کہاں ہے کرپشن۔۔۔؟؟؟

کرپشن کا خیال ذہن میں آتے ہی کچھ خاص قسم کی ہستیاں دماغ کے پردے پر اپنا عکس بنانا شروع کر دیتی ہیں اور یہ ہستیاں مدتوں سے جانی پہچانی سی ہوتی ہیں ۔ ان میں سے بعض ہستیاں توہماری پیدائش سے بھی پہلے کی ہوتی ہیں۔اپنے بزرگوں سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہو جاتے ہیں اور اپنی نمدار آنکھیں بند کر کے کہیں دور کھو جاتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عذاب تو ہم پُشتوں سے ہی سہتے آ رہے ہیں۔پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی یہ گدھ اپنے پر پھیلا کر اس پاک سر زمین پر اپنا منحوس سایہ ڈال چُکا تھا۔ نفرت کرنے والوں نے نفرت بھی کی اُسے ختم کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔۔۔لیکن!!!

اس بلا سے چھٹکارہ حاصل کرنے والوں کے مقابلے میں اس سانپ کو دودھ پلانے والوں کی تعداد زیادہ تھی جنہوں نے اس گدھ کو ،اس بلا کو، اور اس سانپ کو ہر ممکن تحفظ دیا اور آخر کار اس کو آبِ حیات پلا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے نہ ختم ہونے والی زندگی عطا کر دی اور پھر اس لا فانی دیوتا کی پوجا کی جانے لگی۔

سرکاری دفاتر میں ، تھانوں میں، عدالتوں میں،ایوانوں میں، اسمبلیوں میں حتٰی کہ اس بلا نے ہر جگہ اپنے پنجے گاڑ دیئے ۔ ایک پٹواری اور کلرک سے لے کر ایک اعلیٰ افسر تک اس کے جال میں پھنستا چلا گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ مخالفین بھی اس کی طرف راغب ہونے لگے مجبوراً یا کسی ضرورت کے تحت۔ یوں اس کی طاقت میں مزید اضافہ ہوتا گیااور آج یہ گدھ، یہ بلا،یہ سانپ اس قدر طاقتور اور مضبو ط ہو چکا ہے کہ اس کی طرف اُنگلی اُٹھانے والے کی اُنگلی،آنکھ اُٹھانے والے کی آنکھ اور آواز اُٹھانے والے کی آواز سلامت نہیں رہتی۔اس کے خلاف جتنی بھی تحریکیں چلیں جتنے بھی احتجاج کیے گئے جتنے بھی دھرنے دیئے گئے بھوک ہڑتالیں کی گئیں سب کی سب بے فائدہ اور بے ثمر رہے۔ یہ بلا بھی پلتی بڑھتی گئی اور اس کی پوجا اور رکھوالی کرنے والوں کے بھی وارے نیارے ہوتے گئے۔آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اس بہتی گنگا میں نہا رہا ہے وہ خوشی اور مسرت سے زندگی گزار رہا ہے اُسے دنیا جہاں کی ہر نعمت میسر ہے ۔ وہ فیکٹریوں اور کارخانوں کے مالک بھی بن چکے ہیں۔زمینیں اور جائیدادیں بھی اُن کی ملکیت ہیں ۔ اسمبلیوں اور ایوانوں پر بھی اُن کا قبضہ ہے۔ہماری تقدیروں کے فیصلے بھی اُنہیں کے ہاتھوں میں ہیں۔ قانون کو بنانے والے بھی وہی ہیں اور قانون کو توڑنے والے بھی وہی۔ خود جعلی ڈگریاں لے کر بھی اُنہوں نے ملک کی تعلیم کی وزارت کو سنبھالنا ہوتا ہے۔اُن کے اپنے بچے ملک سے باہر تعلیم حاصل کر رہے ہو تے ہیں ۔ اُن کے بینک اکاﺅنٹ بھی ملک سے باہر ہوتے ہیں۔جس کا زور جہاں چلتا ہے وہاں کا وہ کرپشن کا بادشاہ ہے ۔ جس کا نہیں چلتا اُس کے لیئے یہ سب گناہ ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔

ایک معمولی کلرک کی کرپشن بیسیوں سے شروع ہو کر ہزاروں تک ختم ہو جائے گی۔ایک بڑے افسر کا ریٹ ہزاروں سے شروع ہوتا ہے تو لاکھوں پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن ان سے بھی بڑے بڑے بادشاہ ہیں جن کی کرپش شروع ہی کروڑوں سے ہوتی ہے اور اربوں کھربوں کی حدود بھی پار کر جاتی ہے۔یہ وہ بے تاج بادشاہ ہیں جو کرپشن کو اپنا سب سے پہلا حق سمجھتے ہیں بلکہ وہ اقتدار میں آتے ہی اپنا یہ حق حاصل کرنے کے لئے ہیں۔

موجودہ حکومت نے بھی اپنایہ حق حاصل کرنے کے لیئے سابقہ حکومتوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ۔ ایم پی ای، ایم این اے، وزیر، سیکرٹری، مشیر، سینیٹرسب کے سب اپنی اپنی طاقت کے مطابق دن رات انہیں کاموں میں مشغول ہیں ۔وزیر اعظم اور صدر کی تو بات ہی الگ ہے کیوں کہ وہ تو بادشاہوں کے بادشاہ ہیں اور اپنی اس بادشاہی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔اس حکومت نے تو اقتدار میں آتے ہی کرپشن کا ایسا بازار گرم کر دیا تھا کہ کرپشن خود پریشان ہو گئی تھی کہ یہ اُس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔آئے دن کوئی نا کوئی ایسا سکینڈل سامنے آتا ہے کہ عوام کو دن میں بھی تارے نظر آنے لگ جاتے ہیں۔ اور رات کو نیند بھی نہیں آتی۔ بلبلاہٹ اور کلبلاہٹ کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ لوگ ذہنی طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ کرپشن کرنے والے تو بیچارے حاجیوں کو بھی نہیں بخشتے۔کبھی وزیر اعظم کا ایک بیٹا کرپشن میں ملوث پاےا جاتا تو کبھی دوسرا یعنی آوے کا آوا ہی۔۔۔

اپنی کالی کرتوتوں کو چھپانے کے لیئے سب کے سب چور اور لٹیرے متحد ہو جاتے ہیں اور عوام کی آنکھوں میں چلو بھر بھر کر دھول جھونکتے ہیں اور سارے کے سارے یک زبا ں ہو کر یہی راگ الاپتے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ جمہوریت کی گاڑی رواں دواں ہے۔ ایمانداری کا بول بالا ہے ۔انصاف تو لوگوں کو اُن کی دہلیز پر ملتا ہے۔قانون کی بالا دستی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ اگر کوئی اُن مداریوں سے یہ پوچھ لے کہ یہ کرپشن کیوں ہو رہی ہے اور یہ کون کر رہا ہے۔۔۔ تو وہ ایک بار پھر سب کے سب یک زباں ہو کر بولیں گیں ۔۔۔
ہمیں تو نظر نہیں آ رہی۔۔ ۔۔۔ کہاں ہے کرپشن۔۔۔۔؟؟؟؟
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 109643 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.