ترقی پذیر ممالک جب بھی نام لیا
جائے تو معاشی بحران،امن و امان کی قلت اور حکومت مخالف عوام ملنا کوئی نئی
بات نہیں ہے۔خوراک کی قلت اور غیر معیاری خوراک ملک میں کئی مسائل پیدا
کرنے کا سبب بنتی ہے۔جس کی وجہ سے ہر سال بیشتر بیماریاں لاکھوں لوگوں کو
لقمہ اجل بنا دیتی ہیں۔عام تاثر یہ تھا کہ ایڈز دنیا کی سب سے خطر ناک
بیماری ہے۔لیکن حقیقت کو W.H.O کے ایک حالیہ سروے نے برعکس قرار دیا۔اس
سروے میں انکشاف ہوا کہ ٹی بی (T.B)خطہءارض پر سب سے مہلک بیماری ہے۔اور
دنیا کے سب ہی ممالک متاثر ہیں۔یورپی ممالک میں اس کی شرح نہ ہونے کے برابر
تک جا پہنچی تھی مگر بعد ازاں ایڈز کے مریضوں میں اضافہ سے اس کے مریضوں
میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔اسے غریبوں کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔کیونکہ
اس کے متاثرین میں سب سے بڑی تعداد غریب ممالک کی ہے۔پاکستان اس کے بڑے
متاثرین میں آٹھوں نمبر پر ہے جبکہ 2005میں اس کا نمبر (6) تھا ۔ایک رپورٹ
کے مطابق ایک لاکھ کی آبادی میںہر سال اس کے 231مریض سامنے آتے ہیں۔اس کا
شکار ہونے والا 75% طبقہ نوجوان نسل پر مشتمل ہے۔ٹی بی کی دو اقسام ہمارے
ملک میں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ایک قسم میں ٹی۔ بی پھیپڑوں کے علاوہ پورے جسم
پر اثرانداز ہوتی ہے اور دوسرے میں صرف اور صرف پھیپڑوں پر ہی حملہ آور
ہوتی ہے اُسے پھیپھڑوں کی ٹی۔ بی بھی کہا جاتا ہے ۔ٹی ۔بی کے کُل مریضوں
میں سے 85%مریض پھیپھڑوں کی ٹی بی کا شکار ہوتے ہیں۔اور یہی اس کی سب سے
خطرناک حالت تصور کی جاتی ہے۔ٹی بی کی تشخیص انتہائی سادہ اور آسان ہے اگر
کسی کو بھی لگاتار دو ہفتوں یعنی 14دن تک کھانسی آئے ،اسے بُخار ہو یا پھر
بلغم میں خون آئے تو اُسے ضرور اپنا طبی معائنہ کرانا چاہیے کیونکہ یہ سب
ٹی بی کی علامات ہیں۔پاکستان میں اس کی تشخیص تمام تر BHC,DHQ,DHQاور اس کے
علاوہ تمام تر چھوٹے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ممکن ہے۔لگاتار علاج کرنے سے
اس مرض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے مگر ادویات کا استعمال بار بار شروع
کر کے چھوڑ دینا اس کی ایک اور مہلک شکل سامنے لاتا ہے جس کا علاج انتہائی
منہگا اور مشکل ہے۔اس حالت کو MDR کا نام دیا جاتا ہے۔جس کی لاگت علاج کم
از کم 6سے 7لاکھ ہے۔اس کا تدارک لگاتار علاج سے ممکن ہے۔اس سے بچاﺅ کے لیے
چند اہم احتیاطی تدابیر کو مدِنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔جیسے کھانستے وقت
منہ پر رومال رکھنا،کمروں کو ہو دار اور روشن رکھنا اور معیاری خوراک کا
استعما ل کرنا،دوا صرف اور صرف تجویز کردہ ہی لینی عقلمندی ہے،ادویات کسی
زمہ دار کی نگرانی میں لی جائیں،ڈاکٹر سے باقاعدہ معائنہ کرانا اور ڈاکٹر
کی ہدایت کے بغیر اس کا استعمال ترک نہ کرنا۔عام رُجحان یہ تھا کہ ٹی بی
ایک چھُو ت کی مرض ہے اور اس کے مریضوں سے دور رہنا چا ہیے حالانکہ ایسا
نہیں ہے۔طبی ماہرین کے مطابق دوران علاج ماں اپنے بچے کو دودھ بھی پلا سکتی
ہے اور بچے پر اس کا کوئی منفی اثر نہ ہوگا۔اگر ہم اپنے ارد گرد ٹی بی کا
کوئی مریض دیکھیں تو اسے علاج کی ترغیب دیں۔اور کسی بھی قسم کی شکایت کی
صورت میں محکمہ صحت کے عملہ سے رُجوع کریں۔کیونکہ ایک انسان کی جان بچانا
پُوری انسانیت کی جان بچانے کے متارد ف ہے۔ |