آزادکشمیر حکومت نے یکم
مارچ2012ءکو یہ کہتے ہوئے کشمیر لبریشن سیل سے متعلق آرڈینینس جاری کیاکہ
اس وقت اسمبلی کا اجلاس جاری نہیں ہے اسلئے صد ر کو اطمینان ہے کہ فوری
اقدام ضروری ہے۔حالانکہ ایسی کوئی ہنگامی صورتحال درپیش نہ تھی اور صدر اس
معاملے پر اسمبلی اجلاس طلب کر سکتا تھا۔جموں و کشمیر لبریشن سیل
آرڈینینس10 آف 2012 ءکے نام سے جاری اس آرڈینینس کے ذریعے اس ادارہ کو مکمل
سرکاری ادارے کی حیثیت دے دی گئی ہے۔اس آرڈینینس کے مطابق کشمیر لبریشن سیل
کے مقاصدمیں ،کشمیر کے معاملے کو اندرون و بیرون ملک اجاگر کرنا،ریاست جموں
و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے اقدامات اٹھانا، ریاست جموں و
کشمیر کی تحریک آزادی کی تاریخ سے متعلق مطبوعات کا اہتمام،بھارتی مقبوضہ
کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا ، بھارتی
مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے تھنک ٹینک کا کام کرنا و معاملے سے متعلق
پالیسیاں ترتیب دینا اور حکومت کی طرف سے دیئے گئے دوسرے معاملات چلانے کے
امور شامل ہیں۔اس آرڈینینس کے تحت ’کشمیر لبریشن سیل پینشن فنڈ‘ بھی قائم
کیا گیا ہے۔
اس کے بعد21مارچ 2012ءکو آزاد کشمیر حکومت نے اسی طرح جنگی بنیادوں پر
آرڈینینس18آف 2012ءجاری کیا جو آزاد جموں و کشمیر فنانس ایکٹ میں ترمیم سے
متعلق ہے۔اس آرڈینینس کے تحت کشمیر لبریشن سیس کا دائرہ نہایت وسیع کیا گیا
ہے۔پبلک آفس ہولڈرز یعنی صدر،وزیر اعظم،سپیکر،ڈپٹی
سپیکر،وزرائ،مشیران،پارلیمانی سیکرٹریز،ممبران اسمبلی اور تمام دوسرے پبلک
آفس ہولڈرز کی تنخواہوں سے بحساب 0.5فیصد کشمیر لبریشن سیس ماہانہ کاٹا
جائے گا۔چیف جسٹس سپریم کورٹ،سپریم کورٹ کے ججز،چیف جسٹس ہائی کورٹ و ججز
ہائیکورٹ کی تنخواہوں سے بھی بحساب0.5فیصد کے حساب سے ماہانہ کشمیر لبریشن
سیس کاٹا جائے گا لیکن یہ رقم ماہانہ ایک ہزار سے زائد نہ ہو۔ہر سرکاری
ملازم کی تنخواہ سے بھی ماہانہ0.5کے حساب سے سیس کاٹاجائے گا۔حکومت کے زیر
انتظام تمام اداروں کے ملازمین سے بھی 0.5فیصد ماہانہ کاٹا جائے گا۔کمرشل
مقصد کے لئے فی مربع فٹ پر ایک روپیہ کشمیر لبریشن سیس عائید ہوگا۔مال
بردار گاڑیوں سے فی پھیرا دو روپے لیا جائے گا۔جائیداد کی منتقلی پر
جائیداد کی مالیت کا0.50فیصد سیس کٹوتی ہو گی۔تمام نجی گاڑیوں سے
سالانہ20روپے ،لائٹ کمرشل گاڑیوں سے 40روپے سالانہ اور ہیوی گاڑیوں سے
80روپے ماہانہ لئے جائیں گے۔موٹر سائیکل کی رجسٹریشن پر 20روپے،کار/جیپ
رجسٹریشن پر 100روپے،ہلکی کمرشل گاڑیوں کی رجسٹریشن پر200روپے اور ہیوی پر
400روپے۔آڈنری طور پر پاسپورٹ کی تجدید پر50 روپے فی پاسپورٹ اور ارجنٹ پر
100روپے فی پاسپورٹ سیس عائید کیا گیا ہے۔اسلحہ لائیسنس پر50روپے فی
لائیسنس، سات مرلہ پلاٹ کی مفت الاٹمنٹ پر100روپے فی مرلہ اور سات مرلہ
الاٹمنٹ پر200روپے فی مرلہ،سات مرلہ تک 500روپے فی مرلہ ،سات مرلہ سے زیادہ
پلاٹ پر 600روپے فی مرلہ، صنعتی وکمرشل پلاٹ پر 700روپے فی مرلہ کشمیر
لبریشن سیس لیا جائے گا۔فی ٹینڈر فارم30روپے،انلسٹمینٹ اینڈ رینیوول
پر50روپے فی فارم سیس وصول کیا جائے گا۔اسی طرح تعلیمی امتحانات، ڈوموسائیل
اور سٹیٹ سبجیکٹ پر بھی کشمیر لبریشن سیس عائید کیا گیا ہے۔سوسائٹی کی
رجسٹریشن پر 50روپے،کمپنی کے حامل شخص پر300روپے(ہر تجدیدپر)نجی سکول کی ہر
تجدید پر100روپے اور کالجز وغیرہ پر 200روپے سیس عائید ہو گا۔شیڈولڈ بنک کو
اپنی نئی شاخ کھولنے کے لئے 10000روپے اور بنک ملازمین کو 0.5فیصد کے حساب
سے،ٹھیکیداران کو ہر وصولی پر فی ہزار ایک روپیہ سیس دینا ہو گا۔
آزاد کشمیر حکومت کے اس ہنگامی فنڈ ریزنگ آرڈینیس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزاد
کشمیر حکومت تحریک آزادی کشمیر کے لئے” انقلابی اقدامات“ اٹھانے کی تیاری
کر رہی ہے۔ حکومت کے ان انقلابی اقدامات کی ایک جھلک کشمیر لبریشن سیل میں
کی گئی بھرتیوں کے معیار سے کافی حد تک ظاہر ہو ہی گیا ہے۔آزاد کشمیر کے ان”
ہونہار دماغوں“ کو شاباش نہ دینا زیادتی ہو گی جس نے ان طریقوں سے فنڈ
اکٹھا کرنے کا منصوبہ بنایا اور جس نے فنڈ ریزنگ کے یہ طریقے دریافت کئے
ہیں۔اسی طرح کے کاموں پر کہا جاتا ہے کہ” لاجواب لوگ بے مثال سروس“۔ایک
اندازے کے مطابق اس سے ہر ماہ تقریباً پانچ کروڑ روپے حکومت کو حاصل ہوں
گے۔سوائے سرکاری ملازمین کے ابھی تک اس ناجائز سیس کے خلاف کسی طرف سے کوئی
آواز نہیں اٹھائی گئی ہے۔
غالباًیہ 1987ءکی بات ہے ،گھر پہ ناشتے کے دوران خواجہ محمد امین مختار (مرحوم)
سیکرٹری جنرل مسلم کانفرنس اور خواجہ عبدالصمد وانی (مرحوم)کی گفتگو سے
معلوم ہوا کہ تھوڑی دیر بعد آزاد کشمیر کے بجٹ کے سلسلے میں وزیر اعظم
سردار سکندر حیات کی سربراہی میں ایک اجلاس ہو رہا ہے۔میں نے خواجہ امین
مختار صاحب سے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی تیز ہو رہی ہے،وزیر
اعظم صاحب کو تجویز دیں کہ کشمیر کے قلمی محاذ پر کام کرنے کے لئے ایک
ادارہ قائم کیا جائے۔امین مختار صاحب نے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت کیا کر
سکتی ہے،ہم چند لاکھ ہی اس کے لئے رکھ سکتے ہیں،کشمیر کے لئے اتنی کم رقم
مختص کرنا کیا مناسب رہے گا؟ اس اجلاس میں خواجہ امین مختار صاحب نے یہ
تجویز دی اور سب نے اس سے اتفاق کیا۔وزیر اعظم آزاد کشمیر سکندر حیات خان
نے تحریک آزادی کشمیر کے لئے بجٹ میں بیس لاکھ روپے رکھنے کا اعلان کیا۔اس
کے بعد کشمیر لبریشن سیل کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔آزاد کشمیر
حکومت کے سابق سیکرٹری رشید ملک اس ادارے کے پہلے سیکرٹری مقرر ہوئے( جن کے
خاندان کے تمام افراد جموں سے ہجرت کے دوران ڈوگروں اور انڈین آرمی کے
ہاتھوں شہید کئے گئے تھے)اور متعلقہ اہل افراد پر مبنی ایڈوائیزری کونسل
بنائی گئی۔بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی دعوت
پر اسلام آباد آئے تو انہوں نے آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے تحریک آزادی
کشمیر کے لئے رقم مختص کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔بے نظیر بھٹو نے کہا کہ
یہ تو صرف بیس لاکھ ہی ہیں،اس پرراجیو گاندھی نے کہا کہ اصل معاملہ نیت کا
ہے،یہ رقم بڑھ کر بیس کروڑ بھی ہو سکتی ہے۔راجیو گاندھی کا یہی وہ دورہ تھا
جس میں کشمیر ہاﺅس کا بورڈ بھی اس لئے ہٹا دیا گیا تھا کہ کہیں بھارتی وفد
کا کوئی فرد اسے دیکھ کر بے مزہ نہ ہو جائے۔
اس ادارے کے اخراجات پورے کرنے کے لئے آزاد کشمیر کے سرکاری ملازمین کی
تنخواہوں سے ’کشمیر لبریشن سیس‘ کے نام سے ٹیکس عائید کرتے ہوئے سرکاری
ملازمین کی تنخواہوں سے ماہانہ کٹوتی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔اس کا مقصد رقم
کے انتظام کے علاوہ یہ تھا کہ آزاد کشمیر کے سرکاری ملازمین کی تحریک آزادی
کشمیر میں عملی شمولیت کے جذبے کا اظہار کیا جائے۔آزاد کشمیر حکومت کی
نگرانی میں قائم یہ ادارہ نیم سرکاری ادارے کے طور پر قائم ہوا۔چند سال تو
یہ ادارہ اپنے قیام کے تصور کے مطابق کسی حد تک کام کرتا رہا لیکن پھراس کی
ہیت تیزی سے بگڑتی گئی۔ ایڈوائزری کونسل کا طریقہ کار ختم کر دیا گیا اور
اس ادارہ میں دانشوروں ،اہل قلم کی شمو لیت کے بجائے حکمرانوں کے منظور نظر
افراد کی بھرتی کا سلسلہ چل نکلا۔ایڈ وائزری کونسل کے خاتمے سے ادارہ کو
کونسل کے ذریعے چلانے کے بجائے اسے وزیر اعظم کی صوابدید بنا دیا گیا ۔ یہ
ادارہ بڑی نیک نیتی سے تحریک آزادی کشمیر کے علمی محاذپر کام کرنے کے لئے
بنایا گیا تھا لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ادارے کا تحریک
آزادی کشمیر کے مفاد سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ ادارہ آزاد
کشمیر کے حکمرانوں کے منظور نظر افراد کو بغیر کوئی کام کئے روزگار فراہم
کرنے اور گراں ناجائز اخراجات کی وصولی کے ذریعے کے طور پر پہچانا جاتا
ہے۔کشمیر لبریشن سیل کے خالق سردار سکندر حیات خان عرصہ پہلے کشمیر لبریشن
سیل کو ایمپلائمنٹ سیل کا خطاب دی چکے ہیں۔
سیل کے قیام کے وقت اسے سرکاری ادارہ نہ بنانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اس
ادارے میں کام کرنے والے افراد سرکاری ملازم کی’ سوچ و اپروچ‘ کے بجائے
تحریکی جذبے سے کام کرسکیں ۔2001 ءمیں کشمیر لبریشن سیل کے چند ملازمین نے
اپنی ملازمتوں کے تحفظ اور سرکاری حقوق و مراعات کے حصول کے لئے عدلیہ سے
رجوع کیا ۔عدلیہ کی ہدایت پر سیل کے قواعد و ضوابط بنائے گئے اور ملازمین (
دفتری سٹاف)کو سرکاری تحفظ دیا گیا۔بینرز،پوسٹرز،تقریبات ،دورے وغیرہ
وغیرہ،اس ادارے کے اخراجات ہیں۔ہر سال کشمیر کے نام سے وفود بیرون ملک
بھیجنے اور اس طرح کے دوسرے اخراجات کشمیر لبریشن سیل کے بجٹ میں شامل ہیں۔
کشمیر لبریشن سیل کا صدر دفتر مظفر آباد میں ہے جبکہ راولپنڈی اور لاہور
میں کشمیر سینٹر قائم ہیں۔کشمیر لبریشن سیل اپنا بجٹ بنا کر فنانس
ڈیپارٹمنٹ کو بھیجتا ہے جو اس کی منظوری دیتا ہے۔کشمیر لبریشن سیل کا
سالانہ بجٹ ساڑھے چار کروڑ روپے ہے ۔ملازمین کی کل تعداد109ہے جس میں سے
87ملازمین مستقل اور 22غیر مستقل (صوابدیدی) ہیں۔تنخواہوں،دفتری اخراجات
اور ٹرانسپورٹ کے سالانہ اخراجات تقریبا دو کروڑ روپے ہیں۔تقریبا ایک کروڑ
روپے سالانہ آزاد کشمیر حکومت کے وفد کے بیرون ملک دورے پر خرچ ہوتے ہیں جس
کے اخراجات کی تفصیل سے خود سیل لاعلم ہے، ہر سال تقریباً ایک کروڑ رقم کی
بیرون ملک دورے کی مد میں بغیر کسی حساب کتاب کے ادائیگی کی جاتی ہے ۔اس
وفد میں آزاد کشمیر حکومت کے نمائندے،حریت کانفرنس کا ایک نمائندہ اور
مخصوص منظور نظرافراد شامل ہوتے ہیں آزاد کشمیر کا اگر کوئی شخص مقبوضہ
کشمیر میں شہید ہو جائے تو آزاد کشمیر میں اس کے ورثاءکو بذریعہ متعلقہ
ڈپٹی کمشنر پچاس ہزار روپے کی امداد کی جاتی ہے۔ادارے کے باقی اخراجات
میںتقریبات ،بینرز وغیرہ اور مطبوعات شامل ہیں۔گزشتہ دس سال کے دوران کشمیر
لبریشن سیل نے تقریبا 30کتابچے شائع کرائے ہیں۔کشمیر لبریشن سیل کے
ڈائریکٹر راجہ سجاد لطیف نے اس ادارے کی افادیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ
مقبوضہ کشمیر میں بھی سرکاری ملازمین پر اسی طرح کا ٹیکس ایک فیصد کے حساب
سے عائید ہے اور یہ رقم کشمیر کلچرل اکیڈمی اور کشمیری نوجوانواں کی واپسی
و بحالی کے منصوبے پر خرچ کی جاتی ہے۔انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ یہ ادارہ
اپنے قیام کے مقاصد کے مطابق کام نہیں کر رہا ۔انہوں نے کہا کہ سیاسی
بنیادوں پر نا اہل افراد کی بھرتی کا سلسلہ ادارے کو نقصان پہنچاتا ہے،
ادارے میں کشمیر کے وسیع موضوع پر علم و مہارت رکھنے والے افراد کی خدمات
سے استفادہ ضروری ہے۔راجہ سجاد لطیف نے کہا کہ عدلیہ کی فیصلے کی روشنی میں
سیل کے دفتری سٹاف کی ملازمتوں کو سرکاری تحفظ ملا،ادارے کے رولز بنے اور
حکومت کے مالیاتی قواعد وضوابط کشمیر لبریشن سیل پر بھی لاگو ہوئے۔یوں یہ
ادارہ کلی طور پر سیاسی ادارے میں تبدیل ہو چکا ہے۔انہوں نے ادارے کی
کارکردگی کو موثر بنانے کی وکالت میں کہا کہ ادارے کے خاتمے کے بجائے اس
ادارے کی کارکردگی اس کے قیام کے مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کا مطالبہ کرنا
بہتر ہوگا۔ایک رائے یہ سامنے آئی کہ کشمیر لبریشن سیل تحریک آزادی سے منسلک
ہونے کی وجہ سے ایک حساس معاملہ ہے اس پر اخبارات میں اظہار خیال کیا مناسب
رہے گا؟ میری رائے میں کشمیر لبریشن سیل کی خرابیوں،بداعمالیوں کی ذمہ داری
آزاد کشمیر کے حکمرانوں پر عائید ہوتی ہے لہذا اصلاح احوال کے لئے معاملہ
میڈیا میں اٹھانا ہی موثر ہو سکتا ہے۔
آزاد کشمیر کے سرکاری ملازمین نے تحریک آزادی کشمیر کے لئے خوشدلی سے اپنی
تنخواہوں میں کٹوتی کا فیصلہ قبول کیا تھا لیکن جب سرکاری ملازمین یہ
دیکھتے ہیں کہ گزشتہ 24سال کے دوران اس ادارے کو حکمرانوں ،سیاست دانوں کے
ناجائز مفادات کا ذریعہ بنایا گیا ہے تو وہ ’ کشمیر لبریشن سیس‘کے نام سے
ہونے والی اس کٹوتی کو زبردستی پر مبنی ناجائز ٹیکس قرار دیتے ہیں۔kashmir
libration cell کو عرصہ دراز سے Kashmir Liberation Sellکہا اور سمجھا جاتا
ہے۔ آزاد کشمیر کے عوام تحریک آزادی کشمیر کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار
ہیں لیکن تحریک آزادی کے نام پر اکٹھی رقم کو آزاد کشمیر کے حکمرانوں ،سیاستدانوں
کے مفادات اور ناجائز اخراجات کے لئے ادا کرنا آزاد کشمیر کے عوام کو ہرگز
قبول نہیں ہونا چاہئے۔ ’کشمیر لبریشن سیس‘کے نام سے عائید اس ٹیکس کی مثال
ڈوگرہ دور کے ظالمانہ ترین قوانین میں بھی نہیں ملتی کہ جہاں کسی نیک مقصد
کے لئے مسلسل ماہانہ رقم اکٹھی کی جائے اور اسے اس کے مقاصد کے برعکس
ناجائز مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا لیا جائے۔اب جبکہ کشمیر لبریشن سیل کے
ملازمین کو سرکاری حقوق و مراعات حاصل ہیں اور ادارہ مکمل سرکاری ادارہ بن
چکا ہے، آزاھ کشمیر حکومت سرکاری ملازمین سے جابرانہ ٹیکس وصول کرنے کے
بجائے باقی سرکاری محکموں کی طرح کشمیر سیل کے اخراجات بھی خود پورے
کرے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کشمیر لبریشن سیل کو سرکاری ملازمین کا ہجوم
بنانے کے بجائے اصل مقاصد کے لئے استعمال کی جاتا ، اگر اس ادارے کی اصلاح
نہیں ہو سکتی تو” آب زم زم کی بوتل میں شراب“ رکھ کر” ثواب“کی تمنا عبث ہو
گی اور ادارہ بند ہونے کی صورت اس کی تمام تر ذمہ داری آزاد کشمیر کے ان
سیاستدانوں پر عائید ہو گی جواس تحریکی ادارہ میں ’آنکھوں کا لحاظ‘ بھی نہ
رکھ سکے۔یہ ادارہ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے
آزاد کشمیر کے عوام کی وابستگی کی علامت ہے لیکن طالع آزما سیاستدانوں نے
اس ادارے کو یوں استعمال کیا کہ یہ تحریک کے مفاد میں کام کرنے کے بجائے
بدنامی کا باعث بن گیا۔کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تو اندر کی صورتحال
ہے ،بھارت تو اس ادارے سے بہت پریشان ہو گا۔میرے خیال میں اگر قومی امور
میں بھی ہماری خصلت بد ہی ہے تو ہمیں منافقت کے ڈھونگ کا لبادہ اتار پھیکنا
چاہئے۔ایسا کر کے ہم دوسروں کو نہیں بلکہ خود کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔
اب کشمیر لبریشن سیس کے نام سے عائید ٹیکس کے دائرہ کار میں اضافے کہ وجہ
یہ بتائی گئی ہے کہ اخراجات کی شرح میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔پہلے گریڈ ون
کے ملازم کی تنخواہ ایک ہزار روپے سے کم تھی اب وہ تقریبا دس ہزار روپے
تنخواہ لیتا ہے۔ اس پر مجھے مظفر آباد کے ایک عزیز کا سنایا واقعہ یاد آ
گیا۔ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے مظفر آباد میں وکالت کی پریکٹس شروع کی
تو ایک دن ٹوپیاں فروخت کرنے والا ایک پٹھا ن آیا۔وہ پٹھان اپنے نام آئے دو
سو روپے کے ٹیکس کے خاتمے کے لئے کیس کرنا چاہتا تھا۔وکیل نے اس سے آٹھ سو
روپے فیس لی۔فیصلہ پٹھا ن کے حق میں ہوا ۔وکیل نے پٹھا ن سے پوچھا کہ تم نے
مجھے آٹھ سو ر وپے فیس دے دی لیکن دو سو روپے ٹیکس نہیں دیا،آخر اس کی وجہ
کیا ہے؟پٹھان نے جواب دیا کہ ” یہ دو سو روپے نہیں بلکہ میں نے دو لاکھ
روپے بچائے ہیں،اگر میں ایک دفعہ حکومت کے کاغذوں میں درج ہو جاتا تو یہی
ٹیکس بڑہتے بڑہتے دو لاکھ ہو جاتا“۔ اب بیچارے آزاد کشمیر کے عوام یہی سوچ
سوچ کر پریشان ہورہے ہیں کہ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں،حکمرانوں کی” تحریک
آزادی کشمیر“ کہاں جا کرتھمے گی؟ سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ حکومت ٹیکس
کے پیسوں سے ہی چلتی ہے لہذا ’ کشمیر لبریشن سیس‘ صرف سرکاری ملازمین کے
بجائے سب پر عائید کیا جائے۔ تحریک آزادی کشمیر کا سب سے زیادہ احساس بھی
سرکاری ملازمین کو ہونا چاہئے کیونکہ آزاد کشمیر کی آزادی اور ریاستی تشخص
کی برکات اور نعمتوں سے سب سے زیادہ استفادہ سرکاری ملازمین کو ہی حاصل
ہے۔المختصر یہ کہ آزاد کشمیر حکومت کی کارکردگی خصوصاً کشمیر لبریشن سیل/تحریک
آزادی کشمیر کے حوالے سے اتنی نیک نام نہیں ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے نام
پرٹیکس کا دائرہ نہائیت وسیع کرتے ہوئے لوٹ مار ،ناجائز مفادات کا میدان
وسیع کیا جائے اور عوام اس ڈھونگ پر خاموش تماشائی بنے رہیں۔ |