عبدالرحمن مکی کی گرفتاری پر بیس لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کر دیا ہے۔
جماعت الدعوة ایک غیر سیاسی فلاحی تنظیم ہے جسے دعوتی اور خدمتی جماعت بھی
کہا جا سکتا ہے۔ اس جماعت کی جہاں تعلیمی شعبے میں گراں قدر خدمات ہیں وہاں
اسکے لاکھوں کارکنوں نے قدرتی آفات میں بھی متاثرین کی مدد کرکے ایسی
مثالیں قائم کیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے جبکہ لشکرِ طیبہ کشمیر کی جماعت
ہے جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کر رہی ہے لیکن
امریکا اور بھارت کا موقف ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں ایک ہی ہیں اور حافظ محمد
سعید جماعت الدعوة اور اس کے عسکری شعبے لشکرِ طیبہ کے بانی ہیں۔بھارت کی
جانب سے حافظ محمد سعید پر ممبئی ٹرین حملے، طیارہ اغوائ، ممبئی ہوٹل پر
حملہ کرنے جیسے کئی سنگین الزامات لگائے گئے ہیں جس کے نتیجے میں حکومتِ
پاکستان نے اُنہیں کئی بار گرفتار اور نظربند بھی کیا تاہم کسی عدالت میں
حافظ سعید کیخلاف لگایا جانے والا ایک بھی الزام ثابت نہ ہو سکا۔
امریکا کی نظر میں لشکر طیبہ ایک بہت خطرناک تنظیم بن چکی ہے جو نہ صرف خطے
بلکہ عالمی سطح پر بھی خطرے کا باعث بننے کی استطاعت رکھتی ہے جبکہ بھارت
میں ہونیوالی ہر کارروائی پر وہاں کا میڈیا اور حکومت بھی لشکرِ طیبہ کو
مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ یہ تنظیم افغانستان میں روس کیخلاف جہاد کے دوران
وجود میں آئی اور ان جیسی دیگر جماعتوں کو بنانے میں خود امریکا نے انتہائی
اہم کردار ادا کیا۔یہ جماعت اپنے مخصوص انداز اور بہادری کی وجہ سے کافی
مقبول ہو چکی ہے اور افغان جنگ کے بعد اس نے اپنا نیٹ ورک کشمیر کے ہندو
اکثریت والے علاقے جموں تک وسیع کر دیا ہے۔لشکرِ طیبہ کا دعویٰ ہے کہ وہ
کشمیر کی آزادی کا نعرہ بلند کرتی ہے اور پبلک مقامات پر حملوں کو ہرگز
جائز نہیں سمجھتی۔ لال قلعہ سمیت کئی بڑی کارروائیوں کی ذمہ داری لشکر نے
قبول کی البتہ بھارت نے پارلیمنٹ پر حملہ اور سانحہ چھٹی سنگھ پورہ جیسے
واقعات کا الزام بھی لشکرِ طیبہ پر لگایا جس میں خود بھارتی فوج ہی ملوث
نکلی۔ 2008ءکو ممبئی میں ہونے والے حملوں میں بھی بھارت نے یہ الزام لگایا
کہ اس کے پیچھے لشکرطیبہ اور حافظ محمد سعید کا ہاتھ ہے جسے پاکستان کی
خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پشت پناہی حاصل ہے لیکن لشکرِ طیبہ ان حملوں میں
ملوث ہونے کی بھی تردید کر چکی ہے۔
ممبئی حملوں کے بعد لشکر طیبہ دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے
۔ اقوام متحدہ نے لشکرطیبہ اور جماعت الدعوة پاکستان پر عالمی پابندیاں
عائد کر رکھی ہیں جبکہ رکن ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں بھی لشکرطیبہ کو
پابندی کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے صرف لشکرطیبہ اور جماعت الدعوة
ہی نہیں بلکہ الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ پر بھی عالمی پابندیاں عائد ہیں۔
اس کے بعد سے اب تک بہت سے حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ
پابندیاں غلط اور محض امریکا، اسرائیل اور بھارت کو خوش کرنے کے لئے لگائی
گئی ہیں۔اب امریکا کی جانب سے حافظ محمد سعید اور حافظ عبدالرحمن مکی پر
لگائے گئے بے بنیاد الزامات اور پاکستانی شہریوں کو مطلوبہ افراد کی فہرست
میں شامل کرنے کا مقصد نیٹو سپلائی سمیت دیگر مطالبات منوانے کیلئے پاکستان
پر عالمی دباﺅ بڑھانا اور خطے میں پاکستان کے حریف بھارت کو خوش کرنا ہے
کیونکہ امریکا اس بات کا برملا اظہار بھی کر چکا ہے کہ اگر پاکستان کے
راستے نیٹو سپلائی بحال نہ ہوئی تو پھر وہ اسکے حریف ملک بھارت پر انحصار
کریگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ لشکرطیبہ سے مقابلے کے لئے امریکا بھارتی فوج کو
بھی باقاعدہ تربیت دے رہا ہے جس کا انکشاف خود پینٹاگون کر چکا ہے۔
جماعت الدعوة پاکستان کے سربراہ کی گرفتاری یا اُن کے خلاف ثبوت فراہم کرنے
پر انعامی رقم کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکا اور پاکستان کے
تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور یہ پیشرفت صورتحال کو مزید پیچیدہ کر سکتی
ہے۔خود حافظ محمد سعید بھی کئی بار یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ہمارا لشکرِ
طیبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کشمیر کی تنظیم ہے جبکہ جماعت الدعوة
پاکستان کی غیر سیاسی فلاحی تنظیم ہے لیکن اسکے باوجود امریکالشکرطیبہ کو
القاعدہ کی طرح دنیا کے لیئے خطرے کی علامت سمجھتا ہے۔ دنیا کے لیئے اصل
خطرہ لشکرطیبہ ہے اور نہ القاعدہ بلکہ اصل خطرہ کشمیر، افغانستان، عراق اور
فلسطین میں ظلم ڈھانے والے طاغوت سے ہے۔ دس ملین امریکی ڈالر انعام مقرر
ہونے کے بعد حافظ سعید امریکا کو مطلوب ترین افراد کی فہرست میں دوسرے درجے
پر آ گئے ہیں۔ ان کے علاوہ جن افراد کی گرفتاری میں مدد پر اتنا ہی انعام
مقرر ہے ان میں طالبان کے سربراہ ملا عمر، ایران میں القاعدہ کے مبینہ
رہنماءیٰسین السوری اور عراق میں القاعدہ کے رہنماءابودعا شامل ہیں۔ادھر
بھارت نے بھی حافظ سعید کی تلاش کیلئے امریکی حکومت کی طرف سے انعام کے
اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
جب جماعت الدعوة نہیں مانتی کہ وہ لشکرطیبہ ہیں تو پھر امریکا ، بھارت یا
کسی دوسرے ملک کی طرف سے دونوں کو ایک جماعت ظاہر کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ
ان کے اصل مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔لشکر طیبہ کو پاکستان آرمی کا دوسرا نام
دینا بھی سازش کی ایک کڑی لگتی ہے۔ انعام کی رقم مقرر کرنے کے بعد اب
امریکا کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ رقم حافظ سعید کی گرفتاری
میں مدد دینے کیلئے نہیں بلکہ اُن کے خلاف ثبوت فراہم کرنے والوں کو دی
جائے گی تاکہ ان ثبوتوں کی روشنی میں اُن پر مقدمہ چلایا جا سکے۔ امریکا
کیلئے حافظ سعید کو دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے سب سے بڑا ثبوت تو اُن کا
مسلمان ہونا ہی کافی ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی
بحالی کے راستے میں امریکا کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ حق اور باطل کی
لڑائی آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے جاری ہے۔ چودہ صدیاں قبل کفر کے اماموں نے
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری یا قتل پر بھی سو اونٹ انعام مقرر
کیا تھا۔ اس گرانقدر انعام کے لالچ میں بہت سے لالچی لوگوں نے حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی تلاش شروع کر دی تھی اور کچھ لوگ تو منزلوں دور تک تعاقب
میں بھی گئے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انعام مقرر کرنیوالے اور انعام کے
طلبگار دونوں رسوا ہوئے۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے ایک موقر روزنامہ اخبار میں ”امریکا کا نیا
شوشہ“ کے عنوان سے جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے وہ اس خطے میں امریکا کی نئی
چالبازیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ”امریکا آج کل ہندوستان
کو خوش رکھنے اور اسکی خوشنودی کیلئے اس کا زبردست مسکا لگاتا جا رہا ہے
کبھی کہتا ہے کہ پاکستان اسے اپنا دشمن سمجھ رہا ہے کبھی کہتا ہے کہ چین
اسکی سرحدوں پر خونی نگاہیں جمائے بیٹھا ہے ۔ اب نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے تاکہ
ہندوستان کو ایران سے دور رکھا جائے ،ایرانی تیل کا خریدار بن جانے سے
بھارت دامن چھڑا لے اور امریکہ کی حامی بھر لے۔ امریکا نے پاکستان میں
کالعدم تنظیم لشکرطیبہ (موجودہ جماعت الدعوة) کے سرپرست حافظ سعید کے سر پر
ایک کروڑ ڈالر کے انعام کا اعلان کرکے بظاہر ہندوستان کو یہ موقع دے دیا کہ
وہ ممبئی حملوں میں مطلوب حافظ کے خلاف کارروائی کیلئے پاکستان پر دباﺅ میں
زیادہ سختی سے کام لے۔ حافظ محمد سعید کو امریکی انتظامیہ نے دہشت گرد قرار
دے دیا ہے اور انہیں گرفتار کرنے والے کو ایک کروڑ امریکی ڈالر انعام کے
طور پر ادا کرنے کا اعلان کر دیا جبکہ حافظ محمد سعید کے برادر نسبتی
عبدالرحمن مکی کی گرفتاری پر بیس لاکھ ڈالر کا انعام رکھ دیا۔ بھارت کہتا
ہے کہ دونوں سرزمین پاکستان پر کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں، تقریریں کرتے
ہیں، جلسے منعقد کرتے ہیں، ان کے چلنے پھرنے پر کسی طرح کی کوئی پابندی
نہیں ، جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ کون ان کے گلے میں
رسی ڈال کر انہیں امریکہ کے حوالے کر دے گا اور انعام پائے گا۔ پاکستانی
حکومت کو تو اُن کی گرفتاری کی ذرا بھی فکر ہوتی تو کب کے زندان میں ڈال
دیئے گئے ہوتے۔ یہ محض امریکہ کی سیاسی شعبدہ بازی ہے کہ کسی طرح وہ
ہندوستان کے گلے میں اپنی تابعداری کا پھندہ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے۔
دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی امریکہ کی پرانی عادت ہے۔ امریکی نائب وزیر
خارجہ کے اس انعامی اعلان کے بعد وزیر داخلہ پی چدامبرم نے کہا کہ امریکی
کارروائی کے بعد اقوام عالم کا پاکستان پر دباﺅ بڑھ جائے گا کہ وہ ملک میں
دہشت پسند تنظیموں کو پناہ دے رہا ہے۔ بھارت نے جماعت الدعوة کے سربراہ
حافظ محمد سعید کے خلاف کئی ثبوت پاکستانی حکومت کو پیش کئے ہیں اور ان
ثبوتوں میں بھارت مخالف سرگرمیاں انجام دینے کے ضمن میں جماعت الدعوہ کے
سربراہ کی منصوبہ بندی کو ٹھوس حقائق کے ساتھ پاکستانی حکومت کو پیش کی
ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سرکار پاکستانی حکومت پر دباﺅ ڈالے گی کہ وہ
لشکرطیبہ اور جماعت الدعوہ کے سربراہ کے خلاف کارروائیاں عمل میں لانے کے
لئے فوری اقدامات اٹھائے۔ بس اسی طرح کی باتوں سے امریکہ کی باچھیں کھل
جائیں گی اور جہاں وہ بھارت کو اپنا ہمنوا بنائے گا وہاں پاکستان پر بھی
دباﺅ بڑھاتا جائے گا کہ افغانستان میں برسرپیکار نیٹو افواج کو رسد پہنچانے
کیلئے راہ داری کھول دے ورنہ۔۔۔۔؟“ |