فلسطین کیلانی، طالبہ، رملہ، غرب اردن
’ہم حقیقت میں کسی بھی امریکی صدر سے کوئی توقع نہیں رکھتے لیکن میرے اندر کہیں
ایک امید ہے کہ اوباما کچھ الگ کریں گے۔ ان کا دوسرے امریکی صدور سے مختلف
خاندانی پس منظر ہے۔ یہ حقیقت کے وہ آدھے سیاہ فام، آدھے تارکینِ وطن، اور آدھے
مسلمان ہیں اور وہ صدارت کے عہدے تک پہنچے ہیں ۔ وہ بہت اچھا ہے اور میں واقعی
جو انہوں نے اپنے لیے حاصل کیا ہے اس کی قدر کرتی ہوں۔
میں ان سے امید کرتی ہوں کہ وہ کم از کم ہم سے منصفانہ سلوک کریں گے، ہماری بات
سنیں گے، اور دوسرے صدور سے کچھ مختلف ہوں گے۔
میں ماضی میں بہت مایوس ہوئی ہوں، اس لیے میں کسی سے کوئی توقعات یا امیدیں
نہیں رکھ رہی ہوں۔
رفی کپلان، غربِ اردن کی اوفرا بستی کے مذہبی سکول کے سربراہ
’یہ عجیب ہے کیونکہ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ کبھی منتخب نہیں ہوں گے۔ میرے خیال
میں وہ اسرائیل کے لیے بش جیسے اچھے نہیں ہوں گے۔ لیکن میں بہت جذباتی ہو گیا،
میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں بہت اسرائیلی ہوں، میں بہت یہودی ہوں، بہت
صیہونی، لیکن مجھے اس صبح امریکی ہونے پر فخر تھا، اور وہ صدر بھی نہیں تھے جن
کو میں چاہتا تھا کہ وہ جیتیں۔
میرے خیال میں دنیا مسلمانوں کے خوف کے بہت زیادہ اثر میں ہے۔ اور مجھے ڈر ہے
کہ اوباما ان کے بہت زیادہ نزدیک ہوں گے۔
اگر عربوں کو یہ سمجھا دیا جائے کہ وہ بچوں کو اور دہشت گردی کو استعمال کر رہے
ہیں، اگر امریکہ ہماری حمایت کرے اور کہے کہ ’دہشت سے کچھ حاصل نہیں ہو گا،
بیٹھ جاؤ اور امن کرو،‘ میرا خیال ہے کہ انہیں سمجھ آ جائے گی کہ ان کے پاس
کوئی اور راستہ نہیں۔
اگر وہ یہاں ہوتے تو میں ان سے گرم جوشی سے بغلگیر ہو جاتا۔ سب سے پہلے میں
بائبل نکالتا اور تاریخ کے کچھ باب ان کے ساتھ پڑھتا۔۔۔ بائبل کے وہ باب جن میں
اسرائیلوں کے ساتھ ارضِ مہود پر واپسی کا وعدہ کیا گیا ہے۔
شائے شیٹکس، تل ابیب اور بلغاریہ میں باسکٹ بال لیگ کے مینیجر
’میں ان سے کہوں گا کہ وہ کہ غزہ میں صورتِ حال کو اپنے عہدے کے آغاز کے ایک ہی
گھنٹے میں ختم کر دیں۔ ان کے پاس یہ کرنے کی طاقت ہے اور انہیں یہ کرنا چاہیئے۔
اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، اس کے صرف سیاسی حل ہیں۔ وہ اکیلے امن نہیں لا
سکتے، لیکن وہ لوگوں کو میز پر بلا سکتے ہیں اور انہیں منطقی سوچ دے سکتے ہیں۔
یہ سیدھی سی بات ہے۔
حماس سے بات کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں۔ میں بھی انہیں پسند نہیں کرتا، کوئی
اس طرح کی صورتِ حال پسند نہیں کرتا۔ ہم انہیں نہیں مار سکتے، وہ ہمیں نہیں مار
سکتے۔ کسی کو حل تلاش کرنا ہی ہے۔ انہیں چاہیئے کہ وہ انہیں ضرور میز پر لائیں۔
مجھے یاد ہے کہ کوئی عرفات کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن پھر واشنگٹن میں ان سے
ہاتھ ملائے گئے۔ آپ دوستوں سے صلح نہیں کرتے، آپ دشمنوں کے ساتھ صلح کرتے ہیں۔‘
نصیر عبدالہادی، عربِ اردن کے شہر رملہ میں ایک ہوٹل کے مالک
’ہم سوچ رہے تھے کہ اوباما تبدیلی لائیں گے، لیکن گزشتہ دو ہفتوں میں غزہ کے
لوگوں کے خلاف جو ہم نے نسل کشی دیکھی ہے۔ مسٹر اوباما نے کچھ نہیں کیا۔
ہم ہمیشہ امید کا دامن نہیں چھوڑتے۔ جب انڈیا میں دہشت گرد حملہ ہوا تھا تو وہ
انہوں نے بیان دیا تھا، لیکن جب غزہ میں ایک ہزار لوگ ہلاک ہوئے جن میں زیادہ
تعداد معصوموں کی تھی، تو اس وقت وہ نہیں بولے۔
امریکہ نے تیس کروڑ مسلمانوں پر ایک ترجیح دی اور اب مجھے واقعی تشویش ہے کہ اب
کیا ہو گا کیونکہ خوف، دہشت گردی، تشدد سے تشدد ہی جنم لیتا ہے۔‘
نیتا لیوی، طالبہ، گلیلی، شمالی اسرائیل
’میں چار ماہ کے لیے امریکہ گئی تھی، وہاں میں نے اوباما کے متعلق سنا۔ میں
امید کرتی ہوں کہ وہ بش سے بہتر ہوں گے۔ سب سے پہلے وہ مشرقِ وسطیٰ اور عراق
میں جو ہو رہا ہے اس میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اور اسرائیل کے مفادات کا خیال
رکھیں گے ناکہ عربوں کے۔
مجھے نہیں معلوم کہ بش اسرائیل کے خلاف تھے کہ عربوں کے خلاف، لیکن انہوں نے
وہاں جو ہو رہا ہے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ |