ابوں سے متعلق بہت سے قصے
کہانیاں، تمثیلات، روایات اور حکایات مشہور ہیں۔ ہر زبان اور ادب میں
خوابوں کا ذکر موجود ہے مگر نفسیات کے علماء خوابوں اور جنات کی حقیقت اور
وجود سے منکر ہیں۔ ماہرین نفسیات غیرمرعی مخلوق کے وجود کو نہیں مانتے اور
نہ ہی خوابوں کی سچائی پر یقین رکھتے ہیں مگر خواب اُنہیں بھی آتے ہیں۔
خوابوں کی بہر حال ایک دنیا ہے اور اگر انسان خواب دیکھناچھوڑ دے تو اس کی
زندگی کی مٹھاس ہی ختم ہو جائے۔ انسان جان بوجھ کر بھی خواب دیکھتا ہے جسے
خیال کہا جاتا ہے۔ حسین سپنے اور شیریں خیالات انسان کو ذہنی دباؤ اور
پریشانیوں سے نجات دلانے کا بہترین نسخہ ہیں۔ روحانیت کے طلباء خوابوں اور
خیالات کی پاکیزگی کو مشائدہ قلبی کی پہلی کیفیت سے تعبیر کرتے ہیں دیگر
الہامی کتابوں کی طرح قرآن پاک میں بھی سچے خوابوں کا ذکر ہے۔ قرآن میں
حضرت یوسف ؑ کے خواب کا تفصیل ذکر موجود ہے جو ایک پیغمبر کی آئندہ زندگی
کا مکمل اور سچا نقشہ پیش کرتی ہے۔حضرت یوسف ؑ کے معجزات میں خوابوں کی سچی
اور حقیقی تعبیر بھی شامل تھی ۔ اگر خوابوں کی کوئی حقیقت نہ ہوتی تو فال
نامے اور خواب نامے کبھی مرتب نہ ہوتے اور نہ ہی یہ علم ادب کا حصہ بنتا۔
خواب انسانوں ہی کو نہیں بلکہ حیوانات کو بھی آتے ہیں ۔ پرندے خواب کی
کیفیت میں اچانک چونک اٹھتے ہیں اور شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات
وہ اس قدر خوفزدہ ہوتے ہیں کہ پھڑپھڑا کر اڑ جاتے ہیں اور اپنے مسکن اور
گھونسلے چھوڑ دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ خواب کتوں، بلیوں اور شاہینوں کو آتے
ہیں۔
علم ہندسہ کے ماہرین قرآن پاک کے اعداد سے فال اور خواب کی تعبیر کا بھی
حساب نکالتے ہیں۔ دیوان حافظ سے اخذ کردہ فال اور خواب کی تعبیر اکثر حقیقت
پر مبنی ہوتی ہے ۔ اسلیئے علماء کہتے ہیں کہ دیوان حافظ سے فال نکالنا
پریشانی کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ خوابوں کے متعلق بھی علماء کی مختلف رائے
ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ خواب بیان کر دینا چاہیے تا کہ ذہن پر بوجھ نہ رہے
اور کچھ کا خیال ہے کہ خواب صرف اپنی ذات تک ہی محدود رکھنا چاہئے اور ہر
ڈراؤنے اوربُرے خواب کے بعد با وضو ہو کر دو رکعت نفل ادا کرنے کے بعد اللہ
سے بخشش و مغفرت کے ساتھ خیر کی دعا مانگنا افضل ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا
عقیدہ ہے کہ اللہ کے حکم و ارادے کے بغیر کوئی کام نہ بنتا ہے اور نہ ہی
بگڑتا ہے۔ اللہ ہی خیر و برکت عطا کرنے والا اور شر و فساد سے بچانے والا
ہے چونکہ میں اپنا خواب آپ کے سامنے بیان کرنے والا ہوں، اسلئے گزارش ہے کہ
آپ بھی نفل ادا کریں اور اپنے اور اپنی قوم کیلئے دعا مانگیں کہ اللہ
تعالٰی ہماری خطائیں معاف فرمائے اور ہمیں نیک اور صالح لیڈر اور حکمران
عطا کرے۔ (آمین)
عرض کروں کہ مجھے بھی اکثر سچے خواب آتے ہیں اور جب کوئی حادثہ یا واقع
رونما ہو جاتا ہے تو پھر اچانک خیال آتا ہے کہ یہ منظر تو میں نے خواب میں
دیکھا تھا۔میرے اچھے اور انتہائی خوشگوار دنوں کی بات ہے کہ میں نے خواب
میں دیکھا کہ میری انتہائی عزیزازجان ہستی احمد مجھ سے جدا ہو گیا ہے اور
جاتے ہوئے ایک خط چھوڑ گیا ہے کہ اب اٹھارہ سال بعد ہی ملاقات ہوگی۔ احمد
کے جانے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا مگر چند ہی ہفتوں بعد بالکل ایسے
ہی ہوا اور احمدخاموشی سے میرا گھر چھوڑ کر چلا گیا ۔ احمد کا جانا میری
لئے باعث حیرت ہی نہیں بلکہ باعث اذیت بھی تھا جس کا درد آج تک محسوس کر
رہا ہوں۔
چند روز پہلے بھی میں نے ایک عجیب خواب دیکھا جسکا احوال آپ کے سامنے پیش
کر رہاہوں۔ دیکھتا ہوں کہ وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کرسی اقتدار
سے ہٹا دئے گئے ہیں اور ان کی جگہ صدر مملکت نے مسٹر عبدالرحمن ملک کو
نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا ہے۔ حلف برداری کے بعد حسب روایت جناب جنرل
اشفاق پرویز کیانی اور دیگر اداروں کے سربراہوں جن میں بحری اور فضائی فوج
کے کمانڈر بھی شامل ہیں، وزیر اعظم کے سامنے با ادب کھڑے ہیں اور اپنی اپنی
باری پر آداب بجالا رہے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد وزیر اعظم نے برطانوی، سعودی،
بھارتی ، امریکی اور یورپین یونین کے سفیروں سے ملاقات کی اور پھر قوم سے
خطاب فرمایا۔
اپنے پہلے اور تاریخی خطاب میں آپ نے جن باتوں کا ذکر کیا ان میں سر فہرست
جناب فردوس عاشق اعوان کو اپنی نائب وزیر اعظم مقرر کیا اور ان کی جگہ نجم
سیٹھی کو وزیر اطلاعات و نشریات کا عہدہ عطا فرمایا۔ آپ نے اپنے خطاب میں
صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کا شکریہ ادا کیا اور جانے والے وزیر اعظم
کے کارناموں کو تاریخ کے سنہرے دور سے تشبیع دیتے ہوئے ان کی خدمت کے عوض
انہیں ہلال امتیاز دینے کی سفارش کی۔ جناب وزیر اعظم نے بتایا کہ جناب
گیلانی آئندہ الیکشن تک لندن میں مقیم رہینگے اور ساڑھے چار سالہ محنت و
مشقت کا بوجھ اور کرسی جانے کا غم اتارنے کے لئے ریلیکس کرینگے۔ اس دوران
ان پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کی ذات کے متعلق کوئی
پروپیگنڈہ کیا جائے گا۔آآپ نے عدلیہ کو کھلے الفاظ میں وارننگ کی کہ اگر
حالات یہی رہے تو مشرف جیسی حرکت بھی حرکت میں آ سکتی ہے۔ جس کی تمام تر
زمہ داری عدلیہ پر ہوگی۔ آپ نے جناب علی احمد کرد کو وزیر قانون اور جناب
جسٹس طارق محمود کو وزیر پارلیمانی امور کا عہدہ عطا فرمایا۔
آپ نے فرمایا کہ دوستوں یاروں اور پڑوسیوں کی خطائیں بھول کر بہتر تعلقات
کو ترجیح دینے چاہئے۔ اس ضمن میں بات کرتے ہوئے آپ نے نیٹو سپلائی کی بحالی
میں جو تاخیر ہوئی اس پر نیٹو، امریکہ، بھارت، افغانستان اور ان کے
گارینٹیئر عرب شیخوں اور بادشاہوں سے اجتماعی معافی مانگتے ہوئے نیٹو
سپلائی فوراً بحال کرنے کا حکم جاری کیا۔
آپ نے فرمایا کہ پانی خدا کا عطیہ ہے اس لئے اسے روکنا خدائی کاموں میں
مداخلت اور یزیدیت کے مترادف ہے۔ آپ نے اس بات کی مزید تشریح فرماتے ہوئے
کہا کہ دریا کی موج روکنا دریاؤں سے پنگا لینے کے مترادف ہے، اسلیے نہ
بھاشا ڈیم بنے گا اور نہ ہی کالا باغ ڈیم۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی بارشیں
بہت ہوتی ہیں اور ملک میں ہر سال سیلاب اورآفتیں آ جاتی ہیں جسے سنبھالنے
کی ہمارے پاس گنجائش نہیں۔ آپ نے جناب بلور برادران سے گذارش کی کہ وہ
افغان بھائیوں اور وہاں موجود بھارتی بھائیوں کی ضروریات کا اندازہ لگا کر
کچھ گندم پہلے ہی کابل، جلال آباد، قندھار اور مزار شریف جمع کرنے کا جامع
منصوبہ پیش کریں۔ اس طرح سیمنٹ، چینی ، چاول اور گوشت وغیرہ کی سپلائی کو
بھی نہ روکا جائے اور اس ضمن میں بھارت اور افغانستان جانے والے مال کی
سمگلنگ نہ کی جائے۔
آپ نے بھارت کے ساتھ جذبہ خیر سگالی کو فروغ دینے کیلئے انہیں حسب ضرورت
دریائی پانی استعمال کرنے کی اجازت دی اور اس ضمن میں جو تنازعات ملکی اور
عالمی سطح پر چل رہے تھے انہیں فوراً ختم کرنے کی ہدایت جاری کی۔ آپ نے
بھارتی وزیر اعظم کے نام پیغام میں کہا کہ کچھ عاقیبت نااندیش لوگوں نے آپ
کو پریشان کرنے کیلئیے انڈس واٹر کمیشن کا واویلہ مچایا تھا۔ جس پر اُن کی
حکومت اور پارٹی قیادت نہ صرف شرمندہ ہے بلکہ ہر طرح کے اذالے کیلئے تیار
ہے۔
پاک بھارت دوستی پر بات کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اس خطاب کے دوران میں
اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کے خاتمے کا اعلان
کرتا ہوں اور آزاد کشمیر کو پاکستان کا چھٹا صوبہ قرار دیتا ہوں۔ اس سلسلے
میں ہم شملہ سمجھوتے کی روشنی میں بھارت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ
آزادکشمیر پر ہمارا حق تسلیم کرے اور ہم جموں و کشمیر پر آئندہ کوئی بیان
بازی نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ آج شام کو ایوان صدر اسلام آ باد میں
ایک پر وقار تقریب ہوگی جس میں آزاد کشمیر کے پہلے وزیر اعلٰی اور گورنر
حلف اٹھا ئینگے۔ آ پ نے آزاد کشمیر کے موجودہ سینیئیر وزیر کی خدمات کا ذکر
کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے پارٹی قائدین کی جس طرح خدمت کی اس کی مثال دنیا
کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مشرف دور میں جب میں بذریعہ کابل لندن پہنچا
تو آپ نے نہ صرف میرے قیام کا بندوبست کیا بلکہ ایسے ایسے گُر بتائے کہ میں
چند ہی سالوں میں ارب پتی بن گیا۔ آپ نے کشمیر ہاؤسنگ سوسائٹی کا چارج لیا
تو ہمارے قائدین کے وارے نیارے ہو گئے اور ہر کسی کی جیب بھاری سے بھر کم
ہو گئی۔ آپ کی ان گنت خدمات کے صلے میں میں آپ کو آزاد کشمیر کا پہلا وزیر
اعلی مقرر کر رہا ہوں اور اس سلسلہ میں ساری پارٹی قیادت اور صدر مملکت کو
چند ماہ پہلے سے ہی اعتماد میں لے چکا ہوں۔
ٓآپ نے فرمایاکہ ہم خواتین کی بے حد عزت کرتے ہیں اور ان کے حقوق کو برابری
کی سطح پر لانے کیلئے دن رات کو شاں رہتے ہیں۔ میرا تعلق سیالکوٹ سے ہے جو
کہ اقبال ، فیض، نعیم بخاری، فردوس عاشق اعوان اور دیگر ذہین اور کامیاب
لوگوں کی دھرتی ہے۔ میں اس دھرتی کو سلام پیش کرتے ہوئے شہزادہ کو ثر
گیلانی کو آزاد کشمیر کی پہلی گورنر نامزد کرتا ہوں جو کہ پارٹی چئیرمین
اور صدر مملکت کی عین خواہش کے مطابق ہے۔ گورنر صاحبہ پارٹی کی درینہ اور
جناب فردوس عاشق اعوان کی طرح دلیر کارکن ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آزاد
کشمیر کے پہلے وزیر اعلی اور گورنر صاحبہ مل کر اس خظے کی شکل بدل دینگے
اور باہم اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرینگے۔ وہ ماضی کی طرح ایک دوسرے پر
حملہ آور نہ ہونگے اور مثالی حکمران اور قائد ثابت ہونگے۔
آپ نے اپنی تقریر کے دوران اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ بھی دیا اور
جناب امتیاز عالم اور پرویز ھود بھائی کو مشرق وسطیٰ کے معاملات درست کرنے
کا مشن دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جناب پرویز ھود بھائی کو چند ہفتوں بعد سائنس
و ٹیکنالونی کا وزیر مقرر کیا جائے گا جبکہ جناب امتیاز عالم دلی میں ہمارے
سفیر ہونگے۔
آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ بلوچستان کا مسئلہ ہم عالمی طاقتوں کی
خواہشات کے مطابق حل کرینگے جبکہ کراچی میں کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں جسے حل
کیاجائے۔ آخر میں آ پ نے فرمایا کہ وہ چوبیس گھنٹوں کے اندر امریکہ،
برطانیہ اور سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں اور وطن واپسی پر وہ
نئی کا بینہ کا اعلان کرینگے۔ آپ نے نئی کابینہ میں جنرل ریٹائرڈ طلعت
مسعود، مشائد حسین سید، بلور برادران، حامد میر، کامران خان، نصرت جاوید،
سلیم صافی کو شامل کرنے کا عندیہ بھی دیا۔
آپ نے فرمایا کہ ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی امریکہ سے واپسی پر مرتب کی
جائے گی تا کہ ملک میں امن اور خوشحالی آئے اور عالمی سطح پر ہمارا امیج
بحال ہو۔ آپ نے دینی سیاسی جماعتوں کو وارننگ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے
صبر کا امتحان نہ لیا جائے ورنہ بنگلہ دیش ماڈل پر کام ہو سکتا ہے۔ آپ نے
فرمایا کہ جس طرح بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی زیر عتاب ہے اس طرح یہاں بھی
کچھ ہو سکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ عالم اسلام اور دنیا کی دیگر مہذب اور
جمہوریت پسند اقوام ہمارے ساتھ کھڑی ہونگی۔
آخر میں بھارت کا ایک بار پھر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چند روز قبل صدر مملکت
اور جناب من موہن سنگھ کی ملاقات ہو چکی ہے اور یہ ملاقاتیں آئندہ بھی جاری
رہنے کا امکان ہے۔ جناب راہول گاندھی اور چییر مین بلاول زرداری بھٹو کی
ملاقات ایک تاریخی لمحہ تھا اور آپ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اخوت اور
محبت کی نئی تاریخ ہمارے نوجوان قائدین لکھیں گے۔ آپ کے خطاب کے بعد
ٹیلیویژن چینلوں پر تبصروں کا سیلاب آ گیا اور تبصروں نے اپنے ایک روشن صبح
اور امید کی کرن سے تعبیر کیا۔
جن خواتین و حضرات کو نئی کابینہ میں فوراً شامل کیا گیا اور جن کے نام لئے
گئے ان کیلئے مبارک بادوں کے ٹکر چلنے لگے۔ خوشحالی، امن اور پڑوسیوں کے
ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے پر وزیر اعظم کے نام کے ترانے بجنے لگے اور
ہر طرف جلوس، ریلیا ں اور چراغاں ہونے گا۔
پشاور میں ایک ایسے ہی جلوس کی قیادت جناب بشیر بلور کو کرتے دکھایا گیا
اور باچا خان چوک میں اسفندیار ولی، افراسیاب خٹک خطاب کر رہے تھے۔ کراچی
میں ایم کیو ایم اور اے این پی مشترکہ ریلیاں دکھائی جا رہی تھی کہ گھڑی نے
آلارم بجا کر مجھے جگا دیا۔
قارئین کرام۔:- جب سے مجھے یہ خواب آیا ہے میرے ذہن پر ایک بوجھ تھا کہ اسے
کس طرح اور کس کے ساتھ شئیر کروں۔ چونکہ یہ خواب اہل پاکستان کے متعلق ہے
اور میں نے اپنے ان ہم وطنوں کو شادیانے بجاتے دیکھا ہے۔ اس لئے ضروری
سمجھا کہ آپ سے ہی شئیر کرلوں۔ اگر خواب سچا ہے تو جناب عبدالرحمن ملک اور
ان کی نئی کابینہ کو میری طرف سے ایڈوانس مبارک باد۔ اس خواب کی تعبیر کیا
ہے ؟ یہ سوال میں مولانا فضل الرحمن اور جناب نواز شریف کے سامنے رکھتا
ہوں۔ جو بھی ہے اس خواب میں کچھ ایسا ہے جو ہونے والا ہے، اسلئے آپ دو رکعت
نفل ادا کریں اور اپنے ملک، قوم اور اپنے لئے دعا مانگیں کہ رب کائنات
ہمارے گناہ معاف کرے اور نیک اور صالح قیادت عطا فرماے۔ ہمارے ملک میں جتنے
بھی سیاسی اور جمہوری ادوار آئے وہ مارشل لاؤں سے بھی بدتر تھے۔ ہمیں اس
بات کا بھی اعتراف کرنا چاہیئے کہ بحیثیت قوم ہم ایک اچھے قائد اور لیڈر کا
چناؤ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بہر حال یہ ایک خواب ہے میرا خیال نہیں۔
ختم شد |