یہ 4اپریل کا دن تھا،اس دن قائدِ
عوام ذوالفقار علی بھٹو کی 33ویں برسی کے حوالے سے حکومتی سطح پر تقریبات
کا اہتمام کیا گیا تھا،اخبارا ت میں خصوصی اشاعت کے تحت بڑے بڑے فیچرزچھاپے
گئے،دن بھرنیوز چینلز میں بھٹو کی زندگی،شخصیت اور سیاست پراسپیشل
ڈاکومنٹریز پیش کی گئیں،ٹاک شوزمیں بھٹو کی زندگی کے اہم پہلوؤں پر روشنی
ڈالی گئی،ان کے کارناموں کو سنہرے حروف سے یاد کیا گیا،ان کے مشن کو پورا
کرنے کا وعدہ دہرایا گیا،کسی نے ان کے” عدالتی قتل “پر فریقین کوبحث و
تمحیص میں الجھائے رکھا، کسی نے انہیں تیسری دنیا کا سب سے عظیم ہیرو
گردانا،بھٹو کی”سونامی“بھی دکھائی گئی،ایک شو میں بھٹو کے ساتھ کال کوٹھری
میں ہونے والے مظالم کو ہائی لائٹ کیا گیا،قائدِ عوام کے ساتھ ہونے والی
تذلیل کا دُکھڑا رویا گیا،ان کی میت کے ساتھ انسانیت سوز اور اخلاقیات سے
گری حرکات کا ”مشاہدہ“کرایا گیا،ان کے ساتھ وحشیانہ بربریت پر جنرل ضیا کی
حکومت اور ان کی باقیات کو کھری کھری سنائی گئی،پورا دن تمام چینلزپر برسوں
پرانا نعرہ”کل بھی بھٹو زندہ تھا....آج بھی بھٹو زندہ ہے“کا بے سُراراگ
الاپا جاتا رہا ....!
میں اخبار کے نیوز روم میں بیٹھا یہ سب کچھ دیکھتا جارہا تھا، ٹی وی اسکرین
کے سامنے میرے ساتھ پورا ”خبر قبیلہ“ اس بھٹو ازم کے سحر میں کھویا ہوا
تھا، وہ سارے اسکرین میں انہماک کے ساتھ بھٹو کو آج بھی زندہ دیکھ رہے
تھے،ایسے میں ، مَیں اپنے برابر کی سیٹ میں بیٹھے انگریزی اخبار سے وابستہ
ایک صحافی سے پوچھ بیٹھا:”بھیا! آپ کیا سمجھتے ہیں، بھٹو ہیرو تھے یا قومی
مجرم....؟“یہ سن کر انہوں نے میرے ہاتھ سے ریموٹ لیا اور چینل بدلتے ہوئے
بیزاری سے بولے:”سب کو پتا ہے یار ، بھٹو نے کیا گل کھلائے ہیں؟پاکستان
توڑنے میں سب سے بڑا ہاتھ بھٹو کا ہی توتھا....“میں مسکرادیا،وہ چینل بدلتے
رہے،جب سارے ہی چینلز میں بھٹوصاحب کو ”کوئے یار سے نکل کر سوئے دار چڑھتے
“دیکھا تو خفگی سے ریموٹ میرے ہاتھ میں تھمایا اوروہاں سے اُٹھ گئے ،میں
شام سے رات تک بھٹو صاحب پرصحافیوں کے تبصرے،دانشوروں کے تجزیے اوردورِ
جدید کے مورخین کے حقائق دیکھتا اور سنتا رہا،رات بارہ ایک بجے جب بھٹو
صاحب کی مدح سرائی کا سلسلہ تمام ہوا تو میں نے ٹی وی سیٹ ”میوٹ“کیا اور
کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا،تاحدِنگاہ بلند اورروشن عمارتیں تھیں،آئی آئی
چندریگر روڈ کی اس کثیرالمنزلہ عمارت کے دریچے سے روشنیوں کا شہر کسی گہرے
گڑھے میں نظر آرہا تھا،میرا ذہن قائدِ عوام کی سحر انگیز شخصیت کے آسیب میں
الجھا ہوا تھا،میں سوچوں کے ایک لامتناہی سلسلہ میں گم تھا،میں سوچ رہا تھا
کہ بھٹو صاحب تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے تھے،لیکن کیا وہ واقعی آج بھی زندہ
ہیں؟مگرکس حیثیت سے؟ایک ہیرو کی حیثیت سے یا قومی مجرم کے طور پر....!
ذوالفقار علی بھٹو نے5جنوری1928 کولاڑکانہ میں ایک سیاسی وڈیرے کے گھر میں
جنم لیا،ان کے والد سرشاہنوازبھٹواپنے زمانے کے معروف سیاسی کردار
تھے،سرشاہنوازکے قائدِ اعظم اور محمد علی جوہر جیسی شخصیات سے مراسم
تھے،ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی تعلیم کیتھڈر ل ہائی اسکول ممبئی اور
کنڈر گارٹن اسکول کراچی سے حاصل کی،مزید تعلیم کے لیے بیرون ِ ملک کا ر خ
کیا،وہاں اوکسفورڈ یونیورسٹی پھر برکلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیاسے پولیٹکل
سائنس اور قانون کی تعلیم حاصل کی، ان کو ”برکلے اسٹودنٹس کونسل “ کے پہلے
ایشین رکن بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا،1945میں انہوں نے قائدِ اعظم سے ایک
خط کے ذریعہ پاکستان کے لیے اپنی جان تک قربان کردینے کا وعدہ بھی
کیا،1951میں ایک ایرانی خاتون نصرت اصفہانی سے انہوں ”لَو میرج“ کی،1953میں
انہوں نے مسلم لا کالج کراچی میں قانون پڑھایا،سندھ ہائی کورٹ میں وکالت
بھی کی۔
اس میں دو رائے نہیں بھٹو صاحب برصغیر کے ایک منجھے ہوئے لیڈر تھے،لیکن ان
کے ہم عصر رفقا کہتے ہیں کہ یہ ایک منتقم مزاج،چالاک اور خود پسند انسان
تھے، یہ بلا کے ذہین،ہوشیار اور خود سر تھے،ان کوموقع سے بھرپور فائدہ
اٹھانے،لوگوں کو نہایت صفائی سے بے وقوف بنانے اور اپنی تقریروں کے زریعہ
جلسوں کے شرکا کا دل لوٹنے کا زبردست ملکہ حاصل تھا،یہ شراب کے رسیا،عورتوں
کے دلدادہ اوررومان پسند بھی تھے،وہ ایوب خان کو ”ڈیڈی“کہاکرتے تھے تاہم
بعد میں جب ایوب خان سے اختلاف کرکے وزارت سے الگ ہوئے تو وہ اپنے ہی
”ڈیڈی“کوگالیاں بکاکرتے تھے،یہ گفتار کے غازی ہونے کے ساتھ انتہائی خوشامد
پرست تھے،یہ اپنی دل لبھاتی باتوں سے اپنا کام بہ آسانی نکلوالیتے تھے۔
جب پاکستان میں اسکندرمرزا کی حکومت تھی،تب بھٹو سوئٹزرلینڈ میں تھے،وہاں
سے انہوں نے پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کو خوشامدانہ خط لکھ کر بتایا
کہ مجھے آپ قائداعظم سے بھی بڑے لیڈر لگتے ہیں،مجھے یقین ہے کہ پاکستان آپ
کی قیادت میں بہت جلد ترقی کے منازل طے کرے گا،یوں اسکندرمرزا ان سے بےحد
خوش ہوئے اورانہیں اپنی کابینہ میں بطور وزیر شامل کرلیا،اس کے بعدصدر ایوب
کے دورمیں 1958سے 1966تک وزیر تجارت،وزیر اقلیتی امور،وزیربرائے قومی
تعمیرِ نوو اطلاعات،وزیرصنعت و قدرتی وسائل،وزیر برائے امورِ کشمیر اور
وزیر خارجہ رہے،ان سات آٹھ سالوں میں انہوں بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں
کا لوہا منوایا،خصوصاوزارتِ خارجہ کی ذمہ داری انتہائی خوش اسلوبی سے
نبھائی،1962کی بھارت اور چین کے مابین جنگ کا اندورنی فائدہ اٹھاتے ہوئے
بھٹو نے ہی ایوب خان کو یہ مشورہ دیا تھاکہ بھارت سے کشمیر خالی کرانے کا
اس سے سنہرا موقع پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا،چین کے ذریعہ کشمیر خالی
کرالیا جائے،اس کے بعد 1966میں ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر
شاستری کے درمیان تاشقند(روس)میں ایک معاہدہ ہوا،یہ معاہدہ نہیں بلکہ جیتی
ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پرہارنے کا اقرار تھا،جس پر بھٹواپنے ”ڈیڈی“سے سخت
ناراض ہوئے، بھٹو کا موقف تھا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا تب تک
بھارت سے دوستی نہیں کی جاسکتی۔
یہاں سے بھٹو نے ایوب خان کے خلاف یوٹرن لیااور ایوبی آمریت کے خاتمہ کے
لیے کمر کس لی،بعد ازاں بھٹو نے ان کے خلاف تحریک چلائی،اس کا شاخسانہ یہ
نکلا کہ30نومبر1967کوانہوں نے ”روٹی،کپڑا اور مکان“کا نعرہ لگا کر اپنی الگ
سیاسی تنظیم”پاکستان پیپلز پارٹی “کے نام سے قائم کرلی جبکہ ”اسلام ہمارا
دین،جمہوریت ہماری سیاست ،سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں
“کو اپنی پارٹی کے بنیادی اصول قرار دیے،انہوں نے پہلی دفعہ جاگیردار طبقہ
سے تعلق رکھنے کے باوجود جاگیرداروں کے خلاف نعرہ لگایا،غریب کے لیے آواز
اٹھاکر ان کے دلوں میں گھر کرلیا،اسی وجہ سے انہیں ”قائد ِ عوام “کا خطاب
بھی ملا،اس دوران انہیں گرفتار کرکے میانوالی جیل میں قید بھی کیا،1970کے
الیکشن میں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ واضح برتری اور بھاری اکثریت سے
کامیاب ہوگئی جبکہ بھٹو صاحب کا ووٹ بینک سندھ اور پنجاب تک محدود
رہا،انتخابی نتائج کے مطابق اقتدار کے مستحق شیخ مجیب الرحمن تھے جبکہ بھٹو
صاحب کو اپوزیشن کا کردار ادا کرنا تھا ،شیخ مجیب کی غداری،بغاوت اورسازش
الگ لیکن بھٹو صاحب کی ضد،انانیت وہٹ دھرمی اورستم بالائے ستم جنرل یحیی
خان کی نااہلی،عیاشی اور لاپرواہی کی وجہ سے ”اُدھرتم ، اِدھر ہم“کا نعرہ
لگا،بھٹو صاحب نے مخالفین کی ٹانگیں توڑڈالنے کی دھمکی بھی دی،چنانچہ پیپلز
پارٹی والے اُدھر جاسکے اور نہ عوامی لیگ والے اِدھر آسکے،یوں پاکستان دو
لخت ہوگیا،مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب نے اپنی حکومت بنالی جبکہ مغربی
پاکستان میں یحیی خان نے اقتدار بھٹو کوسونپ دیایوں وہ بچے کھچے پاکستان کے
پہلے سویلین مارشل لاایڈمنسٹریٹر ،صدر اور وزیر اعظم بن گئے،آج ایک بڑا
حلقہ یہ کہتا نظر آتا ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کے سب سے بڑے ذمہ دار بھٹو تھے،یہ
بھی ایک حد تک درست ہے،اس کا اندازہ آپ اس خبر سے لگا سکتے ہیں ،یہ خبر
روزنامہ” امروز“میں31مئی1971کو چھپی تھی کہ30مئی1971کو انہوں ”ہالہ“میں
اپنی جماعت کے دفتر کی افتتاحی تقریب میں ایک بڑا سا کیک کاٹا ،جس میں جلی
حروف میں ”بنگلہ دیش“لکھا تھا،سوچنے کی بات ہے کہ ان کو آخرایساکرنےکی
ضرورت کیا تھی اور آخر سقوطِ ڈھاکہ سے 6ماہ قبل بھٹو کو بنگلہ دیش کے قیام
اور آنے والے حالات کا علم کیسے ہوا؟اس کا واضح مطلب ہے کہ بھٹو ساری
پلاننگ میں شامل رہے ہیں ،اسی طرح یواین کی سلامتی کونسل میں پولینڈ کی
قرارداد پھاڑنے کے واقعہ سے بھی کچھ ایسا ہی اشارہ ملتا ہے کہ بھٹو صاحب
متحدہ پاکستان نہ سہی،مغربی پاکستان پر تسلط کی خواہش،اقتدار کی تڑپ
اورحکمرانی کی آشا ضرور رکھتے تھے،مجیب کو غدارمان بھی لیں تواس پورے منظر
نامے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بھٹوصاحب کا بھی تھوڑابہت ہاتھ ضرورتھا۔
بھٹو کیسے حکمران تھے؟انہوں نے اپنے دور میں کیا کیا گل کھلائے ، کیا وہ
واقعی قومی مجرم ہیں؟ان کے سات سالہ دورِ حکومت کاجائزہ لے کر ہی ہم یہ
فیصلہ کرسکتے ہیں کہ بھٹو ہیرو تھے یا قومی مجرم؟
باقی اگلی نشست میں .... |