حافظ سعید کے سر کی قیمت مقرر
ہونے کے بعد اب برطانوی پارلیمنٹ کے رکن لارڈ نذیراحمد نے بھی جوابی حملہ
کرتے ہوئے جارج بش کے سر کی قیمت 10 ملین ڈالرمقرر کرنے کا اعلان کر دیا ہے
۔ لارڈ نذیر کا کہنا ہے کہ یہ رقم وہ گلیوں میں بھیک مانگ کر اکٹھی کریں گے
۔ سروں کی قیمت مقرر کرنا بھی اب فیشن بنتا جا رہا ہے ۔ امریکا نے جب حافظ
سعید کے سر کی قیمت مقرر کی اس وقت بھی امریکا اور پاکستان کے سکیورٹی
اداروں کو نہ صرف اس بات کا علم تھا کہ حافظ سعید کہاں ہیں بلکہ انہیں حافظ
سعید کے اگلے ایک ماہ کے شیڈول کا بھی علم تھا جبکہ جارج بش کے سر کی قیمت
مقرر کرتے وقت لارڈ نذیر کے علم میں بھی تھا کہ جارج بش کہاں پائے جاتے ہیں
۔اسی طرح پرویز مشرف کے سر کی قیمت بھی بگٹی فیملی کے چشم و چراغ نے مقرر
کر رکھی ہے بلکہ انہوں نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ اعلان بھی کر رکھا
ہے کہ پرویز مشرف کو قتل کرنے والے کوتحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔
جس طرح کسی زمانے میں جلاد قسم کے بادشاہ سروں کی فصل کاٹا کرتے تھے اور
سروں کے مینار بنانا ان کا شغل تھا اسی طرح کسی کے سر کی قیمت مقرر کرنا اب
فیشن بن چکا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ بے حد مطلوب ایسے افراد کے سر کی قیمت کسی
کو بھی ادا نہیں کی گئی جن کی ہلاکت یا گرفتاری کے حوالے سے پوری دنیا میں
مہم چلائی گئی تھی ۔ تحریک طالبان پاکستان کے بانی بیت اللہ محسودکا نام
بھی ایسے ہی افراد کی فہرست میں شامل ہے جن کے سر کی قیمت مقرر کی گئی تھی
لیکن بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد یہ رقم کسی کو ادا نہ کی گئی ۔ اس
حوالے سے امریکی موقف یہ تھا کہ بیت اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا ہے
اور ڈرون امریکی اہلکاروں نے چلایا تھا چونکہ یہ ان اہلکاروں کی ڈیوٹی میں
شامل تھا اور انہوں نے اپنا وہ فرض ادا کیا جس پر انہیں معاوضہ دیا جاتا ہے
لہذا وہ اس اضافی انعام کے حق دار نہیں ہیں ۔ اسی طرح اسامہ بن لادن کے سر
کی بھی بھاری قیمت مقرر تھی لیکن بدقسمتی سے یہ آپریشن بھی امریکی تنخواہ
داروں نے کیا لہذا اس حوالے سے بھی انعامی رقم امریکا ہضم کر گیا البتہ اس
مہم میں اہم کردار ادا کرنے والا پاکستانی ڈاکٹر شکیل امریکی اہلکار نہ
ہونے کی بنا پر اس انعام کا دعویٰ کر سکتا ہے لیکن اس دعویٰ کے قابل وہ تب
ہو گا جب پاکستانی خفیہ ادارے اسے چھوڑیں گے ، ویسے مجھے یقین ہے کہ جب
امریکی مفادات کے لیے کام کرنے والے اس غدارِ وطن نے انعامی رقم کا دعویٰ
کیا تو اسے یہ سن کر دھچکا لگے گا کہ امریکی ایجنٹ ہونے کی بنا پر وہ بھی
تنخواہ داروں میں شمار کیا جاتا تھا لہذا اسامہ کے سر کی قیمت اسے بھی ادا
نہیں کی جا سکتی ۔
میرے خیال میں ان دو مثالوں سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سروں کی قیمت
مقرر کرنا اب محض ایک فیشن بن چکا ہے اور عموماََ یہ رقم ادا نہیں کی جا
سکتی البتہ جس طرح حافظ سعید اور ان کے رفقا نے امریکی اعلان کا مذاق اڑایا
اس کے بعد امریکا نے وقت سے قبل ہی یہ وضاحت کر دی کہ یہ رقم حافظ سعید کے
بارے میں اطلاع دینے پر ادا نہیں کی جائے گی بلکہ یہ انعام ان کے خلاف ایسے
ثبوت مہیا کرنے پر دیا جائے گا جو عدالت میں ثابت بھی کیے جا سکیں یعنی
دوسرے الفاظ میں امریکا نے حافظ سعید کو خود ہی بے گناہ قرار دے دیا ہے
کیونکہ اس اعلان کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ امریکا کے پاس حافظ سعید کے خلاف
کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے جسے عدالت میں ثابت کیا جا سکے لہذا وہ بھاری قیمت
ادا کر کے ثبوت حاصل کرنے کا خواہش مند ہے ۔ اب حافظ سعید عالمی عدالت میں
اپنے سر کی قیمت مقرر کرنے والوں کے خلاف ہتک عزت کا کیس دائر کر کے بھاری
ہرجانے کا دعوی کر کے فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن کے لیے مزید کئی ایمبولینس
خرید سکتے ہیں ۔ حافظ سعید کو مبارک ہو کہ ان کا دشمن خود ہی ان کی بے
گناہی کا اعلان کر رہا ہے ۔ ویسے حافظ سعید سے عرض ہے کہ اپنے رفقاء کو
جہاں یہ بتائیں کہ ان کے سر کی قیمت مقرر کر کے امریکا اپنے خرچے پر ان کی
کس قدر پبلی سٹی کر چکا ہے وہاں یہ بھی بتا دیں کہ امریکا سر کی قیمت ادا
نہیں کرتا - |