ڈسٹرکٹ جیل بنوں کا تازہ واقعہ
کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے ، اس نے پوری قوم کو عدم تحفظ کا احساس دلا
دیا ہے ، اسے نرم سے نرم الفاظ میں سیکیورٹی اداروں کی مجرمانہ غفلت او
رکوتاہی ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ صوبائی وزیر اطلاعات کے مطابق چار سو کے
لگ بھگ قیدی فرار ہوئے ہیں ، کس قدر تعجب کی بات ہے کہ حملہ آور شمالی
وزیرستان سے درجنوں گاڑیوں پر قافلے کی صورت میں آئے اور ڈسٹرکٹ جیل بنوں
پر ہلہ بول دیا، مین گیٹ اور دیواروں کو راکٹو ں سے اڑا دیا گیا ،بیرکوں کے
تالے توڑ دیے گئے اور اپنے تمام ساتھیوں کو رہا کرواکر جلوس کی شکل میں
باقاعدہ جشن مناتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے ، طالبان ترجمان نے کہا کہ اس مشن
پر دو کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں اور مقامی آبادی کی مدد سے یہ کارروائی
کامیاب ہوئی ، اس حوالے سے جو ابتدائی رپورٹ آئی ہے وہ حکومتی اداروں کی
غفلت اور کوتاہی کا منہ بولتا اور بین ثبوت ہے کہ کس ڈرامائی انداز میں
منصوبہ بند ی کی گئی ، سو اہلکاروں میں سے 65غیر حاضر تھے ، ڈیوٹی پر مامور
باقی اہلکاروں میں سے دس کے پاس رائفلیں تھیں اور ان اہلکارو ں نے بھی
بجائے کسی مزاحمت کے اپنی جان بچانا زیادہ بہتر اور مناسب سمجھا ، اس طرح
کے سیکیورٹی انتظامات کو شرمناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ بنوں جیل کے اس
واقعہ نے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر گہرا سوالیہ نشان ثبت کر دیا اور
شدت پسندوں کایوں اپنے ساتھیوں کو رہا کروالینا انتہائی تشویشناک ہے ،اس
بحث سے قطع نظر کہ جیل میں مقید افراد کن جرائم میں ملوث تھے ، کیا واقعی
وہ بم حملوں اور قتل و غارت میں ملوث تھے یا یونہی جرم بے گناہی کی سزا
بھگت رہے تھے ، یہاں پر تو صرف حکومت کے سیکیورٹی انتظامات پر سوالات اٹھ ر
ہے ہیں کہ بھاری بھر کم فنڈز ہڑپ کرنے والے ان سکیورٹی اداروں کی کیا یہی
کار کر دگی اور پراگرس ہے؟ ۔ کراچی ، کوئٹہ ، گلگت میں امن و امان کی مخدوش
تر ہوتی صورتحال کے بعد بنوں جیل سے عسکریت پسندوں کے فرار سے صاف عیاں ہے
کہ ہمارے عبد الرحمن ملک قبیل کے حکمرانوں کے تمام تر دعوے ریت کے گھروندے
ثابت ہوے ہیں اور شدت پسندوں و دیگرو طن دشمن طاقتوں کے نیٹ ورک کو توڑنا
اس قدر آسان نہیں ، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ساری کارروائی جیل حکام اور
مقامی طالبان کے مابین ملی بھگت کا نتیجہ ہے ،ابتدائی رپورٹ جو وزارت داخلہ
کو بھجوائی گئی اس سے یہی لگتا ہے کہ واقعی جیل حکام یا تو حملہ آورں کے
ہاتھوں بک چکے تھے یا پھر انہوں نے اپنی جان بچانا زیادہ ضروری سمجھا اور
مقامی طالبان کے اس سیلاب کے آگے سے ہٹ جانے ہی میں اپنی عافیت جانی ۔
افسوسناک ترین امر یہ ہے کہ وطن دشمن طاقتیں دھرتی کو مٹانے کی خاطر کمر کس
کر میدان میں کو د چکی ہیں مگر ہمارے صاحبان اقتدار کو اس کی کوئی پرواہ تک
نہیں ، خود فیصلہ کیجیے کہ اس وقت جب کہ ملک کو امن و امان کے حوالے سے کئی
طرح کے چیلنجز درپیش ہیں تو کیا ایسے حالات پر قابو پانے میں ناکامی پر عبد
الرحمن ملک جیسے لوگوں کو اپنے عہدے اور منصب سے ہٹ نہیں جا نا چاہیے تھا
۔۔۔؟یاد رہے کہ مقامی طالبان نیٹو سپلائی بحالی کی صورت میں پاکستان کو
نشانہ بنانے کی دھمکیاں پہلے ہی سے دیتے آرہے ہیں تو کیا بنوں جیل واقعہ سے
یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ طالبان نے نئے سرے سے منظم ہو کر اپنی
کاررائیوں کا آغاز کر دیا ہے اور وہ اس منظم کارروائی سے پاکستانی حکام کو
کوئی واضح پیغام دینا چاہتے ہیں۔ جب سے وہ غدارملک و ملت، بزدل جرنیل مشرف
افغانستان پر چڑھائی کے لیے پاکستان کو امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا کر
گیاہے اس وقت سے لے کر آج تک ہم محض نفرتوں کے بیج ہی بوئے جا رہے ہیں اور
ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑرہی ہے ، مزید دکھ یہ کہ بعد میں آنے والے
منتخب اور جمہوری حکمرانوں نے بھی وہی تسلسل برقرار رکھا اوروطن کو شکست ور
یخت کی راہ تک لانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی،چالیس ہزار سے زائد لوگ اس
جنگ میں کام آچکے ، ملکی معیشت اربوں ڈالر ز کا نقصان اٹھا چکی ، پورے وطن
میں لاقانونیت ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے مگر ہم ہیں کہ اپنی غلطیوں سے سبق
سیکھنے کو تیار ہی نہیں اور الٹااس اس دلدل میں دھنستے ہی چلے جارہے
ہیں۔بنوں جیل سے عسکریت پسندوں کے فرار سے صاف ظاہر ہے کہ قبائلی علاقوں
میں عسکریت پسند اب بھی اتنے مضبوط ہیں کہ وہ جہاں چاہیں بلا خوف و تردد
کارروائی کر سکتے ہیں۔یہاںیہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ اگر عالمی سپرپاور
اوراس کے اتحادی مذاکرات کی بیساکھی کا سہارا لے کر افغان دھرتی سے جلد
انخلاءکے خواہشمند ہیں تو پاکستان کے صاحبان اقتدار کو وزیرستان و بلوچستان
کے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کرنے میں کیا امر مانع ہے اور کس بات نے انہیں
اس سے روک رکھا ہے ؟کیا اب بھی وہ گھڑی نہیں آئی کہ ہم اپنے کیے پر شرمندہ
ہوں اور اس پرائی جنگ سے کنارہ کشی کر لیں ؟۔اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا،
ہمارے لیے بہتر یہی ہے اور ہماری بقاء، سلامتی اور استحکام اسی میں ہے کہ
جتنا جلد ممکن ہو خود کو اس پرائی جنگ سے الگ کر کے اتحادیوں کی اس ہچکولے
لیتی کشتی سے اتر جائیں، ”انکل سام“کی بازاری دوستی سے الگ ہو جائیں ،
امریکی غلامی کے اس طوق کو اتار پھینکیں اور وزیرستان و بلوچستان کے عسکریت
پسندوں سے مذاکرات کر کے انہیں قومی دھارے میں لانے کی کوششیں تیز کر تے
ہوئے اور انہیں دھرتی کے بیٹے تسلیم کرتے ہوئے گلے سے لگا لیں، ان دگر گوں
حالات میں بھی اگر ہم امریکی دوستی سے جان چھڑا کر قبائلی عسکریت پسندوں سے
مذاکرات کر کے امن اور استحکام کا بول بالا نہیں کر نا چاہتے تو پھر اس
مملکت کے استحکام اور امن و امان کے قیام کی خاطر فقط دعاﺅں سے ہی کام
چلایا جا سکتاہے کیونکہ اس مرض کا علاج فی الوقت مذاکرات کے علاوہ کچھ بھی
نظر نہیں آتا ۔ |