موت کی وادی میں آبِ حیات سے ملاقات

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک گوسالہ پرست سے کہا کہ تجھے میری پیغمبری میں شک ہے۔ تو نے سینکڑوں معجزے دیکھے مگر شک اور بدگمانی نہ گئی۔ تو نے دیکھا کہ میں نے دریا میں راستے بنا دیئے۔ تم غرق ہو نے سے بچ گئے۔ فرعون اور اس کا لشکر ڈوب گیا۔چالیس سال تک آسمان سے خوان اُترتا تو نے دیکھا۔ پتھر سے پانی کے چشمے اُبلتے تو نے دیکھے۔ میرے ہاتھ میں لکڑی کو اژدہا بنتے دیکھا۔ میرے ہاتھوں کو سورج کی طرح روشن اور چمکدار دیکھا۔اے کج فہم تیرا وہم نہ گیا۔ تو نے سامری اور اس کے بچھڑے میں کیا دیکھا کہ فوراً اس کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا اور مطمئن ہو ا، اسے خدا تسلیم کر لیا، حالانکہ سامری کیا اور بچھڑا کیا....؟

امام رومیؒ اس حکایت کے سبق میں لکھتے ہیں کہ در اصل ہر جنس اپنی جنس کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جو جاہل اور توہم پرست ہوتا ہے۔اسے ایسی باتیں ہی پسند اورمرغوب لگتی ہیں۔دل کا آئینہ صاف ہو تو اچھی اور بُری صورت صاف نظر آسکتی ہے۔

قارئین!آج ایک قلبی واردات ہم آپ سے شیئر کرنے لگے ہیں۔صحافت کے میدان میں ایک نووارد ہونے کی حیثیت سے دو سال کے قلیل عرصہ میں راقم نے سینکڑوں شخصیات کے انٹرویوز کئے، ان میں ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسی عظیم شخصیت بھی شامل ہے، ڈاکٹر عطا ءالرحمن جیسا صاحبِ علم انسان بھی موجود ہے، انقلاب کی آواز بلند کرنے والی شخصیت عمران خان سے لے کربرطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے پہلے مسلمان تاحیات رکن لارڈ نذیر احمد کو بھی راقم نے انٹرویو کیا اور اسی طرح صدر آزادکشمیر سردار یعقوب خان، وزیرِ اعظم چوہدری عبد المجید ، وزرائے کرام سردار قمر الزمان ، مطلوب انقلابی، میاں عبد الوحید، چوہدری ارشد سے لے کر حکومتی اور اپوزیشن بینچوں پر تشریف رکھنے والے سابق وزرائے اعظم سردار سکندر حیات خان، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، راجہ فاروق حیدر خان، سردا رعتیق احمد خان سے لے کر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مقتدر قومی لیڈروں سے گفتگو کا اتفاق ہوا۔ حالیہ تازہ ترین گفتگو قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر سب سے نمایاں حیثیت رکھنے والے سینیٹر اعتزاز احسن ایڈووکیٹ سے کی اور ان تمام شخصیات سے راقم نے صحافتی تجسس کے تحت ڈرتے ڈرتے”گفتنی ، ناگفتنی“ باتیں پوچھیں۔وہ باتیں کہ جن سے خلقت خدا میں فساد کے اندیشے بھی تھے۔ وہ بھی جاننے کی کوشش کی۔ اور وہ باتیں بھی پوچھیں کہ جو میرے اور آپ کے ذہن کے گوشوں میں سوالیہ نشان بن کر منجمند ہو جاتی ہیں۔سیاست کی بھول بھلیوں اور غلام گردشوں کی کہانیاں جاننے کی خواہش ہمیں FM93ریڈیو آزادکشمیر کے پلیٹ فارم سے مختلف جگہوں پر آوارہ گرد کی طرح گھماتی رہی۔ سوال کے اس سفر میں ہمارے پروگرام”لائیو ٹاک وِد جنید انصاری“میں ایکسپرٹ جرنلسٹ پینل میں ہمارا ساتھ سینئر صحافی راجہ حبیب اللہ خان اور عزیزی محمد رفیق مغل دیتے رہے۔آج کے موضوع کے حوالے سے آپ ابھی تک سوچ رہے ہوں کہ ہم نے کوئی بات نہیں کی۔ جی جناب موضوع کی طرف آنے سے پہلے تمہید ضروری تھی اور تمہید کے اندر ہم نے سینیٹر اعتزاز احسن کا ذکر کر دیا۔سینیٹر اعتزاز احسن سے ہم نے حالیہ انٹرویو میں جاننے کی کوشش کی کہ ”حرفِ انکار“کا سب سے بڑا نشان بن کر جس اعتزاز احسن نے پوری حکومتی مشینری کو للکارا تھا وہ اعتزاز کہاں گم ہو گیا۔اس سوال کے جواب میں اعتزاز احسن ایڈووکیٹ نے ہنستے ہوئے جواب دیاکہ میں دہلی میں کانفرنس اٹینڈ کر کے آرہا ہوں اور وہاں پہ بھی لوگ مجھ سے پوچھتے رہے کہ آخر میں نے وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کا کیس کیوں لیا۔تو میرا جواب صرف اتنا ہے کہ امریکہ پاکستان کی سرزمین سے اپنے قاتل اور مجرم ریمنڈ ڈیوس کو چھڑا کر لے جاتا ہے اور ہم میں سے بعض دوست صدرِ پاکستان جیسی مقتدر ترین شخصیت اور مقدس ترین عہدے پر براجمان جناب آصف علی زرداری کو عدالت کے اندر کھڑا کرنا چاہتے ہیں جبکہ اُنہیں آئینی استثنیٰ حاصل ہے۔اعتزاز احسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقائی مراحل اور منازل طے کرتے کرتے پاکستانی قوم اب سمجھ چکی ہے کہ اُنہیں مذہب ، علاقائیت، صوبائیت اور دیگر نفرتوں کے سلوگنز کے ساتھ تقسیم کر کے لڑانے والے لوگ دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔شیعہ سنی تقسیم، صوبائی تقسیم، لسانی تقسیم اور منقسم کرنے والی دیگر تمام نفرتیں ہمارے لوگ پہچان چکے ہیں اور تقسیم کرنے والے لوگوں سے زہریلے مقاصد بھی جان چکے ہیں۔پاکستانی قوم ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ہمارے ایکسپرٹ پینل میں موجود سینئر صحافی راجہ حبیب اللہ خان نے سینیٹر اعتزاز احسن ایڈووکیٹ سے مو ¿دبانہ سوال کیا کہ آپ یہ بتائیے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں پاکستانی عوام اور افواجِ پاکستان نے بےش بہا قربانیاں دی ہیں، ہزاروں شہیدوں کا لہو پیش کیا ہے،معاشی بدحالی اور نقصان برداشت کرتے کرتے آج پاکستانی عوام روٹی کو ترس رہے ہیں ۔ دوسری جانب امریکہ سمیت عالمی برادری پاکستانی قربانیوں کو بالکل تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور Do Moreکی گردان الاپی جارہی ہے تو حکومتی وکیل ہونے کی حیثیت سے اورپاکستان پیپلز پارٹی کا سینئر رہنما ہونے کی حیثیت سے آپ اس بات کا کیا جواب دیتے ہیں تو اس پر اعتزاز احسن سنجیدہ ہو گئے اور انہوں نے آن ایئر کہا کہ بعض میڈیا گروپس چھریاں چاقو لے کر ہمارا پیچھا کر رہے ہیں اور ہمارا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے۔

قارئین! یہ تو اعتزاز احسن کی وہ گفتگو تھی جو ہم نے ایک خلاصے کی شکل میں آپ کے سامنے رکھی۔ ہم اُن کی گفتگو کے اُس حصے پر بات کریں گے کہ جس میں انہوں نے نفرتوں اور تقسیموں کی بات کی۔آج سے کچھ عرصہ قبل تک تمام پاکستانیوں کی طرح راقم بھی ذہنی جمود اور انتشار کا شکار تھا۔دہشت گردی ، خود کش دھماکوں، ڈرون حملوں کی خبروں، پوری دنیا سمیت پاکستانی قبائلی علاقہ جات اور لال مسجد سے لے کر تمام مدارس کے حوالے سے مختلف حوالوں سے پھیلنے والی خبروں سے شدید ترین مضطرب تھا۔میں سوچتا تھا کہ شائد مسلمان ہونا جرم ہے، شائد دین پر عمل پیرا ہونا اور اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے پیغام پر عمل کرنا کوئی ایسا جرم بن گیا ہے کہ جو بھی اس کا ارتکاب کرتا ہے اُسے یا تو اُسامہ بن لادن بنا دیا جاتا ہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طرح کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے ،حافظ محمد سعید کی طرح اُس کے سر کی قیمت لگا دی جاتی ہے اور یا پھر اُسے لال مسجد کے سانحے کی ایک مثال بنا کر دنیا کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ میں سوچتا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دین پر عمل پیرا لوگوں کو دہشت گرد یا دہشت پسند بنا کر نفرت کی ایک ایسی دیوار کھڑی کی جارہی ہے کہ جس کے پار کھڑے لوگ ”خود کش حملہ آور“ یا ”مذہبی جنونی“ بناکر پیش کیے جا رہے ہیں۔ اِسی صحافتی تجسس اور سوالات کے کانٹے ذہن میں لیے راقم جامعہ فریدیہ اِسلام آباد مولانا عبد العزیز سے ملنے چلا گیا۔ مدرسے میں پہنچے اور E-7 اسلام آباد میں واقع مدرسے میں جب ذمہ داران سے ملاقات کی اور اُن سے سوالات کرنا شروع کیئے تو ذہن اور آنکھوں کے سامنے موجود غلط فہمیوں کے پردے ہٹنا شروع ہو گئے۔سوال کرتے کرتے نوکِ زبان سے یہ سوال بھی پھسل گیا کہ یہاں پر ایک ہزار سے زائد بچے حفظ ، درسِ نظامی، تخصص اور دیگر شعبوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور آپ لوگوں کے متعلق ہم نے سنا ہے کہ آپ کا کوئی سفیر نہیں ہے، چندہ مانگنا آپ انتہائی غلط تصور کرتے ہیں تو کروڑوں روپے کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟ مولانا طارق سعید نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا اللہ کے مہمانوں کا انتظام اللہ کرتا ہے اور آج رات کی روٹی کے لیے مدرسے میں آٹا بھی موجود نہیں ہے۔ہم سناٹے میں آگئے۔ اس ملاقات کے بعد نمازِ ظہر جامعہ فریدیہ میں ہی ادا کی اور عبد الرشید غازی شہید کے بڑے بھائی مولانا عبد العزیز سے ملاقات کرنے کے لیے ہمG-7اسلا م آباد میں واقع مدرسہ جامعہ حفصہ جاپہنچے ہم نے ایک درویش صورت سفید داڑھی والا انسان دیکھا جو مزدورو ں اور مستریوں کے ساتھ مٹی سے بھرے کپڑوں کے ساتھ بچیوں کے اس مدرسے میں تعمیر کے کام کو دیکھ رہا تھا۔دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور جھوٹ کو مختلف پردوں کے ساتھ مختلف عنوانوں اور دلکش سلوگنز کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں کو مذہبی جنونی اور موت کی وادی کا مسافر کہا جاتا ہے وہاں آبِ حیات کے چشمے جاری ہیں۔ وہاں قال اللہ و قال الرسول ﷺ کا پیغام سیکھا اور سکھایا جارہا ہے۔

قارئین! اعتزاز احسن ایڈووکیٹ کا یہ کہنا تھا کہ پاکستانی قوم نفرتوں کی سازشوں کو سمجھ چکی ہے اور محبتوں کے سفر کی طرف گامزن ہے، انکل سام اور اُن کے نام لیوا کلمہ گو با عمل مسلمانوں کو مذہبی جنونی اور بنیاد پرست بنا کر پیش کر رہے ہیں۔آپ خود فیصلہ کیجئے ۔ فرعون کون ہے ؟ سامری کون ہے؟ گوسالہ کون ہے؟ دینِ حق پر عمل کرنے والا کون ہے اور بھٹکا ہوا انسان کو ن ہے؟ ہم جان چکے ہیں کہ موت کی وادی میں آبِ حیات اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا پیغام ہے۔ اسی میں ہماری بقاءاور آخرت کی نجات ہے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374452 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More