انصاف کی طلبگار۔۔۔ماریہ شاہ

سول اسپتال کراچی کے برن وارڈ میں زیر علاج، ہوس کے مارے ہوئے ایک درندے کی خواہشات کی تکمیل نہ کرنے کے جرم کی پاداش میں تیزاب گردی کا نشانہ بننے والی شکار پور کی رہائشی ’’ماریہ شاہ‘‘اپنی عیادت کے لئے آنیوالے ارباب اقتدار واختیار (وفاقی وزراء و حکومتی عہدیدار) سے یہ کہتی ہے کہ’’ میرے زخم اسی وقت مندمل ہوں گے جب اس پر ظلم کرنے والے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا‘‘۔ ماریہ شاہ کی عیادت کرنے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کی ہدایت پر ماریہ شاہ کی عیادت کرنے آئی ہیں اور وہ یہ بتانا چاہتی ہیں کہ خواتین کے خلاف کسی بھی تشدد اور دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’’ماریہ شاہ‘‘ کے اوپر تیزاب پھینکنے والے ملزم کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائیگا۔اس موقع پر انہوں نے سول اسپتال انتظامیہ کو ’’ماریہ شاہ‘‘ کی بہتر ی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی جبکہ ایم ایل او سول اسپتال نے خدشہ ظاہر کیا ہے متاثرہ لڑکی کے چہرے کی سرجری کے بعد بھی پوری زندگی ان کے چہرے کی خوبصورتی اصل حالت میں بحال نہیں ہوپائے گی۔ یاد رہے کہ چندروز قبل ملزم ارسلان نے دوستی نہ کرنے اور شادی کرنے سے انکار پر مڈ وائف ماریہ شاہ کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا تھا۔ کچھ سالوںسے دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے جرائم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جس میں ظلم و بربریت کا شکار صرف اور صرف صنف نازک ہوتی ہے۔ ان جرائم میں سے ایک وحشیانہ جرم، کسی کے چہرے پر تیزاب پھینکنا بھی ہے ۔ درندگی کے اس مظاہرے کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس ظلم کا نشانہ بننے والا زندگی بھر ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے، جس میں اسے لوگوں کی کراہت بھری نظروں کے تیر اپنے وجود میں مسلسل اترتے محسوس ہوتے رہتے ہیں۔اس ظلم کا شکار ہونے والا مرد تو پھر بھی جیسے تیسے اپنی زندگی میں خوشیوں کا سامان پیدا کرہی لیتا ہے لیکن عورت ذات، جس کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھرنے کا اہم سبب ہی چہرے کی خوبصورتی ہو تو اس کے لئے اس ظلم کا شکار ہونے کے بعد زندگی ’’اک عذاب مسلسل‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے ذمہ دار کو کیفر کردار تک پہنچتے ہوئے دیکھنا ہر مظلوم کا پیدائشی حق ہے لہذا ’’ماریہ شاہ‘‘ بھی اس بات کا حق رکھتی ہے کہ وہ اپنی عیادت کے لئے آنیوالے ’’اہل ارباب اختیار و اقتدار‘‘ سے یہ مطالبہ کرے کہ اسکی خوبصورت زندگی کو ’’کراہیت اور بدصورتی ‘‘ کی دلدل میں دھنسا دینے والے وحشی درندے کو اس کے کئے کی ایسی عبرت ناک سزا دی جائے کہ آئندہ کوئی بھی ظالم اس طرح کا جرم کرنے کا سوچ بھی نہ سکے ۔

حالات اور واقعات سے تو لگتا ہے کہ ’’ماریہ شاہ ‘‘ جن ارباب اقتدار کے سامنے حصول انصاف کے دست سوال ہے ،وہ ارباب اختیار اسے سوائے تسلیوں کے کچھ اور نہیں دے سکیں گے کیونکہ وہ بے چارے تو اس قدر مجبور اور لاچار ہیں کہ جس چیف جسٹس کی باعزت بحالی کی تحریک میں ان کے کارکن اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے، اقتدار اور اختیار ملنے کے باوجود اس چیف جسٹس اور اس کے باضمیر ساتھی ججوں کی باعزت بحالی ان کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے ۔ وہ ’’ارباب اختیار و اقتدار ‘‘ ماریہ شاہ کے مجرموں کو کیا کیفر کردار تک پہنچائیں گے جو گزشتہ ایک سال سے اقتدار میں ہیں اور بااختیار بھی ہیں اور پھر بھی اپنی ’’شہید قائد‘‘ کے قاتلوں کے خلاف ایک’’ ایف آئی آر‘‘ تک درج نہ کرواسکے ہوں، باوجود اس کے قاتلوں کے بارے میں مکمل ’’جانکاری‘‘ کے دعویدار بھی ہوں۔’’ماریہ شاہ ‘‘ آپ جن ارباب اقتدار سے انصاف کی طالب ہیں یہ بے چارے تو ظلم کرنیوالوں کے سامنے اس قدر بے بس ہیں کہ ’ ’ سوات‘‘ کی معصوم بچیوں پر جبراً بند ہونے والےعلم کی روشنی کے حصول کے دروازے کھلوا نہیں سکتے ۔’’ماریہ شاہ ‘‘جو لوگ لال مسجد کی معصوم اور بے گناہ طالبات کو کیمیکل کے ذریعے صحفہ ہستی مٹانے والے ’’ظالم درندے‘‘ کو سزا دینے کی بجائے ’’گارڈ آف آنر‘‘ اور ’’ہائی الرٹ سیکورٹی‘‘ دینے پر مجبور ہوں، بھلا وہ مجبور اور بے بس ’’صاحبان اقتدار‘‘آپ کے زخم مندمل کرنے کے لئے کسی ظالم کو کیسے کیفر کردار تک پہنچا سکتے ہیں ۔لیکن ہمارا ایمان ہے کہ ’’ مصور کائنات‘‘ کے بنائے ہوئے خوبصورت چہروں پر حق ملکیت نہ ملنے پر تیزاب پھینکنے والے ظالم درندے، معصوم طالبات پر فاسفورس برسانے والے چنگیز خان اور ہلاکو خان کے پیروکار، شاید اپنے اثر و رسوخ، سیاسی تعلقات اور دولت کے بل بوتے پر دنیاوی قانون کی سزاؤں سے تو بچ جائیں گے لیکن ’’مالکِ روز جزا‘‘ کا وعدہ ہے کہ ’’ظالموں کا آخری ٹھکانہ جہنم ہی ہوگا‘‘۔(انشاء اللہ تعالیٰ)۔
Hafeez Saeedi
About the Author: Hafeez Saeedi Read More Articles by Hafeez Saeedi: 3 Articles with 5018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.